جلال الدین اکبر کا جام کمال کو مناظرے کا چیلنج


بلوچستان میں ہر رنگ کی سلیمانی ٹوپی جیب میں رکھ کرنسلوں سے بلا خوف و خطر حکومت کرنے والے آخر کون لوگ ہیں ان کا احتساب کبھی ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ کرپشن کرنے اور نہ حساب کتاب کرنے والے قانونی ذمہ داروں کے پاس ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے جیسی صورتحال کے تحت یہ صوبہ چلایا جا رہا ہے ماضی میں وزراء اعلی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حاصل اختیارات کے تحت فیصلے از خود کرتے تھے لیکن گزشتہ تقریباً دو سالوں سے یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو کابینہ میں صرف زیر بحث لا کر منٹس میں منظور ظاہر کر دیا جاتا ہے جبکہ منٹس انگریزی میں ہونے کی وجہ سے اکثر وزراء بوجوہ مصروفیت یا انگریزی کی استعداد سے محرومی کے سبب پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں جبکہ کسی مسئلے کو منٹس میں ریکارڈ کرانے والوں کا مقصد کل کی ناگہانی قانونی گرفت سے خود کو بچانا ہوتا ہے وفاقی حکومت نے اپنی موجود کابینہ کی چینی ایکسپورٹ کے فیصلے کے باوجود چینی بحران کی انکوائری کرائی اور چینی سکینڈل کی رپورٹ پبلک کر دی۔

جس سے حقائق سامنے آئے کیا اس غریب صوبے میں بھی کابینہ کی آڑ لے کر جو لوٹ مار کی گئی یا کی جا رہی ہے اس پر کوئی انکوائری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ابتدائی طور دو سکینڈل پیش نظر کرتا ہوں پہلا بلڈوزر گھنٹوں میں خرد برد سے متعلق ہے جس پر حکومت بلوچستان ایک ارب 32 کروڑ روپے سالانہ سبسڈی کی مد میں خرچ کرتی ہے۔ جس کے لئے فنڈز کے اجرا کے موجودہ سکریڑی خزانہ شدید مخالفت کرتے ہوئے انکاری بنے لیکن اس خلاف قانون فنڈز کے اجراء کے تحریری حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرنا ان کی قانونی مجبوری بن گیا جس کا بیشتر حصہ خرد برد ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے اس سبسڈی سے غریب کاشتکار کو کوئی فائدہ نہیں ملا نہ مل رہا ہے سب بڑوں کے پیٹ میں جا رہا ہے یہ میرا چیلنج ہے اگر کسی میں اخلاقی جرات ہے تو صرف اس سال کے غریب کاشتکاروں کے نام پبلک کرے۔

باجود اس کے کہ اس گورکھ دھندے بلڈوزر گھنٹوں کو اعلی عدلیہ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ دوسرا سکینڈل جو اس کابینہ کے دور میں ہوا ہے وہ گندم کی خریداری میں کاشتکار کے حق ملکیت کے کاغذ کی شرط کو ختم کرنا ہے جب کہ نیب اس کو لازمی قرار دے چکی تھی۔ اب عمران میں تو اخلاقی جرات تھی اس نے تو کابینہ کے فیصلوں کے باوجود کمیشن تشکیل دیا یہاں یہ جرات مفقود نظر آتی ہے اب اعلی عدلیہ یا نیب کچھ ہل جل کرے تو یہ سکینڈل بے نقاب ہو سکتے ہیں۔

میں یہ تحریر کر رہا تھا کہ ایک دوست نے کابینہ کے حالیہ اجلاس کے منٹس بھجوائے انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے کابینہ کسی ضابطے اور قانون سے ماورا کوئی باڈی ہے جس میں کابینہ کے ارکان اپنی مرضی سے جو کام چاہیں کروا لیتے ہیں شاید وزیراعلی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے تحت کچھ بھی پاس کر لیا جائے کوئی نہیں پوچھے گا۔ جیسے محکمہ فوڈ والوں نے حق ملکیت والی شرط ختم کروا لی ہے۔ اسی طرح منٹس میں ایجنڈا نمبر 2 پر دالبندین شہر کے لیے بجٹ میں مختص کردہ 10 کروڑ کی رقم کو یکایک ایک ارب چالیس کروڑ کروا لیا۔

اور اس سال فیز 1 میں خرچ کرنے کے لیے رقم کو 2 کروڑ کی بجائے 30 کروڑ منظور کر لیا۔ جبکہ موجودہ مالی سال ختم ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہے معلوم نہیں کہ منٹس بنانے والے دالبندین شہر کو صوبے کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں کیوں اتنی ترجیح دی رہے ہیں پچھلے سال بھی اس وقت کے وزیر خزانہ نے محکمہ فنانس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دالبندین میں ایک ارب سے زیادہ رقم خرچ کر دی جبکہ وہاں کے لوگوں کو کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اگر اسی طرح کابینہ کے نام نہاد اجلاس بلا کر بجٹ میں مختص کردہ رقم کو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنا بڑھانا ہے تو بجٹ اجلاس کی یا صوبائی اسمبلی سے منظوری کی کیا ضرورت ہے۔

سنا ہے ایک وزیر نے اس پر اعتراض کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اگر اسے منظور کرنا ہے تو ”ساڈا وی حصہ رکھو“ ۔ خیال یہی تھا کہ یہ منظور نہیں ہوا لیکن جب آنجناب مکرم و معظم مدظلہ محترم جام کمال کے دفتر سے منٹس جاری ہوئے تو موصوف حاتم طائی ثابت ہوئے اور صوبے کے ”ٹام کروز“ کی گزارش کو کمال مہربانی سے منظور کر لیا یہاں جس طرح اس رقم کو بڑھانے پر سوالات آٹھتے ہیں وہیں پراس کو خرچ کرنے کا عمل بھی مشکوک نظر آ رہا ہے اب جب کہ مالی سال کو ختم ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے سوال یہ ہے کہ پیپرا رولز کی موجودگی میں ایک ماہ کے قلیل عرصے میں تیس کروڑ روپے کس طرح خرچ ہوں گے؟

جلال الدین اکبر کہتے ہیں ہر شخص اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی جگہ بے حد ایماندار ہے اور نیک ہے اگر ایسا ہے تو پھر سمجھ نہیں آتی معاشرے میں خرابی کہاں پر ہے؟ اگرصوبے میں سب ایماندار افراد مل کرحکومت چلارہے ہیں تو پھر حکومت کے اقدامات زوال پذیر کیوں ہیں؟ لیکن محسوس ہو رہا ہے کہیں تو اخلاق باختگی ہے اور اعلیٰ اصولوں سے روگردانی ہے شاید کچھ لوگ اپنے اعمال و کردار میں ملاوٹ کر رہے ہیں کر کچھ اور رہے ہیں دکھا کچھ اور رہے ہیں جلال الدین اکبر اپنی تحریروں سے مسائل کے حل اور وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کے لئے جن الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں وہ انتہائی متاثر کن ہوتے ہیں وہ نظام چلانے والوں سے نالاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اپنی ظاہری شکل وصورت کو نکھارنے کے لئے تو بہت کچھ کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے آج کے دور میں اکثرسیاست دان اپنی بدنما کارکردگی میں نکھار لانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور اس پر بہت محنت کرتے ہیں مگر اپنی سیرت کو سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

تاکہ بناوٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہ پڑے اس وجہ سے وہ اپنے مطلب کے لیے تھوڑی بہت بے ایمانی کرنے کو غلط نہیں سمجھتے۔ کیونکہ چھوٹے موٹے معاملات میں بے ایمانی کرنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اوریہی سمجھتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں۔ لیکن کیا واقعی تھوڑی بہت بے ایمانی کرنے میں کوئی حرج نہیں؟ عہد حاضر کے بلوچستان میں گمنام قلمی مجاہد جلال الدین اکبر کی تحریریں اپنی مثال آپ ہیں ان کو نظام سے اختلاف ہے لیکن وہ نظام کے سامنے بھی نہیں آنا چاہتے اور نظام کو بے لگام بھی نہیں چھوڑنا چاہتے اپنے اس قلمی نام سے تحریریں ضبط قلم کرتے ہیں وہ حالات و واقعات پر بھی مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں وہ جام کمال خان سے ایمانداری پر مناظرہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔

وہ دعوی کرتے ہیں کہ لاہور میں ایک بلوچستانی افسر نے اپنے بھائی کے نام سے ویسٹ منیجمنٹ کمپنی بنائی ہے ان کو یہ بھی معلوم ہے اس وقت کچھ ارکان اسمبلی کے پرائز بانڈ تواتر سے لگ رہے ہیں اور جام کمال صرف اس شخص کو اہمیت دیتے ہیں جو ان کے ہر غلط فیصلے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں شاید وہ خود پسندی کا شکار ہوگئے ہیں ان کو اپنے اوپر تنقید بالکل پسند نہیں۔ کابینہ کے خاموش یا زیادہ تندوتیز گفتگو کرنے والے ارکان نے ان کو مٹھی میں لے رکھا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت نے ایمانداری، شفافیت اور اصول پسندی کا جو معیار رکھا ہے یا قائم کیا ہے تو سوچئے بے ایمانی، غیر شفافیت اور بے اصولی کا معیار کیا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments