شاعر کے بال اور فکر و فن کی جوئیں


اس جبری فرصت اور تنہائی (لاک ڈاؤن) کو جھیلنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں محصور مرد حضرات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی طرح کے ذائقے کی چائے پی پی کر تھوڑا اپنی زبان کا ذائقہ خراب کر بیٹھے ہیں۔ لاک ڈاؤ ن سے پہلے ہر نیا دن، نیا ذائقہ۔ بہرحال خواتین لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن کے باوجود بھی عید کی شاپنگ میں مصروف ہیں۔ ان کو لاک ڈاؤن کی کوئی پرواہ نہیں ویسے ہی تھیلے بھر بھر کے شاپنگ ہو رہی ہے۔

پرسوں ایک صاحب قلم اور ادیب دوست ملنے آئے کافی دیر ادب پر بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے کئی دفعہ نوٹ کیا کہ وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے سر میں خارش کرتے، پھر بات بھی کرتے۔ آخر کار میں نے پوچھ ہی لیا کہ جناب کیا ماجرا ہے۔ فرمانے لگے یار عمرانی! حجاموں کی دکانیں بند ہو نے کی وجہ سے تقریباً مرد حضرات بالکل شاکا بنے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہ میرے بڑے بالوں کی وجہ سے سر میں لیکھیں یا جوئیں پڑ گئی ہیں۔ یہ سن کرحسب عادت مشورہ دیا کہ آج پہلی فرصت میں بیوی کے سامنے بیٹھ جائیں اور اس کو بو لیں کی چھوٹی کنگھی سے جوئیں نکالنے کا کام ایسے سرانجام دے جیسے ماضی میں تقریباً مائیں جب بھی فارغ ہوتیں بچوں کو پکڑ کر اپنے سامنے بٹھا دیتیں اور باریک کنگھی سے جوئیں نکالا کرتی تھیں۔ یاد رکھیں! میری تحقیق کے مطابق لیکھوں اور جوؤں میں فرق ہے۔ لیکھیں چھوٹی، بھورے رنگ کی اور بنا پروں کے ہوتی ہیں۔ جوئیں کالی اور بغیر پنکھ کے ہوتی ہیں جو اڑ نہیں سکتیں لیکن اچھل کود ضرور کرتی ہیں۔

قارئین کرام! یہ بڑا ہی نازک موضوع ہے۔ اس پر قلم اٹھانے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ جوئیں صدیوں سے انسانوں کو پریشان کرتی آ رہی ہیں۔ یاد رکھیں جوئیں، کسی کی جمالیاتی حس کو ناگوار گزر سکتی ہیں، صفائی پسند طبیعت کو بری لگ سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مچھر، یا کچھ اور حشرات کی طرح کوئی بیماری نہیں پھیلاتیں۔ دنیا میں عورتوں اور جوؤں کا بڑا ہی دیرینہ تعلق ہے۔ جہاں عورتیں ہوں وہاں تو جوئیں پائی ہی جاتی ہیں اور جہاں جوئیں ہوں وہاں بھی عورتوں کی موجودگی بعید از قیاس نہیں۔

خواتین تو جوؤں کی اتنی عادی ہو چکی ہیں کہ اگر ان کو کوئی جوؤں کا طعنہ بھی دے تو وہ برا نہیں مناتیں، بلکہ جواب دیتی ہیں کہ بہن! کیا کروں بہت خشکی ہے سر میں۔ منظر دیکھنے والا ہوتا ہے جب طعنہ دینے والی خاتون بھی ایک منٹ ضائع کیے بنا ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتی ہے ہاں بہن! مجھے بھی ایسے ہی خارش ہوتی ہے سکری بہت ہے ناں سر میں۔ عام طور پر سبھی متاثرہ خواتین جوؤں کا الزام بچوں اور ماسیوں پر لگادیتی ہیں۔

بعض عورتیں تو بھری محفل میں جب بھی اپنے سر کے گھنے جنگل میں کڑچھا مارتی ہیں تو ان کا وار خالی نہیں جاتا، ایک آدھ شکار تو پکا پکا ہوتا ہے۔ اور تو اور کچھ شکار پکڑ کر بھری محفل میں چپکے سے ناخن پر رکھ کر ”چٹ“ اور شکار کی باقیات دائیں بائیں بیٹھی کسی نا پسندیدہ خاتون کے کپڑوں پر دفن کر دیں گی۔ میرے اس ادیب دوست کی طرح کچھ اور بھی بیچارے شادی شدہ مرد حضرات اس پریشانی کے عالم میں نظر آتے ہیں کہ کہیں کسی محفل میں کسی نے ان کے کپڑوں پران کی بیگم کا بھیجا ہوا باڈی گارڈ رینگتا ہوادیکھ لیا تو بھری محفل میں دانشوری و فلاسفری کے ساتھ ساتھ عزت سادات بھی جاتی رہے گی۔

ادب کی دنیا میں بھی جوئیں ایک بلند مرتبہ رکھتی ہیں، کئی شعراء نے جوؤں پر بھی اشعار لکھے ہیں۔ یقین نہ آئے تو میر تقی میر، محمد رفیع سودا، جمیل عثمان، محمد علوی، شکیب جلالی وغیرہ کا کلام پڑھ کر دیکھ لیں۔ اور تو اور سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانے ”اپنی اپنی ڈفلی“ میں جوؤں اور لیکھوں کاذکر خاص کر کے ان کی عظمت کو مزید بلند و بالا کیا۔ جوؤں سے منسوب کئی محاورے ہیں جیسا کہ ”جوں رینگنا“ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے، یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔

اب کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں جوں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ میں تو کہتا ہوں کہ ادباء حضرات کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ تو ٹھیک ہے مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

کچھ بھی ہو جوئیں ہمارے معاشرے میں ایک بلند مقام رکھتی ہیں۔ میرے ادیب اور قلم کار احباب جانتے ہیں پر مانتے نہیں کہ میں ایک مفت لکھاری کے ساتھ ساتھ دانشور، فلاسفر او مفت مشورے بھی دینے کا ہنر رکھتا ہوں۔ حالانکہ خود کے ایجاد کردہ ٹوٹکوں اور مشوروں کو خود پہ کبھی لاگو نہیں کیا۔ کیونکہ جان ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے۔ اپنے ادباء اور قلمکار دوستوں کے لئے جوئیں ختم کرنے کا ایک ٹوٹکا میرے ذہن میں ابھی ابھی وارد ہوا ہے۔

جس کے استعمال کرنے کے بعد کسی بھی ادبی محفل میں آپ کی سبکی نہیں ہو گی اور نہ ہی عزت سادات جائے گی۔ جوؤں سے چھٹکارہ پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مٹی کے تیل کی اچھی طرح مالش کی جائے (مٹی کا تیل ویسے بھی آج کل سستا ہے ) اور بالوں کو پندرہ منٹ کے لیے تولیے میں لپیٹ کر رکھا جائے (تولیہ لازمی بیگم صاحبہ والا ہو) پندرہ منٹ بعد پیڑول سے سر دھو کر چولہے یا ہیٹر پر بال خشک کر لیے جائیں۔ ان شاء اللہ قیامت تک کبھی کوئی جوں سر میں نظر نہیں آئے گی۔

میری تحقیق نے ثابت کیا کہ مشرق ومغرب کے ادباء، شعراء اور قلمکار حضرات بہت سی محرومیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں یا چلے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا کہ گھر میں بڑے عزت دار ہیں۔ بیوی کے ہاتھوں گنجے ہو جانے کے باوجودحرف شکایت لب پے نہ لانا۔ اپنے ہی گھر میں بیوی کی موجودگی میں گھبرائے اور مرجھائے ہوئے رہنا۔ دوسروں کے سامنے بیوی سے زیادہ سمجھدار بننے کی کوشش بالکل نہ کرسکنا۔ شکر ہے کہ میں ان محروم افراد کی فہرست سے باہر ہوں کیونکہ آپ خود دیکھ لیں عورت سے منسوب جوؤں پر تحریر تولکھ دی، لیکن کہیں اپنی زوجہ محترمہ کا ذکر کیا؟ نہیں ناں۔ کیونکہ زوجہ محترمہ بڑی باریک بینی سے میری تحریریں پڑھتی ہیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ بس آپ محمد علوی کا یہ شعر پڑھتے ہوئے خود کو بھی اور بچوں کو بھی کنگھی کر کے ”چٹ“ کی آواز سے لطف اندوز ہوں۔

یہ بھی شاعر ہیں ان کے بالوں میں
فکر و فن کی جوئیں بھٹکتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments