ارتغرل ڈرامہ: آخر پرابلم کیا ہے


ارطغرل تیرہویں صدی کا ایک عظیم کردار ہے جس نے اپنے مضبوط حوصلے، یقین محکم، کامل ایمان اور بہادری سے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو 600 سالوں تک دنیا پر راج کرتی رہی۔ اگر مسلمانوں کی 14 سو سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو وہ ایسے بے شمار کرداروں سے بھری پری ہے۔ جنہوں نے اسلام کا پرچم مضبوطی سے تھامے رکھا اور ظلم کے خلاف لڑتے رہے چاہے کتنی ہی اذیتیں ان کے سامنے کیوں نہ ہو وہ اپنے حق دین کے راستے سے کبھی نہیں بھٹکے اور نہ ہی کبھی اپنے دین سے منحرف ہوئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، سلطان محمد فاتح، خالد بن ولید، محمود غزنوی، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر اور ایسے بے شمار نام ملتے ہیں جو مسلمانوں کے عروج کی گواہی دیتے ہیں لیکن آج کا مسلمان زوال کا شکار ہے اور نہ ہی اپنے ماضی کے ان ہیروز کے بارے میں جانتا ہے۔

آج مسلمانوں کو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے اور اس سلسلے میں ڈرامہ نگاری ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کیوں کہ انسان جو دیکھتا ہے اسے پڑھنے کی نسبت زیادہ دیر تک یاد رکھتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایک واقعہ کی جب منظر کشی کی جاتی ہے تو وہ زیادہ اثر رکھتی ہے اور اس سلسلے میں دیریلش ارطغرل کے نام سے چلنے والا ڈرامہ جو محمت بزداگ کے قلم سے نکلا ایک عظیم شاہکار ہے وہ ارطغرل غازی کی زندگی کی عروج و زوال اور تیرہویں صدی کے مسلمان اوغوز ترکوں کی سچی کہانی ہے اور ان پر بنایا گیا ہے۔ جسے استنبول کے ریوا گاؤں میں فلمایا گیا اور 2014 میں اس کا پہلا سیزن نشر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گیا اور پے در پے 2019 تک اس کے پانچوں سیزن آسمان کی بلندیوں کو چھوتے رہے۔

ڈرامے کی کہانی ایک سلجوق شہزادی کو ٹیمپلرز یعنی کہ صلیبیوں سے بچانے اور حلب میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے کے پاس بطور ایلچی (سفیر) جانے سے شروع ہوتی ہے اور پھر اناطولیہ، منگولوں، صلیبیوں، بازنطینیوں، اور اندرونی غداروں سے مقابلے کو دکھایا گیا اور پھر سوگوت تک محدود ہو جانے اور پھر یہاں سے ایک نئے وطن کی جدوجہد کو بھی دکھایا گیا۔ لیکن یہ ڈرامہ جہاں سے شروع ہوا اس سے پہلے کی تاریخ بھی پتہ ہونی چاہیے کہ ترک ان سرزمینوں میں کہاں سے آئے؟ ارطغرل جو سلجوق ریاست کا وفادار تھا اور پھر ایک الگ ریاست کیسے بنی؟ منگول ان زمینوں میں کس وجہ سے آئے؟ یہ سرزمین اناطولیہ کہلاتی ہیں جو آج کا ترکی ہے۔ یہ جاننا اشد ضروری ہے تاکہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف فرضی کہانی ہے اور اس کا تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں وہ بھی جان جائیں۔

ارطغرل ( 1188۔ 1280 ) سلیمان شاہ کا بیٹا اور اوغوز ترکوں کے قائی قبیلے کا سردار تھا اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان کا والد۔ اوغوز ترک ان کا جد امجد اوغوز خان اور ان کا شجرہ نسب حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث بن نوح سے ملتا ہے۔ اوغوز خان کے بارہ بیٹے تھے جن کے بارہ قبیلے تھے ان میں سے ایک کا نام قائی تھا۔ یہ لوگ منگولوں کی بڑھتی ہوئی فتوحات اور پہ در پہ حملوں سے تنگ آکر مغربی وسطی ایشیا سے ایران اور پھر ایران سے اناطولیہ آ کر آباد ہو گئے۔

اناطولیہ اس کے مشرق میں سلجوقی ریاست اور مغرب میں بازنطینی سلطنت یعنی کے رومیوں کی حکومت تھی اور اناطولیہ پر بھی ان کا قبضہ تھا اور ان کا شہنشاہ رومانوس تھا اور سلجوقی ریاست میں سلطان الپ ارسلان کی حکومت تھی۔ الپ ارسلان ان دنوں مصر کی فاطمی خلافت کے خلاف محاذ میں مصروف تھا کہ رومانوس ایک بڑا لشکر لے کر اناطولیہ آ گیا، اناطولیہ اور سلجوقی ریاست کی سرحد غیر واضح تھی، الپ ارسلان جو دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا تھا، اس نے فاطمی خلافت کے خلاف محاذ کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور تیس ہزار کا لشکر لے کر رومانوس کو پیچھے سے گھیر لیا اور یوں ملاذکرت ( 1071 ) کی لڑائی شروع ہوئی اور رومانوس کو شکست ہوئی اور اناطولیہ سلجوقیوں کے قبضے میں آ گیا اس کے بعد رومیوں نے اناطولیہ کو واپس حاصل کرنے کے لئے کافی کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے، اناطولیہ پر قبضے کے بعد سلجوق ریاست کو سب سے بڑا خطرہ مشرق میں چنگیز خان سے تھا۔

چنگیز خان نے مسلمانوں کے حکمران خوارزم شاہ جو ایران اور مغربی وسطی ایشیا کا حکمران تھا اس کے پاس تاجروں کو بھیجا لیکن خوارزم شاہ نے انہیں جاسوس سمجھ کر قتل کر دیا اس واقعے سے چنگیز خان آگ بگولا ہو گیا اور اس نے ایک قاصد بھیجا تحقیقات کے لیے لیکن خوارزم شاہ نے اسے بھی قتل کروا دیا اور اس کے نتیجے میں چنگیز خان ایک بڑا لشکر لے کر نکلا اور چین سے بغداد تک مسلمان ریاستوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہ اناطولیہ تک آ پہنچا چنگیز خان کے بعد اس کے جانشینوں نے جن میں اس کا بیٹا اوغدائی خان اور اس کا پوتا ہلاکو خان نے سلجوقی ریاست کو بھی تہس نہس کر دیا اور پیچھے بچی ایک چھوٹی سی سلجوقی سلطنت ( 1078۔ 1308 ) اور ان ہی میں آباد تھا قائی قبیلہ جسے آج عثمانی ترکوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ارطغرل جو شروع سے ہی سلجوقی ریاست کا وفادار تھا اور سلطان علا الدین کیقباد بھی اس کی وفاداری کے قائل تھے انہوں نے ارطغرل کی وفاداری کے نتیجے میں سوگوت تحفے میں دیا سوگوت جو بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع تھا۔ 1237 میں سلطان علا الدین کی موت کے بعد غیاث الدین کیخسرو سلطان بنا، جس کے ساتھ اوغدائی خان محصولات کے بدلے امن معاہدہ کرنا چاہتا تھا لیکن اوغدائی خان کی موت کے بعد ہلاکو خان نے بیجو نویان کو کمانڈر بنا کر بھیجا اور پھر 1242۔

1243 میں معرکہ کوہ کوسہ ہوا اور اس میں منگولوں کے ہاتھوں شکست کے بعد اناطولیہ میں سلجوقی حکومت برائے نام رہ گئی اب ایک طرف بازنطینی تھے اور دوسری طرف منگول اور درمیان میں سوگوت جہاں قائی قبیلہ آباد تھا اور بہت سے ایسے قبائل جنہوں نے منگولوں کے خلاف بغاوت کی ہوئی تھی آباد تھے۔ ارطغرل نے قائی قبیلے کی سرداری آسمان کے سپرد کردی اور اس نے تمام باغی قبیلوں کو ملا کر اتحاد کر لیا اور ایک مضبوط فوج تیار کی یہ وہ حالات تھے جن سے گزر کر ایک نیا سورج دنیا میں طلوع ہوا اور بالآخر 1291 میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئی جو الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، سعودی عرب، یمن، کویت، عراق، اردن، اسرائیل، فلسطین، لبنان، شام،

ترکی، یونان، بلغاریہ، البانیہ، رومانیہ، سربیا، کوسوو (cosovo) ، مقدونیہ اور ہنگری یعنی تین براعظموں پر پھیلی یہ ریاست وجود میں آئی جسے سلطنت عثمانیہ کہتے ہیں۔

ترکی کی طرح پاکستان میں بھی یہ ڈرامہ جب نشر ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا اور ساتھ ہی کچھ فیس بکی سکالرز، ٹویٹری پروفیسر اور چند لبرلز اس کے خلاف میدان میں نظر آئے، ایک صاحب نے لکھا کہ یہ صرف مصنف کیا اختراع ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں میں حیران تھا کہ لکھنے والا تو ناآشنا تھا لیکن اس کو پبلش کرنے والے کیسے ناآشنا ہو سکتے ہیں خیر اوپر بیان کی گئی تاریخ ان کے اس سوال کا واضح جواب ہے کہ تاریخ میں یہ کردار موجود تھے نہ کہ صرف مصنف کی اختراع تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ ایک ڈرامے سے پاکستان میں لوگوں کو اتنی پرابلم ہو گئی کسی کو اپنی ثقافت خطرے میں نظر آئی، کسی کو اپنی پہچان خطرے میں نظر آئی تو کوئی تلواروں کی جھنکار بدلے سائنسی علوم نشر کرنے کی مانگ کرتا رہا، کسی نے کہا کہ یہ تو ترک ہے یہ ہمارے ہیرو نہیں جب کہ وہ مسلمانوں کے عروج کی کہانی ہیں یہاں پے یہ بتاتا چلوں کہ جب مسلمانوں کے کسی ہیرو کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب پوری دنیا کے مسلمان ہوتا ہے نہ کہ صرف کسی ایک خطے کے مسلمان۔

بعض لوگوں کو اس ڈرامے سے مسئلہ ہوا کہ اس سے ہماری ثقافت اور کلچر خطرے میں ہے تو کیا ان لوگوں کو انڈین ڈرامے بھول گئے کیا وہ ہماری ثقافت تھی۔ اس ایک ڈرامے کے بعد آج ہم نام نہاد لوگوں کے قلم رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے یہ قلم اس وقت کہاں تھے۔ جب پاکستان میں انڈین کرداروں کی موویز جن میں پرتھوی راج چوہان، اشوکا، شکتی مان جیسے ڈراموں کو بڑے شوق سے دیکھتے تھے اس وقت ہماری پہچان خطرے میں نہیں تھی لیکن آج ہے۔

آج ملک کی جامعات میں ہولی کا تہوار منایا جا رہا ہے کیا یہ ہماری ثقافت ہے اس کے خلاف کسی قلم نے کوئی ایک بات تک نہ لکھیں لیکن ایک ڈرامے سے ان کی ثقافت کو خطرہ پیش آ گیا کیا بھارت میں بھی مسلمانوں کے تہوار جامعات میں منائے جاتے ہیں بالکل نہیں، اس ڈرامے سے پہلے ترکی کے اور بہت سے ڈرامے جو آزاد معاشرے کی عکاسی کرتے تھے نشر ہوتے رہے اس سے کسی کو کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا لیکن اس کے بعد اچانک اپنا مواد یاد آ گیا سوال یہاں پر پھر وہی ہے آخر مسئلہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments