’خلیفہ‘ عمران اور ’غازی‘ ٹرمپ: خدا آپ کا کھلونا نہیں ہے


امریکہ کو بھی اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین بیروزگاری کے علاوہ سیاہ فام امریکیوں کے خلاف سفید فام پولیس تشدد کے حوالے سے ویسی ہی مشکل کا سامنا ہے جو کسی حد تک پاکستانی قیادت کو بھی درپیش ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہیں۔ روزانہ چند ہزار افراد کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور ان میں سے نصف کے قریب اس وائرس میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم اللہ کا نام لے کر عوام کو باہر نکلنے اور روزگار پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول دنیا میں کوئی بھی ملک اس وبا کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ان کے خیال میں معاملہ اللہ اور تقدیر پر چھوڑ دینا کافی ہے۔ مزید تشفی کے لئے ترکی سے درآمد شدہ ڈرامہ ’غازی ارطغرل‘ دکھا کر عوام کے جذبہ ایمانی کو جوش دلایا جاتا ہے تاکہ ان کا حوصلہ بلند رہے اور کورونا وائرس عوام میں جہاد کے وفور کو دیکھ کر خود ہی رفو چکر ہوجائے۔

اسد عمر سمیت کابینہ کے متعدد ارکان یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ عمران خان کورونا وائرس کے معاملے میں ’ویژنری ‘ لیڈر ہیں۔ دنیا نے ان سے مشورہ نہیں کیا ورنہ کسی ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ لاک ڈاؤن سے غریبوں کا نقصان اور امیروں کا بھلا ہؤاہے۔ شاید اسی لئے عمران خان کے بقول پاکستان کی اشرافیہ لاک ڈاؤن جاری رکھنے کے لئے ’سازشیں‘ کررہی تھی جبکہ وزیر اعظم پہلے دن سے محسوس کررہے تھے لاک ڈاؤن میں غریب بھوکا مرجائے گا۔ بالآخر لاک ڈاؤن کے باوجود وہی ہؤا جو عمران خان نے کہا تھا ۔ لہذا گزشتہ روز حکومت نے نہ صرف ہر قسم کے کاروبار اور شعبہ حیات کو کھولنے کا فیصلہ کیا بلکہ شمالی علاقوں کےان غریبوں کی سہولت کے لئے جو صرف سیاحوں کی وجہ سے روزگار حاصل کرتے ہیں، سیاحت کھولنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔ عمران خان کے ساتھی باور کرواتے رہے ہیں کہ اب امریکہ جیسے بڑے ملک کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ بھی عمران خان کی ’بصیرت‘ سے سبق سیکھ کر لاک ڈاؤن ختم کرنے اور اپنے بھوکوں کو روٹی روزگار تلاش کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔

اس دوران البتہ یہ ہؤا کہ منی سوٹا کے دارالحکومت منی پولس میں ایک پولیس افسر نے 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کو گرفتار کرنے کے لئے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی اور خود اس کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر پونے نو منٹ تک اسے دبائے رکھا۔ سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فلوئیڈ کی ہلاکت دم گھٹنے کے علاوہ اسے لاحق دیگر عوارض جن میں قلب کا عارضہ بھی شامل تھا، کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اب آنجہانی جارج فلوئیڈ کے وکلا نے نجی ماہرین کی ایک رپورٹ حاصل کی گئی ہے جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ فلوئیڈ گردن دبانے سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہؤا۔ اس کی موت مکینیکل طریقے سے اس کا تنفس روک دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔ یہ رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ جارج فلوئیڈ پہلے پانچ منٹ تک پولیس افسروں سے سانس نہ آنے اور دباؤ ہٹانے کی درخواست کرتا رہا لیکن اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ آخری تین چار منٹ کے دوران بالکل بے سدھ تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دراصل جارج فلوئیڈ پولیس افسر ڈیرک چاون کے گھٹنے کے دباؤ میں انتقال کرچکا تھا لیکن ظالم پولیس افسر نے اسے پھر بھی گھٹنے کے نیچے دبا ئے رکھا۔ اب یہ سابق پولیس افسر زیر حراست ہے اور قتل کے الزامات کا سامنا کررہا ہے۔

سیاہ فام امریکیوں پر پولیس کے ظلم و تشدد کی طویل تاریخ اور طاقت کےناجائز استعمال سے شہریوں کو ہلاک کرنے کے متعدد واقعات کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی ہلاکت نے لوگوں میں غم و غصہ کی چنگاری کو جوالا مکھی بنادیا۔ گزشتہ پیر کو منی پولس شہر سے شروع ہونے والا احتجاج ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ 21 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو امن و امان بحال رکھنے کے لئے طلب کرلیا گیا ہے اور امریکہ کے درجنوں شہروں میں رات کا کرفیو نافذ ہے کیوں بعض شر پسند عناصر دکانوں اور پیٹرول پمپس پر حملے کرکے لوٹ مار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود نہ پر امن احتجاج کم ہونے کا نام لے رہا ہے اور نہ ہی بدامنی پر قابو پایا جاسکا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شاید اسی صورت حال میں پہلے تو پاکستانی وزیر اعظم کی صورت میں اپنے نو دریافت شدہ ’عزیز دوست‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کل شام وہائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں میڈیا کے سامنے پر جوش خطاب کیا۔ اس پر جوش تقریر میں انہوں نے خود کو عظیم امریکہ کا محافظ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر امریکی ریاستوں کے گورنروں نے ان کی ہدایت کے مطابق ’دہشت گرد مظاہرین‘ کے سامنے ہمت نہ دکھائی اور پوری قوت سے اس احتجاج کو نہ کچلا گیا تو وہ خود ہزار ہا بھاری طور سے مسلح فوجی دستے ریاستوں میں روانہ کررہے ہیں۔ ریاستی حکام کی ناکامی کے بعد میں بطور صدر اور کمانڈر انچیف امریکیوں کی حفاظت کا وعدہ پورا کروں گا اور شرپسندوں کی فوری اور شدت سے سرکوبی کی جائے گی۔ پھر یہ لوگ مقدمے بھگتیں گے اور سال ہا سال تک جیلوں میں بند رہیں گے۔

صدر کے اس اعلان کو سچ ثابت کرنے کے لئے قومی جذبے اور اپنے عہدے کے وقار کے عین مطابق دشمن کو دندان شکن پیغام دینے سے پہلے ہی وہائٹ ہاؤس کے باہر ایک پارک میں احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین کو ملٹری پولیس اور نیشنل گارڈز کے ذریعے منتشر کیا گیا۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیا ں چلاکر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پیچھے دھکیلا گیا تاکہ میڈیا سے خطاب کے بعد صدر ٹرمپ وہائٹ ہاؤس کے سامنے واقع سینٹ جان ایپسکو پال چرچ جا سکیں ہاتھ میں بائیبل اٹھا کر تصویر اتروائیں اور اعلان کریں کہ امریکہ عظیم ہے اور وہ وہاں امن بحال کرنے کے لئے ’مقدس جہاد‘ کریں گے۔ اس واقعہ کے فوری بعد چرچ کے پادری نے البتہ صدر کی اس حرکت کو اشتعال انگیز قرار دیا اور کہا کہ صدر نے انہیں چرچ آنے کی اطلاع تک نہیں دی۔ پادری نے انصاف اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کا مطالبہ کرنے والے پر امن مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا۔

دیگر مذہبی لیڈروں نے بھی صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ نسلی امتیاز کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال ناجائز تھا۔ جس طرح صدر کا راستہ صاف کرنے کے لئے طاقت استعمال کی گئی ، حالیہ امریکی تاریخ میں مذہب کے اس بھونڈے استعمال کی مثال نہیں ملتی۔ واشنگٹن کی بشپ ماریان بودے نے کہا کہ ’صدر بغیر اجازت عیسائیوں کی مقدس کتاب بائیبل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ حرکت عیسائیت کی تعلیمات کے خلاف ہے‘۔ واشنگٹن میں ویٹی کن کے نمائیندے پادری جیمز مارٹن نے کہا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بائیبل پروپیگنڈے کی کتاب نہیں ہے۔ چرچ فوٹو شوٹ کے لئے نہیں ہوتے۔ مذہب سیاسی ہتھکنڈا نہیں ہے۔ اور خدا آپ کا کھلونا نہیں ہے‘۔

ملک میں مظاہروں کو طاقت سے کچلنے کے اعلان کے ساتھ بائیبل اٹھا کر ایک چرچ میں تصاویر اتروانے کے علاوہ 213 سال پرانے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستوں میں فوج بھیج کر امن و امان بحال کرنے کی صدارتی دھمکی کو امریکی سیاست دانوں ، میڈیا اور ماہرین نے یکساں قوت سے مسترد کیا ہے۔ صدر خود کسی عیسائی فرقہ سے منسلک نہیں ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ انہیں کسی خدا سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے باوجود ملک میں جاری ہنگاموں اور احتجاج کو کچلنے کی دھمکیاں دینے کے بعد انہوں نے بائیبل ہاتھ میں لےکر ایک چرچ میں تصویر بنواکر دراصل اپنے اس اقدام کو تقدس کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے مذہبی و سیاسی لیڈر اسے سنسنی خیز اور سیاسی ہتھکنڈا قرار دے کر اس کی مذمت کررہے ہیں۔

 میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر نے کل شام صحافیوں سے خطاب، پر امن مظاہرین کے خلاف تشدد اور پھر چرچ جا کر فوٹو شوٹ کا ڈرامہ دراصل پروپیگنڈا اسٹنٹ کے طور پر کیا ہے تاکہ وہ کورونا وبا سے جنگ ہارنے کے بعد اب ملک گیر احتجاج کو امن وامان کے مسئلے کے طور پر پیش کرکے ، وہ اپنے انتہا پسند حامیوں تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ کسی صورت ہار نہیں مانیں گے اور نہ مفاہمت کریں گے ۔ یہ سارے اقدام دراصل نومبر کے انتخاب میں اپنے حامیوں کو متاثر کرنے اور اپنی سیاسی قوت قائم رکھنے کے لئے کئے گئے ہیں۔ صدر کے اس عمل سے امریکہ میں افہام و تفہیم کی بجائے تصادم ، سکون کی بجائے بے چینی اور قانون کے احترام کی بجائے اس کے خلاف ضد پیدا ہوئی ہے۔ صدر ایک مشکل وقت میں امریکیوں کو اکٹھا کرنے اور قوم کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی بجائے نفرت پھیلانے، تشدد پر اکسانے اور سیاسی داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔

اس صورت حال کو اسد عمر اور عمران خان کے دیگر نمائندوں کے دعوؤں کی روشنی میں پرکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ بھی پاکستانی وزیر اعظم ہی کی طرح کامیابی سے سیاست میں مذہب کو استعمال کررہے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا اقرار کرنے کی بجائے قومی انتشار پیدا کرکے گروہوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں ایک روز میں کورونا کے 2800 مریض سامنے آئے ہیں۔ سندھ کے ایک وزیر اور قومی اسمبلی کے ایک رکن کے علاوہ درجنوں افراد چوبیس گھنٹے میں کورونا سے جاں بحق ہوئے ہیں لیکن عمران خان قوم کو بتارہے ہیں کہ ڈیفنس میں رہنے والی اشرافیہ لاک ڈاؤن کے ذریعے غریبوں کو بھوکا مارنے کا اہتمام کرنا چاہتی ہے۔

خلیفہ‘ عمران خان بھی مذہب کو اسی سیاسی مہارت سے استعمال کرتے ہیں جس کا مظاہرہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ شام واشنگٹن میں کیا ہے۔ اہل پاکستان غازی ارطغرل کے سحر میں گرفتار ہیں اور بائیبل اٹھا کر فوجی تشدد کی دھمکی دے کر امریکی صدر خود غازی ٹرمپ بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments