امریکہ میں کرفیو لگ گیا


” آ گھوسٹ ان دی سٹی“ والا محاورہ سنا اور پڑھا تھا۔ آج اس کا مظاہرہ دیکھ بھی لیا۔ نیویارک سٹی سمیت اس وقت امریکہ کے چالیس میں شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ نیویارک سٹی کے حصے کوئنیز کے جس علاقے میں میں میں رہتا ہوں وہ واقعی اس ایسا منظر پیش کر رہا ہے جیسے شہر میں ”بھوت“ گھس آیا ہو۔ کرفیو کے باعث ہر طرف گہری خاموشی اور ایک سکوت کا عالم ہے۔

پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد گزشتہ دو دنوں کے دوران امریکہ کے درجنوں شہروں میں پرامن مظاہرین میں سے بعض نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ کئی شہروں لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانا گیا۔ نیویارک سمیت بہت سے شہروں میں بڑے برانڈز کے سٹور لوٹ لیے گئے۔ پرتشدد مظاہرین کے ہاتھوں ہونے والے ایسے واقعات کی ویڈیوز اور لائیو مناظر ٹیلی ویژن سکرینوں پر نشر ہوتے رہے۔ بڑے پیمانے پر ایسے بڑھتے ہوئے لوٹ مار کے واقعات کے نتیجے میں مجبوراً کئی ریاستوں کے گورنرز نے پولیس کی مدد کے لیے نیشنل گارڈز اور آرمی کے دستوں کی مدد طلب کر لی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آرمی کو ٹارگٹ دیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جائے اور شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اور جیسے بھی ممکن ہو حالات قابو میں لایا جائیں۔

اس وقت تک کی صورت حال کے مطابق کرفیو کے نفاذ سے قبل گزشتہ دو روز کے دوران نیویارک شہر میں پر تشدد مظاہرین نے کئی سٹور لوٹ لیے ہیں۔ نیویارک سمیت دیگر کئی شہروں میں ایسی پرتشدد کارروائیاں دیکھنے کو ملتی رہیں۔

پولیس نے اکثر مقامات پر کارروائی کرتے ہوئے کئی سو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ مختلف شہروں میں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ماسک چڑھائے ہوئے مظاہرین بڑے سٹورز کے شیشے توڑ کر قیمتی اشیاء لوٹتے ہوئے دیکھے گئے۔

لاک ڈاؤن اور کرونا کی وجہ سے لازمی ماسک پہننے کے عمل نے ایسے شرپسندوں کے اہداف کو کور فراہم کیا ہے۔ جس کی آڑ میں ایسی کارروائیاں کثرت سے دیکھنے کو ملیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماسک کی وجہ سے بہت سے لوٹ مار کرنے والے شرپسندوں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آج پیر کے روز نیویارک میں رات گیارہ بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ ہے۔ جبکہ منگل کی رات کرفیو کا اطلاق رات 8 بجے سے صبح 5 بجے تک ہو گا۔

1943 ء کے بعد سے یہ دوسرا موقع ہے کہ نیو یارک سٹی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ 1943 ء نیویارک سٹی کے مئیر فیریلیو لیگوارڈیا نے نیو یارک کے علاقے ہارلم میں ہونے والے فسادات کے بعد ایمرجنسی کرفیو نافذ کیا تھا۔ اس وقت کے ہنگاموں کی بنیاد ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں ایک سیاہ فام سپاہی کو گولی کا نشانہ بنایا جانا تھا۔ اس واقعے کے نتیجے میں پھوٹنے والے ہنگاموں میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کی رات گیارہ بجے کرفیو نافذ ہونے کے بعد بھی کئی افراد نے کرفیو کی خلاف ورزی کی۔ مین ہٹن ڈاؤن ٹاؤن اور ڈاؤن ٹاؤن بروکلین میں خصوصاً بارکلے سنٹر کے ارد گرد کئی درجن مظاہرین منتشر ہوتے ہوئے گیارہ بجے کے بعد بھی سڑکوں پر گھومتے ہوئے نظر آتے رہے۔ پولیس نے بعض جگہوں پر خلاف ورزی میں کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا۔ تاہم بے جا سختی دیکھنے میں نہیں آئی۔

آج کے مین ہیٹن اور بروکلین میں ہونے والے پرامن مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ایسٹرن پارک وے اور فلیٹ بوش ایونیو پر ایک بڑا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ یہ مارچ مکمل طور پر پرامن تھا مظاہرین میں شامل بعض افراد پولیس کے ساتھ مل کر مظاہرین کو پرامن رکھنے کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون کر رہے تھے۔ کوئی ناخوشگوار واقعے کے بعد یہ مظاہرہ اختتام پذیر ہو گیا۔ برونکس، کوئینز سمیت نیویارک شہر کے دیگر کئی اور حصوں میں بھی پرامن مظاہرے ہوئے۔

جارج فلئیڈ کو انصاف فراہم کے لیے ہونے والے پرامن مظاہرے ابھی مزید کچھ دن جاری رہ سکتے ہیں۔ جون کو جارج فلئیڈ کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔

ادھر یو ایس ٹو ڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے معروف سابق باکسر فلئیڈ مے ویدر نے پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلئیڈ کی فیملی کو پیش کش کی ہے کہ وہ جارج فلئیڈ کے آبائی شہر ہوسٹن میں اس کے کفن دفن سمیت دیگر ہونے والے تمام اخراجات برداشت کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق جارج فلئیڈ کی فیملی نے سابق باکسر چمپئن کی یہ پیش کش قبول کر لی ہے۔ امریکہ کے شہر منی پالیس میں پچیس مئی کو پولیس کے ہاتھوں جارج فلئیڈ کی موت واقع ہو گئی تھی۔ جارج فلئیڈ کی آخری رسومات نو جون کو ہوسٹن میں ادا کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments