چودھری محمد علی رودولوی کا کلاسیک افسانہ: تیسری جنس


تھوڑے ہی دنوں میں یہ ہوگیا کہ دن کو تو ویسا ہی مجمع رہتا تھا مگر رات کو دوسری عورتیں کم رہنے لگیں۔ جب منہ نہیں پایا تو پرائے گھر میں کیسے ٹھہرتیں۔ پہلے تو عورتوں میں سرگوشیاں ہوئیں پھر محلے میں ہر شخص اسی کا ذکر کرنے لگا۔ مگر مدی اور اس عورت نے بجائے تردید کرنے کے ایک آزادانہ بے پروائی کا انداز اختیار کرلیا۔ اس عورت نے کہا ہم لوگ کسی کی بہو بیٹی ہیں یا پھرسے نکاح کرنا ہے جو ہر شخص کے آگے قسمیں کھاتے قرآن اٹھاتے پھریں۔ دنیا اپنی راہ ہم اپنی راہ۔ مدی نے کہا اگر ہمارے کوئی والی وارث ہوتا تو کسی کی مجال پڑی تھی کہ ایسی بات کہتا۔ زمانہ گزرتا گیا اور لوگوں کا شک یقین سے بدلتا گیا۔ قاعدہ ہے کہ پنچ برادری سے اگر دب جاؤ تو وہ اور دباتے ہیں۔ اگر مقابلہ پر تیار ہوجاؤ تو لوگ اپنی نیکی کی وجہ سے اکثر معاف بھی کردیتے ہیں۔ یہی حال ان دونوں کا ہوا کہ نہ کسی نے پھر پوچھ گچھ کی نہ انھوں نے انکار کی زحمت اٹھائی۔

لکھنے والے کو اغلام مساحقے کے ذکر میں کوئی مزا نہیں آتا۔ مگر اسی کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کرنے سے ڈرتا بھی نہیں۔ اگر یہ چیزیں دنیا میں ہوتی ہیں تو چپ رہنے سے ان میں اصلاح نہ ہوگی۔ نہ یہ طے ہوسکے گا کہ کہاں تک یہ چیزیں فطری ہیں۔ اور کہاں تک اسباب زمانہ سے پیش آتی ہیں۔ کسی جولاہے کے پاؤں میں تیر لگاتھا۔ خون بہتا جاتا تھا۔ مگر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو۔

ہمارے قصے کے لوگ دراصل ہیولاک ایلس اور فرائڈ نہیں پڑھے ہیں۔ اس وجہ سے مجبوراً ہمیں ان مسائل پر بحث کرنا پڑی۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہر عورت میں کچھ جزو مرد کا ہوتا ہے اور ہر مرد میں کچھ جزو عورت کا۔ جو جزو غالب ہوتا ہے اسی طرح کے خیالات اور افعال ہوتے ہیں۔ مردانہ قسم کی عورتیں اور زنانہ قسم کے مرد ہرجگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے بعض ان میں ایسے ہوں جن کو فطرتاً اپنے ہی جنس سے تعلقات اچھی معلوم ہوتے ہوں۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ اسباب زمانہ سے بھی لوگ اس راہ لگ جاتے ہیں۔ بجائے اصلاح کی کوشش کے ہر معاملے میں یہی رائے قائم کرنا کہ یہ قدرتی تقاضہ سے ہے اور اسی لیے اصلاح کی ضرورت نہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ ایسے فعل کی جس میں سماج کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو تو قانونی سزا ہونی چاہیے یا نہیں یہ دوسرا مسئلہ ہے۔

اچھا اب قصہ سنیے۔ مدی اور اس عورت سے دوسال دوستی رہی۔ اس کے بعد لڑائی ہوگئی۔ کس بات پر بگاڑ ہوگیا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ وہ جس راہ آئی تھی اسی راہ چلی گئی۔ بی مدی اجڑی بجڑی رنڈایا کھیلنے لگیں۔ جوئندہ یا بندہ، تھوڑے دنوں کے بعد ایک اور ہم جنس مل گئیں۔ اس کے بعد اور بھی ملا کیں مگر

نہ بیوفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا

مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا

وہ پہلی سی بات پھر نہ نصیب ہوئی۔ اب روپیہ بھی کم رہ گیا تھا۔ اس لیے آمدنی بڑھانے کی بھی فکر ہوئی۔ بی مدی نے تحصیل دار کے اعزا کے آگے ہاتھ بڑھایا نہ پھر سے شادی کی ہوس کی۔ بلکہ خود کام کرنے پر تیار ہوگئیں۔ پراٹھے کباب بنانا شروع کیے، جاڑوں کی فصل میں انڈے اور گاجر کا حلوا بنانے لگیں۔ کچھ عورتوں کی ضرورت کا بساط خانہ بھی منگوالیا۔ چکن کروشیا کا بھی ڈھچر ڈالا۔ بیچنے والوں کی کمی نہ تھی۔ ارد گرد کی لڑکیاں اور عورتیں سودا بیچ لاتی تھیں۔ اور حق المحنت سے زیادہ حصہ پاتی تھیں۔ بی مدی کو سوداگری کا سب سے بڑا گر نہیں یاد تھا۔ یعنی جو آدمی بہت سے کام ساتھ ہی کرتا ہے وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خرچ آمدنی سے زیادہ ہی رہا۔ یہاں تک کہ مکان بھی گروی رکھنا پڑا۔

روپیہ کے جانے کے بعد توقیر میں بھی فرق آجاتا ہے۔ مگر اس کی شائستگی، رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پھر بھی لوگوں کی نظر میں ہلکی نہ ہوئی۔ کپڑے اب بھی سلیقے کے پہنتی تھی۔ گاڑھا پردہ کبھی نہیں تھا۔ آج بھی سڑک پر ماری ماری نہیں پھرتی تھی۔ تنخواہ والے نوکر کبھی نہیں تھے۔ آج بھی کام کاج کرنے والے آسانی سے مل جاتے تھے۔ مگر اقبال مندی میں گھن بہت دنوں سے لگ چکا تھا۔ اس لیے چہرے کی آب رخصت ہوچکی تھی۔ زمانہ بدل جانے سے مزاج میں بھی فرق آگیا تھا۔ ایک دن ان کے گھر میں کئی عورتیں جمع تھیں۔ کسی نے کہا بن مرد کی عورت کس گنتی شمار میں ہے۔ بی مدی بول اٹھیں۔ ”سچ کہتی ہو بہن۔ “ ایسی بات ان کے منہ سے کبھی نہیں سنی گئی تھی۔ یہ سن کر بعض نے دوسروں کو اشارہ کیا۔ بعض نے اتفاق کیا۔ دو ایک ایسی بھی تھیں جو مدی کا منھ تعجب سے دیکھنے لگیں۔ یہ وہ تھیں جنھوں نے مدی کے منہ سے مرد کا نام بلاناک بھوں چڑھائے عمر میں نہیں سنا تھا۔

زمانہ گزرتا گیا مگر بی مدی کے دن نہ پھرنا تھے نہ پھرے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک شاہ صاحب آئے۔ بہت مرجع خلائق تھے۔ عقیدت مندوں کا ہجوم ہروقت لگا رہتا تھا۔ بی مدی بھی دوتین بار کباب پراٹھے کی نذر نیاز پیش کرچکی تھیں۔ اتنے میں خبراڑی کہ شاہ صاحب حج کو جائیں گے۔ ہمیشہ مرغ پلاؤ توکل پر کھایا کیے۔ اب حج بھی توکل پر کریں گے۔ جس دن شاہ صاحب چلے لوگوں نے دیکھا مدی بھی دامن سے لگی چلی جارہی ہیں اور لوگوں سے کہا سنا معاف کرا رہی ہیں۔ جو کچھ بچی بچائی پونجی تھی وہ بیچ کر نقد کر لیا۔ باقی کے لیے شاہ صاحب کی ذات اور توکل کا توشہ کافی ٹھہرا۔ حج سے واپسی پر وطن نہیں آئیں بلکہ شاہ صاحب ہی کے قدموں سے لگی رہیں۔ شاہ صاحب اپنے وقت کے بلعم باعور تھے۔ جی چاہے الگنی پر ڈال دیجیے۔ چاہے چادر کی طرح کاندھے پر لٹکا لیجیے۔ مدی میں جوانی کی کنی گلنے میں اب بھی دیر تھی۔ مگر شاہ صاحب کو دیکھ کر خواب میں بھی آشنائی کا خیال نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر غور کیجیے تو پیر بھی ایک طرح کا شوہر ہی ہوتا ہے جس پر مرید اسی طرح تکیہ کرتا ہے جیسے عورت مرد پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments