کالے جسموں کی ریاضت – ژاں پال سارتر کا مضمون


خواتین و حضرات!
امریکہ میں کالوں کے احتجاج کی خبریں سن کر پہلے مجھے غالب کی زمین
؎ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

میں کہی گئی اپنی غزل کے چند اشعار اور پھر ژاں پال سارتر کے مضمون کے چند اقتباسات یاد آ گئے جن کا ترجمہ برسوں پیشتر میں نے کیا تھا۔

غزل
؎ کالے جسموں کی ریاضت کا مال اچھا ہے
حکمراں اب نظر آتے ہیں نڈھال اچھا ہے

خودکشی کرنے کو تیار ہیں لاکھوں انساں
کون کہتا ہے کہ اس شہر کا حال اچھا ہے

کتنے جذبات دبائے گئے صدیوں سے یہاں
اب اگر خون میں آیا ہے ابال اچھا ہے

اونچے میناروں سے دے جا کے اذان جمہور
ہر سیہ شخص جو بن جائے بلال اچھا ہے

جب بھی بازار میں بڑھ جائے گا انسان کا نرخ
برملا ہم یہ کہیں گے کہ وہ سال اچھا ہے

عہد انصاف کی امید پہ زندہ ہے سہیلؔ
عہد فرسودہ کو آ جائے زوال اچھا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ژاں پال سارتر کے مضمون کا ترجمہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا تم امید رکھتے ہو کہ جب کالے لوگوں کی محصور آوازیں آزاد ہوں گی تو وہ تمھاری شان میں قصیدے کہیں گے؟

جب صدیوں سے سیے ہوئے ہونٹ کھلیں گے تو کیا وہ تمھاری تعریف کریں گے؟

جب ان کے سر جنھیں تمھارے آبا و اجداد نے زمین تک جھکا رکھا تھا، اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟

سیام فام انسان اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کر کے کھڑے ہو گئے ہیں اور ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تم میری طرح ان آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو دیکھ سکو۔ تین ہزار سال سے سفید فام انسان سیاہ فام انسانوں کو دیکھتے رہے ہیں لیکن وہ یک طرفہ ٹریفک تھی۔ انھوں نے سیاہ فام لوگوں کو یہ اجازت نہ دی کہ وہ ان کو پلٹ کر دیکھ سکیں۔ سفید فام لوگوں نے ہر چیز کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا۔ اپنی جلد کی سفیدی کو ایک خاص رنگ دیا اور اسے ایک مجسم روشنی جانا۔ انھوں نے سفیدی کو دن، حسن، سچائی، نیکی اور ایسی روشنی سمجھا، جو زندگی کی تاریکیوں کو اجاگر کرتی ہے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ کالے لوگ اعتماد سے کھڑے ہو گئے ہیں، ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے ہیں اور کالی روشنی سے ماحول کو منور کر رہے ہیں۔ وہ کالے رنگ کو ایک نئے معنی عطا کر رہے ہیں۔

ایک کالا شاعر ہم سب سے بے خبر اپنی محبوبہ کو آغوش میں لیتے ہوئے سرگوشی کرتا ہے
کالی عورت ننگی عورت
تم نے زندگی کے رنگ کا لباس پہن رکھا ہے
ننگی عورت کالی عورت
تم پکے ہوئے پھل اور کالی شراب کے خمار کی طرح ہو

کالے شاعروں کا کلام سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے جسموں پہ سفید جلد کا بھدا لباس اوڑھ رکھا ہے، وہ لباس تار تار ہے جس کے نیچے سے ہمارے گوشت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ہم اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کے کھیتوں کے لیے سورج ہیں اور زندگی کی لہروں کے لیے چاند لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جانور ہیں وحشی ہیں بلکہ وحشیوں سے بھی بدتر۔

یہ شہر کے شرفا، یہ معززین شہر، جو رات کی چاندنی میں ناچنا اور شہر کی گلیوں میں پیدل چلنا بھول گئے ہیں۔ جو آگ کے قریب بیٹھ کر کہانیاں سنانا فراموش کر چکے ہیں۔

ہم یورپ کے رہنے والے پہلے روس اور امریکا کی نگاہوں سے خوف زدہ تھے، لیکن ہمیں امید تھی کہ ہم افریقہ کے باشندوں پر رعب جما سکیں گے، لیکن جب ہم نے ان کی آنکھوں میں جھانکا تو ہمیں وہاں وحشت کے آسیب نظر آئے۔ ایک شاعر کہتا ہے

ہم زندگی کی شاہراہوں پر چل رہے ہیں
اور چلا رہے ہیں
یورپ نے ہمیں اپنے جال میں پھنسا لیا ہے
جہازوں کی انگلیاں پھیلا کر ہمیں اپنے قابو میں لے لیا ہے
ہم یورپ کی سیاہ رات کے جادو کی زد پر آ گئے ہیں
ایسا جادو جس میں ہر کسی کی عزت خطرے میں ہے

ایک اور شاعر کہتا ہے
ایک وہ وقت آئے گا جب ہم یورپ کے
باقی حصوں کے اعصاب پر آسیب بن کر سوار ہو جائیں گے

اگر ہم الزامات کی قید سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ اقرار کرنا ہوگا کہ رنگ اور نسل کی بنیاد پر حاصل کی ہوئی مراعات غیر منصفانہ ہیں۔ ہمیں اپنا سفید رنگ کا لبادہ اتار پھینکنا ہوگا اور صرف انسانیت کے ناتے سے بات چیت کرنا ہوگی۔

کالا مزدور، مزدور ہونے کی وجہ ہی سے نہیں بلکہ اس لیے بھی مظلوم ہے کہ وہ کالا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کالے ہونے کی اہمیت سے باخبر ہو، تاکہ وہ اس کیفیت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکے اور یہ ثابت کر سکے، کہ وہ انسان پہلے اور کالا بعد میں ہے۔ اس کے لیے کالے ہونے کو چھپانا ناممکن ہے۔ ایک یہودی اپنے یہودی ہونے سے انکار کر سکتا ہے لیکن ایک کالا اپنے کالے ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ سفید فام لوگوں نے اسے لفظ ”نگر“ سے، اسے ہمیشہ سنگ سار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔

اب وہ بڑے اعتماد سے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے سیاہ فام ہونے پر فخر کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنی نسل کا شعور معاشرے میں، اس فرق کو مٹانے کے لیے پہلا قدم ہے۔ سیاہ فام لوگوں کا آپس میں اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ سفید فام پرولتاریوں سے کچھ مدد حاصل کرسکیں۔ اس سے پہلے کہ کالے مزدور سوشل ازم کے راستے سفید فام مظلوم مزدوروں کے ساتھ مل کر آزادی حاصل کر سکیں، ان کے لیے نسلی امتیاز کا شعور بہت اہم ہے۔

کالا شاعر کہتا ہے
میری کالی گاڑیاں مجھے واپس کر دو تاکہ میں ان سے کھیل سکوں
میری سادگی مجھے لوٹا دو
میرا ماضی مجھے واپس کردو
میں وہاں جانا چاہتا ہوں جہاں سے میں چلا ہوں

سیاہ فام لوگ اپنے گرد سفید فام دیواریں توڑنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ افریقہ کی طرف جاتی شاہ راہ دریافت کر سکیں۔ ان کی ایک اجتماعی کوشش ہے جدوجہد ہے۔ اس لیے جب ایک کالا شاعر نظم لکھتا ہے تو وہ صرف انفرادی مسائل کا اظہار نہیں کر رہا ہوتا، وہ اجتماعی حالات کی نقاشی بھی کر رہا ہوتا ہے۔ جب اسے موجودہ تہذیب کے ناگ گھیر لیتے ہیں، تو وہ انقلابی شاعری کرتا ہے۔ وہ یورپ کی ساری زنجیریں توڑنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ آزاد ہو سکے۔

سیاہ فام لوگ جانتے ہیں کہ سفید اور سیاہ صرف دو رنگ ہی نہیں، زندگی کے دو رخ بھی ہیں ؛ دن اور رات۔ حاکم اور محکوم۔ زبان ہی وہ ہتھیار ہے جس سے سیاہ فام لوگوں کی سوچ کے انداز کو بدلا گیا ہے اور اسے طبقاتی بنا دیا گیا ہے۔ سیاہ فام ذہن کو زبان اس طرح سکھائی گئی ہے کہ اس کے دماغ میں سیاہ رنگ سفید رنگ سے کم تر بن گیا ہے، اسے بتایا گیا ہے کہ ’برف کی طرح سفید‘ پاکیزگی کا اظہار ہے اور سیاہ رنگ برائی اور گناہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی لیے سیاہ فام شخص جب بھی سفید فام لوگوں کی زبان بولتا ہے وہ اپنی ہی نگاہوں میں مجرم ٹھیرتا ہے۔ اگر وہ اس روایت کو توڑنا چاہتا ہے اور ’سیاہ معصومیت‘ یا ’سیاہ نیکی‘ کا تصور پیش کرتا ہے، تو سب اس کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہیں۔

سیاہ فام شاعر اپنی نظموں کی فضا میں الفاظ ایسے اچھالتا ہے جیسے آتش فشاں پہاڑ کے دہانے سے پتھر نکلتے ہیں اور وہ الفاظ کے پتھر یورپ اور کلونیل ازم کی عمارات کو مسمار اور سفید کلچر کو تباہ کرتے ہیں۔

میرا سیاہ پن ایسا برا پتھر نہیں جسے دن کے چہرے پر مارا گیا ہو
میرا سیاہ پن ایسا مردہ پانی نہیں جو زمین کی آنکھ میں تیر رہا ہو
میرا سیاہ پن نہ اونچا مینار ہے نہ عبادت گاہ
وہ ایک ایسا جذبہ ہے جو زمین کے سرخ گوشت میں دھنستا چلا جاتا ہے
آسماں کے جسم میں اترتا چلا جاتا ہے
ضبط اور صبر کو چیرتا ہوا نکل جاتا ہے
چناں چہ سیاہ پن ایک عمل نہیں ایک انداز فکر ہے، نظریہ ہے زندگی کو دیکھنے کا مخصوص طریقہ ہے۔

سیاہ فام انسان اپنی غلامی کی تاریخ اپنے کاندھوں پر لیے پھرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ عمل غیر انسانی تھا وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں

او نیگرو
تم صدیوں سے بازاروں میں بکتے رہے ہو
لیکن تمھارے پاس وہ سارے ہتھیار ہیں
جن سے تم ظالموں کا مقابلہ کر سکتے ہو
اور آزادی حاصل کر سکتے ہو

وقت کے ساتھ ساتھ رنگ، نسل اور سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد نے مختلف روپ دھارے ہیں اور پوری انسانی تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ سیاہ فام شاعر روایات کو بدلنا چاہتا ہے لیکن سوچتا ہے کہ کیا وہ رنگ کو زیادہ اہمیت دے اور سیاہ فام لوگوں کو اپنے کالے ہونے پر فخر کرنے پر اکسائے یا ان کی شاعرانہ تحلیل نفسی کرے اور رنگ کو بھول کر، نئی زندگی کی طرف قدم بڑھانے کی درخواست کرے۔ اگر وہ سیاہ فام ہونے کو زیادہ اہمیت دے تو اس پر خود نسلی امتیاز اور تعصب کا الزام لگ سکتا ہے۔ سیاہ فام شاعر جانتا ہے کہ یہ منزل کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے، منزل نہیں۔ وہ ایک ایسے مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے، جہاں انسان انسانیت کے ناتے سے پہچانے جائیں گے، نہ کہ جلد کی رنگت کی وجہ سے اور ایک ایسے معاشرے کے خواب دیکھتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے جو رنگ اور نسل سے بالا تر ہوگا۔

اس طرح سیاہ رنگ بذات خود وہ دیوار بن جاتا ہے، جسے راستے سے ہٹائے بغیر انسانیت اپنے روشن مستقبل سے بغل گیر نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے سیاہ فام شاعر پہلے اپنے ذاتی تاریخی اور اجتماعی رنگ کی شناخت کرتا ہے اور پھر اسے رد کرتا ہے۔ یہ رد کرنا اسے زندگی کی اور شناخت کی نئی سطح پر لے جاتا ہے۔ ایک سطح کی موت دوسری سطح کی زندگی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے جیتنے کے لیے اس کا ہارنا ضروری ہے۔

وہ خود ہی اپنا قاتل بھی ہے اپنا مسیحا بھی
وہ خود ہی تعصب کی رات اور اخوت کی صبح کے درمیان ایک پردہ ہے
وہ خود ہی اپنے تاریک ماضی اور روشن مستقبل کے درمیان کھڑا ہے
وہ خود ہی نسلی حد بندیوں اور بین الاقوامی انسانی برادری کے درمیان حد فاصل ہے۔

ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پرانی اقدار کی کوکھ سے نئی اقدار جنم لے رہی ہیں اور سیاہ فام لوگوں کی شاعری، اس راستے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ان کی زندگی وہ قربانی ہے جو سفید فام لوگوں کے تعصب اور سرمایہ دارانہ نظم کے خلاف جد و جہد کر رہی ہے۔ وہ ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ ایسا انقلاب جس میں شاعری ایک اور اہم کردار ادا کر رہی ہے اور ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں

اے سیاہ فام لوگو
اپنی جدوجہد تیز تر کردو
اتنا زور سے چیخو کہ
دنیا کی بنیادیں ہل جائیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments