ایک تھی سارہ – شاعرہ جو مرنے کے بعد اساطیری داستاں بن گئی


4 جون 1984 کی صبح دس اور گیارہ بجے کے درمیان ایک ٹرین شارع فیصل کراچی پر کالونی گیٹ کے قبرستان کے نزدیک ایک تیس سالہ خاتون کے پرخچے اڑاتے ہوئے گزر گئی۔ خاتون کی شناخت قرۃ العین حیدر کی کتاب “شیشے کے گھر” کی مدد سے سے ہوئی جو مرتے وقت اس کے ہاتھ میں تھی۔ کتاب پر اس کا نام سارہ شگفتہ اور گھر کا پتہ وضاحت سے تحریر تھا۔ مرحومہ کے ہاتھ میں اگربتیوں کا ایک پیکٹ بھی تھا جو وہ اسی قبرستان میں اپنی والدہ کی قبر پر جلانے کے لئے جا رہی تھی۔

31 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی سارہ شگفتہ زندہ رہتی تو شاید وہ شہرت حاصل نہ کر پاتی جو اس کی ناگہانی موت نے اسے عطا کی۔ ویسے بھی 29 سال کی عمر ہوتی ہی کیا ہے۔ اس مختصر سی مہلت میں سارہ ایک شعلہ جوالہ کی طرح چمکی۔ زندگی بھر کا اثاثہ پانچ شادیاں – پہلی شادی خاندانی رشتہ دار ارشد سے، جس سے تین بچے پیدا ہوئے۔ پھر احمد جاوید اور افضال احمد سے سے شادیاں جو تھوڑے تھوڑے عرصے جاری رہیں، پھر ماں کے اصرار پر ایک جاگیردار سے شادی، مگر یہ بھی ناکام رہی۔ آخری شادی سعید احمد نامی ایک کاروباری شخصیت سے، جو سارہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا مگر شادی کو چھپانے پر مجبور تھا۔ سارہ بھی اس کی محبت کی اسیر تھی مگر شدید احساس ندامت کا شکار، اور اسی ڈپریشن میں جان کی بازی ہار گئی۔

احمد جاوید سے شادی کے دوران سارہ شگفتہ کا تعارف ادبی حلقوں سے ہوا۔ انہی حلقوں سے منتاثر ہو کر اس نے اردو اور پنجابی میں شاعری شروع کی۔ غزل اور پابند نظم اس کے مزاج کی نہ تھیں۔ اس لئے اس نے نثری نظمیں لکھنا شروع کیں، اور بہت جلد نثری نظم کے سرخیلوں قمر جمیل اور احمد ہمیش کی پسندیدہ شاعرہ بن گئی۔ 1980ء میں انہی نظموں کا سرمایہ لے کر ہندوستان گئی جہاں وہ امرتا پریتم کے پاس ٹھہری۔ امرتا نے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا اور 1983ء میں بھارت ہی سے اس کا پہلا شعری مجموعہ بلدے اکھر (جلتے لفظ) شایع کر دیا۔ موت کے وقت سارہ کا شعری سرمایہ یہی اکلوتا مجموعہ کلام تھا۔

سارہ شگفتہ کی ناگہانی  اور افسوس ناک موت نے اسے ایک اساطیری شخصیت کا درجہ دے دیا۔ اب اس کی شاعری کے ساتھ ساتھ اس کی ذاتی زندگی بھی موضوع گفتگو بننے لگی۔ اخبارات نے نمک مرچ لگا کر من گھڑت کہانیاں شائع کرنا شروع کیں۔ مگر اسے اصل شہرت اس وقت ملی جب اس کے بارے میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈرامہ سیریل “آسمان تک دیوار” پیش کیا۔ یہ ڈرامہ نورالہدیٰ شاہ نے تحریر کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ کبھی سارہ شگفتہ سے نہیں ملیں۔ پروڈیوسر ہارون رند تھے اور سارہ شگفتہ کا کردار شاہانہ تاجور نے ادا کیا تھا۔

کچھ دنوں بعد بھارت میں امرتا پریتم نے “ایک تھی سارہ” اور پاکستان میں احمد سلیم نے  “مردہ آنکھیں، زندہ ہاتھ” کے عنوانات سے دو کتابیں شائع کیں۔ سارہ کی اردو شاعری کے دو مجموعے “آنکھیں” اور “نیند کا رنگ” بھی شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سارہ شگفتہ کی پنجابی شاعری کے مجموعے پاکستان سے “لکن میٹی” (آنکھ مچولی) اور بھارت سے “میں ننگی چنگی” (میں ننگی بھلی) منظر عام پر آئے۔

ادب کے قارئین سارہ شگفتہ کی زندگی کا احوال جاننا چاہتے تھے۔

ماہنامہ “سرگزشت” کے سابق مدیر سید انور فراز بتاتے ہیں کہ انہوں نے سارہ کی داستاں لکھنے کے لئے انورسن رائے کو آمادہ کیا مگر جب انورسن رائے نے وہ داستان مکمل کر لی تو اس کا معاوضہ ادا کرنے کے باوجود وہ (انور فراز) اسے اپنے ڈائجسٹ میں چھاپنے کے لئے آمادہ نہ ہو سکے۔ یہ داستان بعد میں “ذلتوں کے اسیر” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ “ذلتوں کے اسیر” 1997ء میں شائع ہوئی۔ انیس برس بعد 2016ء میں انورسن رائے کی اہلیہ، نامور شاعرہ عذرا عباس نے “درد کا محل وقوع” کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھ ڈالی جس نے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل مچا دی۔

ادھر بھارت میں سارہ شگفتہ کی شخصیت اور شاعری پر کتابوں کی اشاعت کے بعد اس کی شخصیت کو جاننے کا دور شروع ہوا۔ اردو کے کئی اہم نقادوں نے سارہ کی شاعری پر تنقیدی مضامیں لکھے۔ “سارہ” اور “سارہ کا سارا آسمان” کے عنوان سے دو اسٹیج ڈرامے تخلیق ہوئے جن کی نمائش کا گاہے بگاہے سلسلہ جاری ہے۔

2020ء میں شاعر اور نقاد ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے “کلیات سارہ شگفتہ” کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب مرتب کر ڈالی جس میں نہ صرف سارہ شگفتہ کی تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ شاعری بلکہ اس کے بارے میں لکھی گئی اہم تحریروں کو بھی یکجا کر دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments