ایون فیلڈ (لندن) میں مقیم شریف خاندان میں کیا بحث چل رہی ہے؟


نواز شریف کو پاکستان واپس جانا چاہیے یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت لندن کے پوش علاقے پارک لین میں واقع ایون فیلڈز کے پر آسائش اپارٹمنٹس میں مقیم شریف خاندان میں زیر بحث ہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی 91 سالہ والدہ اور بچے رہائش پذیر ہیں۔ ذرائع کے مطابق شریف فیملی کے ارکان میں ان دنوں نواز شریف کی وطن واپسی پر سنجیدگی سے غور اور بحث و مباحثہ جاری ہے اور شریف فیملی اس بارے تقسیم اور شدید اختلاف رائے کا شکار ہے، البتہ ایون فیلڈ میں نیب اور شہباز شریف کے درمیان آنکھ مچولی والے ڈرامے کے ڈراپ سین کا انتظار کیا جا رہا ہے جس کے بعد نواز شریف کی پاکستان واپسی بارے ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف کے بیٹے سختی سے اپنی اس رائے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ سابق وزیراعظم کو کسی صورت واپس پاکستان نہیں جانا چاہیے، نواز شریف کے دونوں بیٹوں کا موقف ہے کہ جب تک ملک میں عمران خان وزیر اعظم ہے، کم از کم تب تک تو نواز شریف کو ہرگز پاکستان واپس نہیں جانا چاہیے، حسین نواز اور حسن نواز کا اپنے والد سے اصرار کے ساتھ یہی کہنا ہے ”آپ کے وہاں پہنچتے ہی ایک بار پھر آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد کی پاکستان میں موجود صاحبزادی مریم نواز کا اپنے والد سے کہنا ہے کہ انہیں پاکستان واپس آنا چاہیے، مریم نواز کا موقف ہے ”آپ کو اگر جیل میں بھی ڈال دیا جاتا ہے تو ڈال دینے دیں، کوئی بات نہیں، آپ کو بس واپس آجانا چاہیے“ واضح رہے مریم نواز اپنے بھائیوں کے برعکس نہ صرف سیاست میں ہیں بلکہ پوری طرح سرگرم ہیں اور وہ اپنی ساری سیاسی طاقت اپنے والد نواز شریف کی ذات سے حاصل کرتی ہیں۔ اس صورتحال میں سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان کی گزشتہ ہفتے خاموشی سے لندن سے پاکستان آمد کا ایجنڈا بھی سامنے آ گیا ہے جو ذرائع کے مطابق روزانہ جاتی عمرہ جا کر باقاعدگی کے ساتھ مریم نواز سے ملاقات کر رہے ہیں۔

باور کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عدنان کو مریم نواز کی تجویز اور والد کی پاکستان واپسی پر اصرار کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے خصوصی اور ہنگامی طور پر لندن سے پاکستان بھیجا گیا ہے، جنہیں سابق وزیراعظم کا خصوصی اعتماد حاصل ہے۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے ڈاکٹر عدنان بظاہر نواز شریف کے ذاتی معالج ہیں لیکن عملاً وہ ڈاکٹر سے زیادہ ”نون“ لیگ کے سیاسی ورکر ہیں جن کی وفاداری پر نواز شریف سہولت سے اعتماد کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ”ذاتی معالج“ کے لبادے میں سابق وزیراعظم کے زیادہ سے زیادہ قریب رہتے ہیں۔

یہاں اس واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ 13 جولائی 2018 کو نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے جب پاکستان پہنچے اور جب لاہور ائر پورٹ پر طیارے سے نیچے آجانے کے بعد نیب حکام نے انہیں حراست میں لے لیا تو نواز شریف تو سرکاری اہلکاروں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے لیکن مریم نواز گاڑی کے پائیدان پر چڑھ کر چلانے لگیں ”ڈاکٹر عدنان کو لائیں، ڈاکٹر عدنان کو لائیں، ہم ان کے بغیر آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے“

سنجیدہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے ہر وقت قریب رہنے والے ڈاکٹر عدنان جیسے ”ذاتی معالج“ کے اپنے ”مریض“ کو بیماری اور پھر برطانیہ جیسے ملک میں کرونا وائرس سے پیدا شدہ سنگین صورتحال میں چھوڑ کر پاکستان آنے سے واضح ہوگیا ہے کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں۔ اسی لئے پیر کے روز ”نون“ لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کی پریس کانفرنس کے دوران جب ایک صحافی نے سابق وزیر عظم کی حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک تصویر کے حوالے سے جب پوچھا کہ کیا نواز شریف پوری طرح صحت مند نظر نہیں آرہے؟ تو پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ذرا سا جھک کر شاہد خاقان عباسی کے کان میں کہا ”اس کا جواب نہیں دینا“ جس کی بابت، ذرائع کے مطابق مریم نواز نے مریم اورنگزیب کو خصوصی طور پر instruction دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments