کیا ہم آنے والی تبدیلیوں کے لئے تیار ہیں؟



ہم نے ہمیشہ سوچا کہ وقت کا دامن تو نت نئی تبدیلیوں سے بھرا ہوتا ہے تو حیرانی کیسی۔ اس سوچ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جس زمانے میں ہماری نسل کا جنم ہوا دنیا کے بڑے بڑے واقعات ظہور پذیر ہو چکے تھے۔ ہمارے ہوش سنبھالنے تک تین اہم واقعات ہوئے جن میں پہلا واقعہ انسان کا چاند پر قدم رکھنا، دوسرا کمپیوٹر کی ایجاد اور تیسرا سویت یونین کا ختم ہونا تھا۔ موخر الذکر دونوں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے تحیر کی دنیا کا نیا در وا کیا اور فاصلوں کو چشم زدن میں سکیڑ کر رکھ دیا۔ مواصلاتی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔

دوسری اہم تبدیلی سویت یونین کا خاتمہ ہے۔ یہ ایک ملک کے ٹوٹنے کی کہانی نہیں کہ جغرافیائی سرحدیں تو بدلتی رہتی ہیں۔ خود ہمارے ملک کی بدلیں مگر استعماری طاقتوں نے سویت یونین کے ٹوٹنے کو ایک متبادل نظام کے خاتمے سے جوڑ دیا گیا۔

کوئی بھی نظام ابتدائی ادوار میں خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ وقت اور حالات کے ساتھ اس میں تبدیلیاں نا گزیر ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس میں بہتری آتی ہے۔ تبدیلی کے عمل کا جاری رہنا ہی اس کی بقا کی ضمانت ہے۔ یہ نظام اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود انسانیت کی فلاح سے جڑا تھا۔ ا اس میں طبقاتی ناہمواری کے خاتمے کی بہت گنجائش تھی۔ اس کا متبادل کوئی نیا نظام اب تک پیش نہیں کیا جا سکا بلکہ جو کچھ بھی سامنے آیا اسے اسی نظام کی بہتر شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے یا جسے ہم انگریزی میں ایڈاپٹڈ ورژن کہہ سکتے ہیں۔

اس تمہید کو مد نظر رکھ کر اگر ہم کویڈ 19 اور آج کل امریکہ میں ہونے والے ایک غیر قانونی قتل اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے ہنگاموں جلاؤ گھیراؤ کی خبریں کہ جن سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے کا تجزیہ کریں تو بہت سی باتیں خود بخود واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور اس بڑھتی ہوئی بے چینی کی لہر کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

اس سب کی بنیادی وجہ بہت پرانی ہے۔ وہ ہے سرمایہ داری نظام اور اس کی نتیجہ میں بڑھتی ہوئی غربت اور طبقاتی فرق کی خلیج کا وسیع ہونا۔ دنیا کے تمام تر معاشروں میں پسے ہوئے طبقات کا عمومی رویہ نا انصافیوں اور حق تلفیوں کی صورت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ خبر کوئی ہفتہ بھر پرانی ہے۔ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں عوامی ردعمل ضرور ہوتا ہے، کبھی کم یا کبھی زیادہ۔ ذرائع ابلاغ میں انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ایسی خبریں چھپائی نہیں جا سکتیں بلکہ یہ دنوں کے بجائے ایک کلک کے ذریعے دنیا بھر میں زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔

یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ اس واقعے کی رپورٹ ہم نے چار یا پانچ دن پہلے دیکھی تھی کسی انٹرنیشنل ادارے کی خبر تھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ میں کویڈ 19 کا شکار زیادہ تر افریقن امریکن ہوئے ہیں۔ ان کے بعد سپینش یا لاطینی امریکی اور دیسیوں کا نمبر آتا ہے۔ یہ گنجان آباد علاقوں، چھوٹے مکانات اور فلیٹس میں رہتے ہیں۔ جہاں حفظان صحت کی سہولیات ناکافی اور لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ایک دو کمرے کا فلیٹ کئی لوگ شئر کرتے ہیں۔ ایک ٹوائلٹ شیئر کرنا پڑتا ہے ایسے میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا نا ممکن سی بات ہے۔

جرائم ہر جگہ ہوتے ہیں اور مجرم بھی ہر کمیونٹی میں پائے جاتے ہیں مگر ان کے ساتھ پولیس کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے۔ نا صرف پولیس بلکہ ایک اچھی خاصی عوامی اکثریت کا رویہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ لوگ اب بھی انہیں غلاموں جیسا سمجھتے ہیں۔ غربت جہالت اور بے روزگاری ان میں عام ہے۔ تو دوسری جانب صدیوں کی غلامی اور جبر نے ان میں بھی بے انتہا غم و غصہ بھر دیا ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے تحفے ہیں کہ اس نظام نے انہیں غلامی سے نجات تو دی مگر ان کی فلاح وبہبود پر توجہ نہ دی۔ ایک افریقن امریکن کو صدر منتخب کرنے سے سوچ میں تبدیلی تو آئی مگر یہ ایک کاسمیٹک تبدیلی تھی۔ جس حقیقی تبدیلی کی ضرورت تھی وہ ابھی تک نہیں آئی۔ شاید تبدیلی بھی ارتقائی مدارج سے گزر رہی ہے۔

ایسے حالات میں اب یہ احتجاج نہ کریں تو اور کیا کریں؟ مانا کہ احتجاج کا طریقہ غلط ہے پر جب جان پر بن آئے تو اچھے برے کا خیال کم ہی رہتا ہے۔ ان کے غصے کا اظہار پولیس کو گھٹنوں پر لے آیا ہے۔ معافیاں مانگنے کی تصاویر بھی وائرل ہو چکی ہیں۔ عوامی ردعمل اور دباؤ کی وجہ سے معافی تلافی رد عمل کو کم کرنے کی کوشش تو ہو سکتی ہے پر یہ کوشش دیرپا نہیں ہو سکتی، تا وقتیکہ رویئے تبدیل نہ ہوں۔

لاک ڈاؤن اور بے روزگاری نے اچھے اچھوں کو نفسیاتی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی دونوں ڈھانچے ہل کر رہ گئے ہیں۔ ان کے علاوہ صحت عامہ کا کمزور ڈھانچہ دھڑام سے زمین بوس ہوا ہے۔ اس کا اثر بھی نچلے طبقات پر ہوا ہے۔ جس کے پاس ملازمت نہیں اس کے پاس انشورنس نہیں، مطلب علاج معالجے کی سہولیات نہیں۔ غریب کے پاس دوا دارو کے پیسے نہیں۔ وہ تو چیریٹی پر آ گیا۔ کیا یہ نظام اتنا مضبوط ہے کہ لاکھوں لوگوں کو سوشل سکیورٹی فراہم کر سکے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔ بلا شبہ کارپوریٹ سیکٹر فلاحی کام کرتا ہے مگر ایک محدود پیمانے پر اور یہاں بھی وہ اپنے مفاد کو مد نظر رکھتا ہے۔

خوف اور خدشات دونوں مل کر جیتے جاگتے انسانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگ کا ذہن روٹی سے محروم ہونے کے خدشے کے ساتھ ساتھ موت کے اندیشوں میں مبتلا ہو تو نفسیات تو متاثر ہوتی ہے۔ جرائم بھی بڑھ سکتے ہیں لا قانونیت اور لوٹ کھسوٹ بڑھ سکتی ہے

سرمایہ داری نظام بہت حد تک گل سڑ چکا ہے۔ اس کو صرف اپنے مفاد سے واسطہ ہوتا ہے عوامی فلاح و بہبود کبھی اس کا مطمح نظر نہیں ہوتی ستر سال سے دنیا پر قابض سرمایہ داری نظام میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ کچھ نا کچھ ہونے کے آثار ہیں۔ ایک نئے سماجی نظام اور نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔ کئی دانشور اس کا عندیہ دے چکے ہیں۔

وقت حالات اور لوگ تبدیلی لاتے ہیں۔ تبدیلی ہمارے ہاں کی طرح فیکٹری میں تیار نہیں کی جاتی! کویڈ 19 لگتا ہے بہت کچھ بدل دے گا کیونکہ اس نے کسی کا لحاظ نہیں کیا۔ امیر اور غریب دونوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا، جس نے احتیاط نہیں کی وہ سب متاثرین میں سے ہیں۔ جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو نظام کا جائزہ لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہی نئی سوچ جنم لیتی ہے۔ یہ حالات تو ہر کسی کو مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب دعوت فکر دے رہے ہیں۔ خاص کر ہمارے جیسے ممالک کو کہ جہاں سماجی شعور نہ ہونے کے برابر ہے اور معاشی ڈھانچہ منہدم ہو رہا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انارکی نے یہاں کا رخ کیا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ کئی خلیجی اور یورپی ممالک سے ورکرز واپس آ رہے ہیں کیونکہ وہاں نوکریاں نہیں ہیں۔ جو لوگ مغربی ممالک سے اپنے عزیز و اقارب کو رقوم ارسال کرتے تھے، ان کے لیے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنا دشوار ہو رہا ہے۔ تو زرمبادلہ کی کثیر تعداد جو یہاں سے ملتی تھی اب کافی عرصے تک بند رہے گی۔ مغربی ممالک اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کریں گے۔ ان کی ترجیحات میں امیگرنٹس کے بجائے مقامی آبادی پر فوکس رہے گا۔ وہ اپنے لوگوں کا خیال کریں گے یا غیر ملکیوں کا؟ اس کے علاوہ مقامی لوگوں میں مخاصمت کا رویہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

کیا ہم ان تمام چیلنجز نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments