اسلامی جمہوریہ جرمنی


اسلامشے ریپبلک ڈوئیچلانڈ۔ جرمن زبان میں۔ اسلامی جمہوریہ جرمنی، کے الفاظ سن کر کرنل گستاف کے گویا کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا۔
”کیا مطلب؟“

ان کے اضطراب کو گویا نظر انداز کرتے ہوئے میں نے پھر دہرایا، تا کہ ان کو تسلی ہو جائے کہ انہوں نے صحیح سنا ہے۔ اسلامشے ریپبلک ڈوئیچلانڈ۔ اسلامی جمہوریہ جرمنی۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان یا اسلامی جمہوریہ ایران سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس سے پہلے ان سے میری قومی اور بین الاقوامی معاملات پر سیکڑوں بار گفتگو ہو چکی تھی۔ جیسے میں ان کے زاویہ نگاہ سے واقف تھا وہ بھی میرے نظریات سے آگاہ تھے۔ امریکا اور روس کے معاملے میں ہمارے درمیان کسی حد تک ہمیشہ اختلاف رہا۔ آرمی میں ملازمت کے دوران سے وہ امریکا نواز تھے اور بعد میں بھی یورپ میں روسی بالا دستی کے اندیشے کے پیش نظر اس موقف میں تبدیلی نہیں آئی۔

جرمنی جو صنعتی لحاظ سے دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی بدولت یہاں حکومت ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتی ہے اور عوام بھی کسی حد تک قدامت پسند ہیں۔ خاص طور پر کوئی تمدنی معاملہ ہو تو اپنے احساس برتری اور اپنے تمدن میں کسی مشرقی طرز کی تبدیلی کو گویا بدعت سمجھتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر علاقے میں کرایہ کی جگہوں کے بجائے ہماری اپنی ایک مسجد کی ضرورت شدت اختیار کر چکی تھی۔

ایک طرف جگہ ملنی دشوار تھی۔ دوسرے مقامی آبادی کی مخالفت اور قانون میں کئی قسم کی رکاوٹیں بھی موجود تھیں۔ اتحاد جرمنی سے قبل 1989 ء میں برادرم حبیب اللہ طارق صاحب اپنی فیکٹری کی جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے کسی وسیع جگہ پر منتقل ہونے کی پلاننگ میں تھے اور اس لئے بنک والوں سے رابطے میں تھے کہ ایک روز انہیں ایک پراجیکٹ بتایا گیا، جو کسی بڑے زمیندار کا آبادی میں ساڑھے چھے ایکڑ رقبہ پر مشتمل ڈیرہ تھا۔ انہیں مسجد کی ضرورت کا علم تھا جسے جلد ہی باہم مشورہ کر کے نیلامی میں زیادہ بولی دے کر خرید لیا گیا۔

ہمارے اس ساڑھے چھے ایکڑ کے پلاٹ جس میں بہت بڑی بلڈنگ بھی تھی کے ارد گرد ایک نصف دائرہ میں سڑک پر مکانات تھے جو وقتاً فوقتاً اسی مالک سے جگہ خرید کر بنائے گئے تھے۔ یہیں کرنل گستاف کا مکان بھی تھا۔ جب انہیں پتا چلا کہ یہاں مسلمان آ گئے ہیں اور بننے والی مسجد اور ان کے گھر کے درمیان ایک چھوٹا سا گھاس دار پلاٹ ہے۔ یہ سوچ کر کہ اذان کی آوازیں ڈرائنگ روم کے اندر تک سنائی دیں گی ان کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ دوسری جانب ایک اور مخالف گروپ کی کوشش سے جلد ہی مقامی باشندوں پر مشتمل مسجد کی تعمیر کے خلاف ایک باضابطہ تنظیم کا قیام عمل میں آ گیا اور جمہوری طریقے سے اس تعمیری پلان کو روکنے کے لئے لوگوں سے دستخط لئے جانے لگے۔

لا تعداد صحیح اور غلط باتیں جو بعض مسلمانوں کے وتیرے کی بدولت تعصبات کی صورت میں مغربی معاشرہ میں گردش کر رہی تھیں، ان کو اچھالا جاتا رہا اور کوئی مکالمے کی صورت بھی نہ بن سکی۔ ایک روز جمعہ بازار طرز کی ایک مارکیٹ میں کرنل گستاف صاحب مجھے اتفاقاً ملے اور معمول کے مطابق سلام دعا کے بعد انہوں نے مسجد کی تعمیر کی بابت بات کرنا چاہی۔ ہمارے لئے ہر لفظ منہ سے نکالنے سے پہلے اسے اچھی طرح جانچنا ضروری تھا کہ کہیں مفہوم میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے۔

میں نے گستاف صاحب سے اس بنیاد پر گفتگو کو وہیں ختم کر دیا کہ اس کے لئے زیادہ وقت درکار ہے۔ ہم اس وقت بازار میں ہیں اور چند منٹ میں مکمل وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ ان سے گزارش کی کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لے آئیں یا میں آپ کے یہاں حاضر ہو جاؤں گا اور آرام سے بیٹھ کر بات کر لیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے قریب ترین ہمسایہ ہیں۔ اگلے روز ہی طے شدہ وقت پر میں ان کے یہاں پہنچ گیا اور مختصر ذاتی تعارف کے بعد اصل موضوع پر گفتگو ہونے لگی۔ اگرچہ ان کے اندیشے برقرار تھے لیکن رخصت لیتے ہوئے اجنبیت کسی حد تک کم ہو چکی تھی۔

وہ سٹاف کالج ہیمبرگ میں لیکچرار بھی تھے جہاں پاکستان سمیت بیرونی ممالک سے اعلیٰ فوجی افسر مزید تعلیم کے لئے آتے ہیں۔ میری فوج سے معمولی سی وابستگی کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کی تفہیم میں کافی آسانی پیدا ہو چکی تھی اور ہماری مسجد کی پلاننگ، لوگوں کی آمد و رفت۔ پارکنگ وغیرہ پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک روز میں نے ان سے دوران گفتگو کہا کہ آپ کو پتا ہے، میرے بچے ہیں اور انہوں نے یہیں رہنا ہے اور میں جرمنی کے آئین کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں؟ اگر مسجد کی تعمیر پر پابندی رہتی ہے تو میں خود تو اس بات پر ذہنی سمجھوتا کر کے خود کو مطمئن کرنے کے لئے دلائل بھی تخلیق کر لوں گا۔ لیکن یہاں کے پروان چڑھے بچوں کو اس آئین کی حرمت کا قائل نہیں کر سکوں گا، جس میں بے شک مذہبی آزادی کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل تو کیا گیا ہے لیکن اس پر عمل میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہوں۔

کرنل گستاف جنہوں نے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے آئین پر حلف اٹھایا ہوا تھا کہا: ”میں وفاق جمہوریہ جرمنی کی وفاداری کے ساتھ خدمات انجام دینے اور جرمن عوام کے حق اور آزادی کا بہادری سے دفاع کرنے کی قسم کھاتا ہوں۔ خدا مجھے اس کی توفیق دے“ ۔

وہ ایک ایک شق کو مقدس سمجھتے تھے۔ یہ بات سنتے ہی گویا نیند سے جاگ اٹھے۔ ہماری بات چیت جاری رہی اور پھر تو مسجد کی تعمیر اب ان کا اپنا ہی مشن بن گیا۔ لوکل کونسل۔ ڈسٹرکٹ کونسل۔ حتی کہ ہائی کورٹ تک مقدمے میں حصول کامیابی تک باوجود بعض دائیں بازو کے سیاست دانوں کی طعنہ زنی کے بھرپور ساتھ دیتے رہے۔

جرمنی میں دوسرے کو ”آپ“ کہہ کر مخاطب کرنا تعظیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے ”آپ“ کہہ کر نہیں بلکہ بے تکلفی سے ”تو“ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہمارا اخلاص پر مبنی دوستانہ تعلق خاصہ بڑھ گیا اور بچوں کی شادیوں وغیرہ کی تقریبات میں شمولیت سے انہیں ہمارے تمدن کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ ایک روز انہوں نے تجویز کیا کہ اب تک ہم ”آپ“ کے ذریعہ ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے ہیں کیوں نہ یہ تکلف ختم کر دیں اور میں (گستاف) چونکہ عمر میں بڑا ہوں اور ہماری فوج میں رواج ہے کہ بڑا ہی پہل کرتا ہے۔ ان کی اس پہل کے بعد ہم۔ آپ سے ”تو“ کا ساماں ہو گئے۔

مسجد کی تعمیر کے پراسس میں منظوری اور پھر تعمیری مراحل میں کئی سال لگ گئے۔ باوجود بعض مخالفین کی تکلیف دہ باتوں کے ہر مرحلے پر اس نے ساتھ دیتے ہوئے ہمیشہ یہی کہا کہ ”وہ اپنا آئینی فریضہ ادا کر رہا ہے اور ہمارے اوپر کسی قسم کا کوئی احسان نہیں کر رہا“ ۔ اور آخر کار 2019 ء اکتوبر میں لگ بھگ دو سو نمازیوں کے لئے دو منزلہ مسجد بن گئی۔ الحمد للہ!

میں اس روز اسی کے گھر مدعو تھا، جب میں نے اسلامی جمہوریہ جرمنی کہہ کر اسے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی قربت کے باوجود میں اس کے ملک (جس ملک کا میں بھی شہری بن چکا تھا) کے آئین کو تسلیم نہ کرتے ہوئے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے بجائے اسلامی جمہوریہ جرمنی کہہ دوں گا۔ لیکن اسے یہ بھی یقین تھا کہ میں نے جو کہا ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کہا ہو گا اور اس کو بے قراری محسوس ہونے لگی کہ میں اس کی وضاحت بھی کروں۔

میں نے بتایا کہ قرآن مجید جو اس کے گھر میں سامنے شیشے کی الماری پڑا تھا، یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک مقدس ترین آئین کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں لگ بھگ سات سو احکامات ہیں۔ معاشرہ میں انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض درج ہیں۔ مثلاً ناپ تول میں انصاف کا حکم ہے۔ یہاں ایک گرام کی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اسلام کا سادہ سا حکم ہے لین دین کے وقت لکھت پڑت کر لیا کریں۔ یہاں دس سینٹ کی چیز لیں تو رسید دی جاتی ہے۔ راستے کے حقوق۔ سچی گواہی۔ رشوت سے پرہیز۔ کنبہ پروری سے گریز۔ دیگر حقوق العباد وغیرہ اور انسانی ہم دردی۔ مثلاً مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ظلم سے تنگ آئے ہوئے مسلمانوں کی سمندروں میں ہلاکت پر انسانی المیہ کے حل کے لئے ایک ملین لوگوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور مقامی باشندوں جیسی سہولیات فراہم کرنا۔ میری دانست میں یہ سب قرآن میں مذکور احکامات کی تعمیل اور اسلامی اخلاق کا مظاہرہ ہی تو ہے۔

انہیں قدرتی طور پر اپنے ملک کی بابت یہ ستائش بھری باتیں بھلی لگنی تھیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآنی ارشادات کی کثرت سے حکم عدولی کرنے والوں کے ملک کو اگر اسلامی کہا جاسکتا ہے پھر جرمنوں کا ملک تو اسلامی جمہوریہ کہلانے کے لئے درجہ اولیٰ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments