ڈینئل پرل کا قتل، ایف بی آئی کی گوری اور کمپیوٹر والے ماموں جان



لاہور : ملک ”وار آن ٹیرر“ کی زد میں ہے، ایس پی اقبال ٹاؤن کو ایک مختصر فون کال موصول ہوتی ہے جسے سننے کے فوری بعد ایس پی صاحب کریم بلاک میں واقع ایک گارمنٹس فیکٹری کے کسی انتظامی انچارج یا مینیجر ٹائپ شخص کو فون کرتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مینوفیکچرنگ یونٹ میں موجود انتظامی عملے کے ان تمام افراد کو روک لے جن کے پاس سسٹم یعنی کمپیوٹر ہیں، میرے آنے تک کسی کو چھٹی یا فیکٹری سے باہر نہ جانے دے ”بس، میں تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں“ اور ایک دو گھنٹے کے اندر ایس پی اقبال ٹاؤن چند گوروں کے ساتھ اس گارمنٹس فیکٹری میں پہنچ جاتا ہے۔ ۔

لاہور سے خفیہ ایجنسی نے آئی پی ایڈریس اور بعض دیگر انفارمیشن پر مشتمل کچھ کمپیوٹر ڈیٹا نیویارک بھیجا تھا جو ڈی کوڈ کیا جاچکا تھا جس کی روشنی میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے کر پاکستان بھیجی گئی تھی۔ ٹیم کے ارکان کراچی اتر چکے تھے جہاں سے ان کی فوری لاہور کے لئے روانگی کے ساتھ ہی ایس پی اقبال ٹاؤن کو الرٹ کر دیا گیا تھا، اور پھر ایس پی صاحب نے اپنی حدود یعنی علامہ اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک میں واقع اس گارمنٹس مینوفیکچرنگ یونٹ کے سٹاف کے ان تمام ارکان کو ”سٹینڈ بائی“ کروا دیا تھا جن کے استعمال میں کمپیوٹر سسٹم تھے۔

ایس پی اقبال ٹاؤن جب اس گارمنٹس مینوفیکچرنگ یونٹ پہنچا تو چند گورے اس کے ساتھ تھے، یہ FBI کے اہلکار تھے جن میں ایک لیڈی افسر بھی شامل تھی۔ فیکٹری میں ان لڑکوں کو لائن اپ کر دیا گیا جن کے استعمال میں کمپیوٹر سسٹم ہوتے تھے۔ گورے تفتیش کار عقابی نگاہوں سے ان تمام نوجوانوں کو دیکھ رہے تھے، چند سوالات کے جوابات کی روشنی میں دو تین نوعمر لڑکوں کو الگ کر لیا گیا اور باقی کو فارغ کر دیا گیا۔ یہ تمام ٹین ایجرز فیکٹری مالک کے سگے بھانجے تھے۔

انہیں ساتھ لے کر تمام لوگ ایس پی اقبال ٹاؤن کے دفتر پہنچ گئے جہاں امریکی ایف بی آئی کی لیڈی اہلکار بچوں کی عمر کے پیش نظر نہایت نرم لہجے اور سوفٹ انداز میں ان سے مختلف سوالات کر رہی تھی مگر لڑکے تھے کہ کسی بھی طرح پکڑائی نہیں دے رہے تھے۔ بالآخر ان میں سے ایک کے برابر بیٹھے ڈی ایس پی نے ایک موٹی سی گالی دیتے ہوئے اس کے کان میں پنجابی میں کہا ”اوئے۔ ۔۔۔لینی دیا! کیوں ساریاں نوں مروانا اے؟ سچی سچی دس دے“

دیسی تفتیش کار کا دیسی انداز تفتیش ہی کام آیا اور ”ڈپٹی“ کے دیسی لہجے میں کہی گئی ایک ہی بات نے کام کر دکھایا، نو عمر لڑکوں نے اگلے ہی لمحے ساری حقیقت اگل دی، جس کے مطابق۔ ۔

ان نو عمر لڑکوں کے پاس اپنے ماموں کے ای میل اکاؤنٹ کا پاس ورڈ تھا، انہوں نے امریکی نیوز چینل سی این این کی ویب سائٹ پر یہ بریکنگ نیوز دیکھی کہ پاکستان میں امریکی صحافی، وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینیئل پرل کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے تو انہیں ایڈونچر سوجھی کہ خود کو متذکرہ اغوا کار ظاہر کرتے ہوئے ماموں کے ای میل اکاؤنٹ سے نیوز چینل کے ساتھ ”رابطہ بازی“ کی جائے لہذا انہوں نے ماموں کے اکاؤنٹ سے ایک مختصر سی ای میل بھیجتے ہوئے مطالبات کی منظوری کے لئے دی گئی ڈیڈ لائن چند گھنٹے بڑھا دی۔

” اور جب چند ہی منٹوں میں سی این این سے ایک بار پھر نشر ہونے والی بریکنگ نیوز میں ڈیڈ لائن extend کرنے کی خبر چلتی دیکھی تو ہم نے بہت excited feel کیا، پھر ہمیں اس سارے کھیل میں مزہ آنے لگا اور ہم چند گھنٹوں بعد پھر ڈیڈ لائن extend کرنے کی دو لائنوں کی ایک میل کردیتے اور چند منٹوں کے اندر اسے سی این این پر آن ائر ہوتا دیکھتے“

یہ ان نوعمر ملزمان کا ابتدائی اقبالی بیان تھا، ہو سکتا ہے در حقیقت وہ ماموں ہی کی ایما پر یہ سب کرتے رہے ہوں، بلکہ غالباً وہ اپنے ماموں ہی کی ہدایت پر یہ کارروائی کر رہے تھے اور یہ اسی کا آئیڈیا ہوگا کہ اس نے سوچا ہوگا کہ لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن جیسے ایک قدرے غیر نمایاں علاقے کی ایک غیر آباد مارکیٹ کی ایک فیکٹری میں پڑے کمپیوٹرز تک کوئی نہیں پہنچ پائے گا۔۔۔

بچوں کے اس ماموں کا نام عمر سعید شیخ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments