کورونا وائرس: سیکس ورکرز اپنے مستقبل کے لیے پریشان


ایسٹیل لوکس اپنے کمرے میں سمارٹ فون کے ساتھ
ایسٹیل لوکس  (Estelle Lucas) نے سیکس ورکرز کی مدد کے لیے ایک آن لائن گروپ شروع کیا ہے

کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے قواعد و ضوابط کے باعث سٹرپ کلبوں اور قحبہ خانوں کے بند ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں سیکس ورکرز کی آمدنی راتوں رات بند ہو گئی۔ اپنا ذریعہ معاش کھونے اور اپنی صحت کے خوف کی وجہ سے بعض سیکس ورکرز اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے آن لائن خدمات پیش کر رہی ہیں جبکہ دیگر مدد کے لیے خیراتی اداروں کا رخ کر رہی ہیں۔

ایسٹیل لُوکس گذشتہ دس برسوں سے میلبرن میں ایسکورٹ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں اور انھوں نے اپنے گاہکوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے ہیں۔ لیکن کووڈ۔19 کے پھیلاؤ اور سماجی دوری قائم کرنے کی ضرورت کی وجہ سے وہ پریشان ہیں کہ ان کی اتنے برسوں کی کوششیں ضائع ہوجائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اگر میں نے چھ ماہ تک کام نہیں کیا تو بہت سارے لوگ مجھے بھول جائيں گے۔’

‘میں اپنے گاہکوں سے رابطہ نہیں کرسکتی اور صرف ان کے ساتھ بات چیت کرسکتی ہوں۔ اور میری صنعت میں بات چیت سے کام نہیں چلتا۔ ہمیں قربت پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ ماحول میں یہ ممکن نہیں ہے۔’

ایسٹیل کا کہنا ہے کہ وبا سے پہلے وہ اوسط سے زیادہ کمائی کر رہی تھیں اور انھیں امید تھی کہ میلبرن کے مضافاتی علاقوں میں اپنے گھر کے لیے لیا گیا قرض وہ جلد ہی ادا کر دیں گی۔

اب ان کی تقریباً تمام آمدنی ختم ہوگئی ہے۔ انھوں نے اپنا کاروبار آن لائن منتقل کر کے موجودہ صورت حال میں کچھ پیسے کمانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ آن لائن کاروبار جسمانی رابطے کا بدل نہیں ہو سکتا۔

وہ کہتی ہیں ‘بدقسمتی سے کچھ چیزیں ہیں جنھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے آن لائن جانے کی کوشش کی ہے لیکن ہر کوئی ٹیکنالوجی کا اچھی طرح استعمال نہیں جانتا ہے۔ میرے کچھ گاہک تو ایسے ہیں جو سمارٹ فون کا صحیح طریقے سے استعمال بھی نہیں جانتے ہیں۔’

مقامی حکومت نے جہاں ریستوران اور کیفے دوبارہ کھولنے کے لیے ایک واضح منصوبہ پیش کیا ہے وہیں سیکس انڈسٹری کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں سیکس ورکرز شدید پریشانی اور بے چینی کا شکار ہیں۔

ایسٹیل کہتی ہیں ‘مجھے ڈر ہے کہ میری ساری محنت صفر ہو جائے گی اور مجھے پھر سے اسی طرح کوشش کرنی ہوگی جیسی میں نے شروع میں کی تھی۔’ وہ اپنے گاہکوں کی صحت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘کیا وہ پھر کبھی واپس آئیں گے بھی؟‘

آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ان لوگوں کے لیے مالی امداد دستیاب ہے جنہوں نے کووڈ 19 کے بحران کی وجہ سے اپنی آمدنی کھو دی ہے۔ لیکن اس مالی مدد کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں۔ اور یہ ایسی شرط ہے جسے عام طور پر غیر رجسٹرڈ سیکس ورکر بشمول تارکین وطن، خواجہ سرا وغیرہ پوری نہیں کر پائیں گے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر میں کریمنالوجی کی پروفیسر ٹیلا سینڈرز کا کہنا ہے دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں سیکس ورکرز کو اس قسم کے مسائل درپیش ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘حکومتیں زیادہ تر لوگوں خصوصاً اپنا کام کرنے والے افراد کے لیے معاشرتی تحفظ فراہم کرنے میں بہت موثر رہی ہیں، لیکن ان میں سیکس ورکرز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔’

اس کی وجہ سے سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نتظیموں کے پاس عوام سے ہنگامی فنڈ کی اپیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔

اب تک لاس ویگس سیکس ورکر کلیکٹو کی ایک آن لائن اپیل کے تحت 19 ہزار 300 ڈالر کی رقم اکٹھی کی گئی ہے جبکہ اٹلی میں امدادی گروپوں کے اتحاد کے ذریعے چلائی جانے والی ایک مہم کے تحت تقریباً 21 ہزار 700 یورو کی رقم اکٹھی کی جا سکی ہے۔

پروفیسر سینڈرز کا کہنا ہے کہ ‘یہ فوری طور سیکس ورکرز کے لیے لائف لائن ثابت ہوئی ہیں جس سے بلوں کی ادائیگی کی گئی ہے اور انھیں خوراک فراہم کی گئی ہے۔’

کچھ سیکس ورکرز بھاری جرمانے یا وائرس کا خطرہ مول لے کر بھی کام جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

پروفیسر سینڈرز کا کہنا ہے کہ ‘ترقی پذیر ممالک میں تو سیکس ورکرز پورے خاندان کے لیے اور اکثر اپنے بہن بھائیوں، اپنے بچوں اور دادا دادی، نانا نانی کے لیے روزی کمانے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سے ان کا پورا کنبہ متاثر ہوتا ہے۔’

’انگلش کلیکٹو آف پروسٹیٹیوٹس‘ کی نکی ایڈمز نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانیہ میں سب سے زیادہ سیکس ورکرز مائیں بھی ہیں اور اگر وہ کام جاری رکھنے پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔

نازمہ

                            نازمہ کا کہنا ہے کہ اگر قحبہ خانے کھل بھی جاتے ہیں تو بھی وائرس کا خوف تو رہے گا

لیکن کچھ سیکس ورکرز چاہیں بھی تو وہ کام نہیں کر سکتی ہیں۔

بنگلہ دیش میں دولت ڈیا نامی قحبہ خانے پر پولیس پہرہ دیتی ہے تاکہ گاہکوں کو اندر داخل ہونے سے باز رکھے۔

یہ دنیا کے سب سے بڑے قحبہ خانوں میں سے ایک ہے جہاں ٹن کے چھتوں اور تنگ گلیوں کے درمیان ایک جھونپڑ پٹی ہے جہاں 1300 خواتین اور ان کے 400 بچے رہتے ہیں۔

مارچ کے بعد سے یہ قحبہ خانہ بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری خواتین کو ضروری سامان خریدنے کے لیے بھی مشکل کا سامنا ہے اور خیراتی اداروں کے عطیات پر انحصار ہے۔

نازمہ (اصلی نام نہیں) نے بتایا کہ ‘اب ہم کام نہیں کر سکتے، اس لیے ہماری کوئی آمدنی نہیں ہے اور یہ خوفناک ہے۔’

نازمہ تین بچوں کی کفالت کرتی ہیں جو ان کی بہن کے ساتھ اپنے گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ تقریباً 30 سال پہلے یہاں آئی تھیں جب وہ صرف سات سال کی تھیں۔ اگرچہ انھیں پیسوں کی ضرورت ہے تاہم وہ وبائی امراض کے دوران کام کرنے کے خطرات سے پریشان ہیں۔

‘اگر ہم کام کرسکیں تو بھی لوگوں کی زندگیوں کو وائرس کا خطرہ ہے۔ ہم اپنے گاہک کے ساتھ بستر پر جانے سے بھی خوفزدہ ہوں گے کیوں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کون (کورونا سے) متاثر ہے۔’

دولت ڈیا دریائے پدما کے کنارے کشتیوں کی ایک اہم بندرگاہ کے قریب آباد ہے۔ یہ ٹرانسپورٹ کا اہم مرکز ہے جو بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کو ملک کے جنوبی اضلاع سے جوڑتا ہے۔

دولت ڈیہا
بنکلہ دیش کے اس علاقے میں 1300 سیکس ورکرز رہتی ہیں

کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے روزانہ ہزاروں ٹرک ڈرائیور اس علاقے سے زرعی مصنوعات اور دیگر سامان ڈھاکہ پہنچانے کے لیے گزرتے تھے۔

اس قحبہ خانے میں رہنے والی بہت سی خواتین اور بچے انسانی سمگلنگ کا بھی شکار ہیں۔

ڈھاکہ میں مقیم ایک وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن سرابونتی ہدی کا کہنا ہے کہ ‘ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جنھیں بچپن میں اغوا کیا گیا اور انھیں وہاں فروخت کر دیا گیا۔’

اگرچہ بنگلہ دیشی حکومت اور مقامی امدادی تنظیموں نے خواتین کو ہنگامی طور پر کچھ رقم فراہم کی ہے لیکن سرابونتی کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے اور کچھ خواتین کو کچھ بھی نہیں ملا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘انھیں حکومت سے جو پیسے ملے اس سے وہ بچوں کے پاؤڈر ملک کا ایک پیکٹ بھی نہیں خرید سکتیں۔’

مئی کے شروع میں سربونتی نے نجی طور پر امداد کا انتظام کیا جس کے تحت وہاں رہنے والی رجسٹرڈ تمام 1300 خواتین کے لیے بنیادی ضرورت کے سامان کے پیکٹ فراہم کرائے گئے۔

سرابونتی کا کہنا ہے کہ ‘ایک ایسی خاتون تھی جس نے کہا تھا کہ وہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے اپنے انسولین یا ذیابیطس کی دوا نہیں لے سکی ہے۔ ایک دوسری خاتون نے کہا کہ دو مہینے پہلے لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے وہ اپنے بلڈ پریشر کی دوائيں نہیں خرید سکی ہے۔’

پروفیسر سینڈرز کے مطابق عالمی سطح پر سیکس ورکرز کے لیے صحت کی خدمات تک کم رسائی ہونا ایک مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر ان علاقوں میں شدید ہے جہاں ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والوں میں باقاعدگی کے ساتھ اینٹی وائرل ادویات کی زیادہ مانگ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ان کے لیے رسائی اہم مسئلہ ہے۔’

سرابونتی ہدی
ڈھاکہ میں مقیم ایک وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن سرابونتی ہدی کا کہنا ہے کہ ‘ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جنھیں بچپن میں اغوا کیا گیا اور انھیں وہاں فروخت کر دیا گیا‘

پروفیسر سینڈرز نیروبی میں ایک ٹیم کے ساتھ ‘اوبر کی طرز’ کی ایک ایپ پر کام کر رہی ہیں تاکہ جس سیکس ورکر کو دوا کی ضرورت ہو وہ فون کے ذریعے اس کا آرڈر دیے اور انھیں دوا فراہم کرائی جا سکے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘اسے کلینک میں آکر کسی شخص کے ذریعے لے جانے کے بجائے براہ راست کسی ٹرانسپورٹ کے ذریعے بھیجا جا سکے گا۔’

دولت ڈیا کے قحبہ خانے میں واپس آتے ہیں جہاں اپنا نام نہ ظاہر کرنے والی ایک سیکس ورکر اپنی بیٹی سے مل کر واپس آئی ہے۔ ان کی بیٹی قریب میں ہی ایک جگہ رہتی ہے جہاں دوسرے سیکس ورکرز کے بچے بھی رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر قحبہ خانے دوبارہ کھل بھی جاتے ہیں تو بھی اس صنعت کی بحالی میں وقت لگے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو انھیں انفیکشن ہوسکتا ہے۔ ہم بھی خوفزدہ ہیں۔ ہم ان سے انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ انفیکشن کا خدشہ ہر وقت رہے گا۔’

اس مضمون کے لیے سلمان سعید نے اضافی معلومات فراہم کی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp