’حسین نقی کون ہیں؟‘ اور ’آصف فرخی کون تھے؟‘ کے موسم میں


عمر کی دوسری دہائی چلی تو اوپر تلے ہونے والی کچھ اموات نے اچھی طرح باور کرا دیا کہ اب اس دکھ سے ملاقات ہوتی رہے گی۔ دادی، دادا، نانا، نانی ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔ ساتھ ساتھ دور کے ضعیف رشتہ دار، سکول اورکالج کے بزرگ اساتذہ، ہمسائے اور پاکستان اور دوسرے ممالک کی بڑی بڑی شخصیات کے رخصت ہونے کی خبریں ملنے لگیں۔ نانا پروفیسر محمد منور کے انتقال کے بعد گھر کے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے میں نے اچانک کسی خواب سے جاگتے ہوئے خود کلامی کی کہ ہائے کسی کو پتہ بھی ہے کہ اتنا بڑا آدمی چلا گیا!

مگر تب تو وہ سب زندہ تھے جو جانتے تھے۔ ایسی خبریں اس سے پہلے بھی آتی ہوں گی لیکن ہمارے دل ودماغ پر ان کے اثرات سن شعور کے بعد زیادہ گہرے پڑتے ہیں۔ نانا کے بعد تو جیسے لائن لگ گئی۔ ہر نئی خبر پر ’موت العالم، موت العالم‘ کہتے کہتے سچی بات ہے لفظ بے معنی لگنے لگے۔ ’قحط الرجال‘ کا مطلب تو اب سمجھ آ رہا ہے جب نئی صدی کی دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ ہم اس صدی میں جو کچھ بچا لائے تھے، وہ ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے۔

لیکن قحط الرجال سے بھی بڑا صدمہ اس عہد کے نوجوانوں کا اپنے درمیان موجود بڑوں کو نہ پہچاننا ہے۔ محترم آصف فرخی کے انتقال پر کسی نے پوچھا کہ یہ کون تھے؟ تو دل جیسے ایک لمحے کے لیے ساکن ہو گیا۔ وہی خود کلامی یاد آئی، ہائے کسی کو پتہ بھی ہے کہ ایک بڑا آدمی چلا گیا! اور میرے ارد گرد پھیلے لاعلمی کے سناٹے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

جب ہم عمر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ہمارے بڑے ہمیں اپنے بڑوں کے ذکر سے مرعوب کرتے۔ میرے ابو جوش وخروش سے ساہیوال کے زمانہ طالب علمی کا بتاتے اور مجید امجد کی سائیکل اور ان کی صدارت میں پڑھے مشاعرے کا فخر سے ذکر کرتے۔ منیر نیازی کی شاعری رات گئے تک سننے کا ذکر ہوتا، ساہیوال ہی میں ڈاکٹر الف د نسیم، ڈاکٹر صابر لودھی، شہزاد احمد، ظفر اقبال اور مختلف علوم و فنون سے متعلق نام سامنے آتے تو ان کا ایک خاکہ سا دماغ میں مرتب ہوتا اور انھیں جاننے، پڑھنے اور ملنے کی جوت دل میں جاگ اٹھتی۔

علماء کا ذکر چلتا تو بڑوں سے ڈاکٹر حمید اللہ، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے قصے سننے کو ملتے۔ ہمارا شہر لاہور کیسا تھا، کیسے کیسے لوگوں سے چھلکتا ہوا شہر تھا۔ کرشن نگر کے ایک محلے میں ایک طرف پروفیسر محمد منور، ناصر کاظمی اور ڈاکٹر اسرار احمد تھے تو دوسری جانب احمد بشیراور مرزا ادیب بھی وہیں تھے۔ یہ تو ایک چھوٹے سے محلے میں بسنے والے لوگوں کے نام ہوئے۔ فیض بھی اسی لاہور میں تھے، انتظار حسین بھی، حفیظ جالندھری بھی، احمد مشتاق بھی اور کس کس کا ذکر کریں۔

ہم بھی اپنے تئیں ایک زعم میں مبتلا رہے اور اب تو واقعی فخر محسوس ہوتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا اور محمد سلیم الرحمن سے نہ صرف براہ راست سیکھنے کا موقع ملا بلکہ ان معتبر مدیران کے رسالوں میں شاعری بھی چھپی۔ انتظار حسین، خالدہ حسین، منیر نیازی، اسد محمد خان سے مل لیے۔ کارزار سیاست کی طرف دیکھتے تھے تو کیسے کیسے رعب دار اور شائستہ سیاستدانوں کی طویل قطار دکھائی دیتی تھی۔ ہم ان سے کچھ متاثر ہونے لگتے تو ہمارے بڑے کہتے، ارے تم نے بھٹو دور کی اسمبلی نہیں دیکھی۔ ہم پھر کہتے ہائے کیا زمانہ ہو گا جو ہم نے نہ دیکھا۔ اور پھر یہ زمانہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں، یہ کابینہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ خیر۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں یہ احساس تھا، آج کی نسل میں تواحساس زیاں بھی نہیں۔

اگلے دن جب امی سے کہا کہ یہ کرکٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کون لوگ آ گئے ہیں؟ جب ہم بچے تھے تو کیا اعلٰی کرکٹ ٹیم تھی؛ ایک ہی ٹیم میں عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، عاقب جاوید، معین خان، عامر سہیل، سعید انور، انضمام الحق۔ ۔ ۔ اور اب خود ہی دیکھ لیں۔ بابر اعظم کے علاوہ اس سطح کا کوئی ایک کرکٹر ہو تو دکھا دیں؟ ایک وقت تھا ہم کرکٹ، ہاکی، اسنوکر اور اسکواش کے چیمپئن تھے۔

موسیقی کی دنیا کیسی تھی۔ لتا اور نور جہاں ابھی گا بھی رہی تھیں اور ملکہ ترنم پی ٹی وی پر بھی نظر آتی تھیں۔ کیا کلاسیکل موسیقی اور کیا لوک موسیقی؛ مہدی حسن، عابدہ پروین، اقبال بانو، فریدہ خانم، حامد علی خان، مائی بھاگی، الن فقیرجیسے بڑے لوگ تھے۔ اور رات گئے راگ رنگ میں کبھی استاد سلامت علی خان تو کبھی استاد فتح علی خان کو سنتے تھے۔ کچھ برس قبل کسی نوجوان طالب علم نے مجھے کہا ”لتا کون؟ وہی جس کی باریک سی آواز تھی۔۔۔؟“ میں سمجھ گئی کہ ہم نہیں سمجھ سکتے یہ سب کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ کوشش کی کہ ایلوس پریسلے، فرینک سناترا تو بہت پرانے ہوئے، کوئی پنک فلائڈ کو ہی جانتا ہو گا، مگر کہاں۔۔۔ یہ تو اپنے عہد کے اچھے ادب اور اچھی موسیقی سے بھی واقف نہیں ہیں، رفتگاں کو کون پڑھے اور سنے۔ کسے خبر کہ استاد اللہ بخش کون تھے، اور صادقین اور گل جی نے رنگوں کے ساتھ کھیلتے کتنی عمر گزاری۔

آٹھویں جماعت میں تھی کہ تھامس ہارڈی کی ’انڈر دی گرین ووڈ ٹری‘ پڑھی تو اس کی باقی کتابیں ڈھونڈنے لگی۔ کالج میں آئی تو ابو نے ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ ، ’نوزیا‘ اور ’دی گڈ ارتھ‘ جیسی کتابیں پکڑا دیں۔ ابھی کوئی چھ ماہ قبل صنفی مطالعات کے طلباء کو ایک اسائنمنٹ دی، یہ سمجھتے ہوئے کہ انھوں نے اعلی ادب نہیں پڑھا یا اعلٰی سینما نہیں دیکھا ہوگا، سو ان کی آسانی کے لیے ڈزنی اینیمیٹڈ سیریز میں صنفی امتیاز دیکھنے اور تلاش کرنے کا کہا۔ پتہ چلا کہ وہ سنڈریلا، سلیپنگ بیوٹی، سنووائٹ کو بھی نہیں جانتے۔ سوچتی ہوں ان سے آخر کس فریکوئنسی پر بات کروں۔ یہ پوچھتے ہیں ایک ہزار ایک راتیں کون سی اور تکلے کی نوک کس بلا کا نام ہے۔

اسی طرح فیس بک پر لائیک اور کمنٹ گننے والوں کو کیا معلوم کہ احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، سلیم الرحمن اورآصف فرخی جیسے مدیروں کی کیا ادبی خدمات ہیں۔ آصف فرخی نے زندگی ادب کے لیے وقف کی۔ کتنا پڑھا، کتنے تراجم کیے، کتنے افسانے لکھے، کالم اور مضامین لکھے، نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی اوررہنمائی کی، درس و تدریس کے دوران میں کتنوں کو پڑھایا اور زندگی کی تلخیاں کس طرح جھیلیں؟ کسی کو اس سے کیا مطلب۔ انھوں نے اپنے ادبی پرچے دنیا زاد کے حال ہی میں شائع ہونے والے آخری شمارے کا نام ’کتاب الوداع‘ رکھا اور جانے والوں کو یاد کیا، انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہیں بڑے لوگوں کی قدر تھی۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ سو اب اگر کوئی پوچھتا ہے آصف فرخی کون تھا؟ دنیازاد کیا ہے؟ شہرزاد کس کا نام ہے۔۔۔ تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments