آصف فرخی صاحب کا خاک نشین روپ


کچھ دن قبل میں نے موجودہ وبا پر پہلی نظم لکھی تو آصف فرخی نے کمنٹ کیا

” وبا کے دنوں میں نظمیں لکھنا چاہئیں”

کچھ ہی دیر بعد آصف نے کال کی اور کہا کہ

” میں دنیا زاد کا خصوصی شمارہ وبا کے حوالے سے لانا چاہ رہا ہوں لیکن ابھی یہ بات صرف مخصوص دوستوں کے علم میں ہے ، تم بھی مزید نظمیں لکھو اور مجھے بھیجو “

میں نے ہامی بھر لی اور اپنے اگلے مجموعے کے بارے میں پوچھا کہ ” پا بُریدہ نظمیں کا دیباچہ لکھا؟ بہت دیر ہوگئی ہے ـ اس سال اسے لانا ہے ـ”

آصف فرخی نے کہا

” ابھی نہیں لکھا مگر میں نے ذہن بنا لیا ہے اور اہم نکات نوٹ بھی کر لیے ہیں “

میں نے کہا

“آپ کی طبیعت بھی ناساز ہے ـ اگر دقت ہو رہی ہے تو کوئی بات نہیں”

آصف کے لہجے میں بدلاؤ آیا اور بولا

” تمھاری طرح میں بھی ایک مشکل زندگی سے دوچار ہوں ـ نوعیت الگ ہے مگر تکلیف دہ ایک ہی جیسی ہے ـ تمھیں اندازہ تو ہو گیا ہوگا یا علم میں تو آیا ہو گا “

آصف بہت کم نجی معاملات پر بولتا تھا نہ بولنے کے برابر ـ اس کے لہجے میں پہلی بار میں نے شکستگی محسوس کی جو مجھ سے سہی نہیں گئی اور میں نے بات کا رخ تبدیل کرتے ہوئے کہا

” ہاں میرے علم میں ہے ، اسی لیے کہا کہ اگر نہیں لکھا جارہا تو کوئی بات نہیں “

آصف جانتا تھا کہ اسی کہ وجہ سے کتاب رکی ہوئی ہے ـ بولا ” میں ضرور لکھوں گا ـ حالات بہتر ہوں تو کراچی آؤ “

پھر دیگر باتیں ہوتی رہیں ـ یہ ایک طویل کال تھی ـ وہ شدید تنہائی اور ٍڈپریشن کا شکار تھاـ زندگی نے ایک ایسے صدمے سے دوچار کیا تھا کہ چٹان جیسا آدمی تیزی سے موم کی طرح گھلتا جا رہا تھاـ وہ وبائے عام سے بچ گیا مگر زندگی کے وار سے نہ بچ سکاـ

آصف جب یونیسیف میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا تو صحرائے تھر کی طرف آفیشل وزٹ پر جاتے ہوئے رات صرف دوستوں کی وجہ سے ہمیشہ میرپور خاص میں رکتا۔ رات گئے تک گپ شپ چلتی رہتی۔ عمومی رائے ہے کہ آصف مخصوص رکھ رکھاؤ والا آدمی ہے مگر میرپور خاص میں اپنی باوردی ڈرائیور والی بڑی گاڑی چھوڑ کر موٹر سائیکل پر بیٹھا اور چھوٹے چائے خانوں اور عوامی کڑھائی کے ڈھابوں پر بے تکلف انداز میں شریک رہا۔

میرپور خاص کا کمشنر اہتمام کرنے کے لیے فون کرتا تو ٹال.دیتا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہی ہوں۔ میٹنگ میں ملاقات ہو گی۔

ایک بار میرے باں رکا تو رات کو کھانے کے وقت کہا کہ ” اگر ڈرائیور بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائے تو مناسب ریے گا “

اور ڈرائیور ہمارے ساتھ ہی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا۔

بلا شبہ یہ ایک بڑے آدمی کا رویہ تھا۔ عمومی پر تکلف رویے کے باوجود دوستوں کے درمیان رسمی خول ٹوٹ جاتا تھا اور ایک شرارتی بچہ قہقہے لگاتے ہوئے فقرے بازی کرنے لگتا۔

روڈ ایکسی ڈنٹ کے بعد میں گوشہ نشین ہوگیا تھا اور ادبی تقاریب اور حلقوں سے دور ہو گیا۔ آصف نے مجھے دوبارہ لکھنے پر مائل کرنے کے لیے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے سیشن میں مدعو کیا مگر میں نے معذرت کر لی۔ بہت اصرار کے بعد میں آمادہ ہوا۔ بے کیفی کے دائرے سے ایک قیدی کو باہر آصف فرخی نے نکالا اور مجھ میں مثبت تبدیلی واقع ہوئی۔ یہی آصف چاہتا تھا۔ کیسا دردمند انسان تھا کہ دوسروں کے درد سمیٹتا رہا اور اپنا درد کھل کے بیان بھی نہیں کرسکا اور دل کا درد دل میں لیے چلا گیا۔

پچھلی راتوں سے نیند میری آنکھوں سے غائب ہوچکی ہے۔ آنکھیں سلگ رہی ہیں۔ ایک طویل رفاقت اپنے اختتام کو پہنچی مگر آصف فرخی ہمارے دلوں اور ادب میں ہمیشہ دھڑکتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments