بھولستان کا باجا


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بھولستان نام کا گاؤں ہوا کرتا تھا۔ جہاں ایک باجا نام کا مکھیا حکومت کرتا تھا۔ مکھیا انتہائی کاہل، نالائق اور بیوقوف ہونے کا ساتھ ساتھ گھمنڈی و کینہ پرور بھی تھا۔ گاؤں کے کچھ با اثر افراد نے (اپنے فائدے کے لیے ) اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اسے مکھیا تو بنا دیا مگر حال یہ تھا کہ گاؤں کو چلانے کے لیے اس کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔

اس کے پاس واحد ایک ہی کام تھا اور وہ تھا شریکوں کی منجی (چارپائی) ٹھوکنا۔ وہ سارا دن ہتھوڑا اور چھینی لیے شریکوں کی چارپائیاں اور پیڑھیاں ٹھوکتا رہتا۔ گاؤں والے خوش رہتے کہ باجا جی جان لگا کر محنت کر رہا ہے۔

روز باجے کا کوئی شریک پکڑا جاتا اور اس کو گاؤں کے چوک میں لایا جاتا۔ گاؤں والے اس پر لعن طعن کرتے اور اپنے عظیم مکھیا کی کرپشن کے خلاف پھرتیوں پر واہ واہ کرتے۔

چند ماہ یہ سلسلہ چلتا پھر لوگ بھول بھال جاتے اور وہ شریک یا چور کسی کی ضمانت پر چھوٹ جاتا اور باجے کے پنڈ اور سیاست سے کہیں دور چلا جاتا۔ اس نے پنڈ کے خزانے کو کچھ لوٹایا یا نہیں نہ کسی کو اس کی خبر ہوتی نہ کوئی اس پر بات کرتا۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا کہ وہ چپ سادھ لیتا اور باجے اور اس کو لانے والوں کی مخالفت بند کر کے کسی کونے میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ رہتا۔

بھولستانیوں کو کبھی اس بات کا ادراک ہی نہ ہوتا کہ اس ساری اٹھا پٹخ میں خود ان کے یا ان کے پنڈ کو کیا فائدہ ہوا اور پنڈ کے خزانے میں کچھ آیا بھی یا الٹا اس شریک مار لکا چھپی میں گاؤں کے خزانے پر مسلسل بوجھ ہی پڑے۔

شاید چیزیں اسی طرح چلتی رہتی مگر کرنی خدا کی ایسی ہوئی کہ باجا کے دور حکومت میں گاؤں کی دکانداروں، آڑھتیوں، زمینداروں وغیرہ نے ذخیرہ اندوزی و مہنگائی کی جو لوٹ مچائی سو مچائی قدرتی آفات نے رہی سہی کسر نکال دی۔ کبھی ژالہ باری تو کبھی ٹڈی دل اور کبھی وبائیں۔

اب ایک طرف گاؤں کی مارکیٹ سے چینی، آٹا، تیل، دوائیاں غرض ہر چیز غائب اور تگنے چوگنے داموں پر تو دوسری طرف منہ زور بیماریوں اور آفات سے لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں اور ہسپتال و گھر بیماروں سے بھر گئے۔ لوگ بھوک، بیروزگاری، غربت اور بیماریوں سے مرنے لگے۔

گاؤں والے ان مسائل کو لے کر جب روتے پیٹتے باجے کے پاس آتے کہ باجا صاحب کوئی حال نکالیں نہیں تو پورا گاؤں تباہ و برباد ہو جائے گا۔ باجا اپنی میز کے پیچھے بیٹھا پہلے تو ان کو بٹر بٹر گھورتا رہتا پھر گردن ٹیڑھی کر کے اور ہاتھوں کو نچاتے ہوئے کہتا کہ میرے عزیز بھولستانیوں! یہ ساری مصیبتیں تو اللہ کے حکم سے ہیں جو آ کر رہیں گی اور ٹلنے والی نہیں ہیں مگر آپ لوگوں نے گھبرانا نہیں ہے آپ کا باجا تو آپ کے ساتھ ہے۔

پھر باجا صاحب اگلے ایک گھنٹے تک ایسا بجتے ایسا بجتے کہ گاؤں والے سر تان کے ایسے میل پر سر دھننے لگتے کہ کیا سر ہے، کیا لے ہے اور کیا کلام ہے۔ وہ بھی زبانی (کلامی) ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں ایسا پڑھا لکھا، ذہین فطین اور خوش گفتار مکھیا ملا جو نہ صرف بغیر پرچی کے پٹر پٹر انگریزی بولتا ہے بلکہ خوبصورت بھی ہے اور فیشن ایبل بھی ہے۔

زرا دیکھو تو اس کی کھیڑی (جوتے ) واسکٹ اور کپڑے سب میچنگ ہوتے یہاں تک کہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح اور انگلیوں میں پہنے پتھر بھی بہترین امتزاج میں ہوتے ہیں۔ اور آس پاس کے پچیس پنڈوں (دیہات) میں ایسا مکھیا نہیں ہے۔ بھولستان پنڈ کی تو بلے بلے ہو گئی شریکوں میں۔ پچھلا مکھیا تو بس موٹا اور گنجا گینڈا ہی تھا۔ جو صرف پیسہ بناتا رہا اور سری پائے کھاتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے اپنی فٹنس کا خیال بھی نہیں تھا جبکہ باجا ایک دم فٹ اور چاق و چوبند ہے۔

اسی طرح گاؤں والے اگلے کافی دن باجے کی تعریفوں میں گزار دیتے اور اس کی محبت میں وہ سر پہ آئی مصیبتیں بھی نظر انداز کر دیتے۔ اور یہی سوچ کر خوش ہوتے رہتے کہ اتنا ایماندار اور اتنی خوبیوں کا مالک مکھیا ملا ہے انھیں۔ کام کا کیا ہے۔ وہ تو کرنے سے ہی آتا ہے لہذا جلد یا بدیر باجا مکھیے کا کام بھی سیکھ ہی جائے جائے گا۔

ادھر باجے کے ڈبکو سارا دن مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ڈب ڈب بجتے شریکوں اور پچھلے مکھیاؤں کی برائیاں و نالائقیاں بیان کر کر کے پنڈ والوں کو تپ چڑھائے رکھتے کہ گاؤں والوں کی ساری مصیبتوں کا موجب پرانے مکھیے ہیں۔ گاؤں کی عورتیں، بچے بزرگ اور لڑکیاں سارا دن پچھلے مکھیاؤں کو کوسنے دیتے رہتے۔ اسی طرح دن گزرتے جاتے اور گاؤں کے بگڑتے حالات کی طرف کسی کا دھیان نہ جاتا۔

مگر جب دو ڈھائی سال گزر گئے تو گاؤں کے کچھ سیانے باجے کی اس حرکت کو بھانپ گئے اور انھوں نے بھولستان میں واویلا شروع کر دیا کہ یہ باجے اور اس کے ڈبکوؤں کی سازش ہے جو ہم سب کو دو سال تک دھیان لگائے رکھا۔ بھائی پچھلوں نے جو کیا سو کیا، وہ اچھا تھا یا برا ان کے ساتھ گیا۔ اب باجے اور اس کے ڈبکوؤں کو اپنا کام اور اپنا کمال دکھانا ہوگا۔ ہم ان کو سر تان سننے اور پچھلے مکھیاؤں کی برائیاں کرنے نہیں لائے بلکہ حالات ٹھیک کرنے کے لیے لائے ہیں۔ جو الٹا بگڑتے جا رہے ہیں۔ غریب کے گھر روٹی نہیں، وباؤں نے ہمارا گھر ڈھونڈ لیا ہے، باجے کے پاس لوگوں کو کچھ عرصہ گھر بٹھا کر اس وبا پر قابو پانے کا کوئی پلان نہیں الٹا اس کی سمارٹ ہدایات سے وبا بدترین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔

فصلیں ہماری تباہ ہو چکیں اور باجے نے ان پر سپرے یا کچھ اور کروانے کے بجائے پنڈ کے چھوٹے لڑکوں کو ورغلا کے انھیں یہ وہم ڈال دیا ہے کہ وہ تو شیر ہیں۔ لہذا وہ جائیں اور نہ صرف وبا کو کہیں کہ وہ دفع ہو جائے بلکہ فصلوں کی ڈھیٹ اور سب کچھ چٹ کر جانے والی ٹڈیوں کے لشکر بھی پکڑیں یا پھر کھیت کنارے کھڑے ہو کر ان کو للکارے ماریں کہ اے ذلیل ٹڈیو! اپنا راستہ ناپو۔ ۔ ۔ وگرنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ یقیناً ٹڈیاں ڈر کے بھاگ لیں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر باجا سب سنبھال لے گا۔

بھولستانیوں کو سیانوں کی باتوں میں وزن نظر آیا اور باجے پر ایک بار پھر تنقید شروع ہو گئی۔ لوگ مطالبہ کرنے لگے کہ باجے کی مکھیا شپ کی مدت آدھی گزر چکی مگر باجے نے نہ کوئی بہتری لائی، نہ کوئی چور پکڑا، نہ کوئی ریکوری کروائی اور نہ وعدے پورے کیے۔ الٹا حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں اور بھولستان اب ارد گرد کے پنڈوں سے بھی قرضے لینے اور مانگ کر کھانے پر آ چکا ہے لہذا باجے کو اس سیاپوں کا حل نکالنا ہوگا۔ اور پچھلے مکھیاؤں کا رنڈی رونا چھوڑ کر پنڈ کے حال کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔

باجا اس صورتحال سے کافی پریشان ہوا کیونکہ پنڈ کا حال سنوارنے کا اس کو کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ تو بس ٹبے (ٹیلے ) پر کھڑا ہو کر شریکوں کی منجی ٹھوکنے کا ماہر تھا اور یہی وہ کر رہا تھا پچھلے دو ڈھائی سال سے۔ بلکہ اس نے ساری زندگی بس شریکوں سے مقابلہ کیا تھا اور ان کو ہرانا سیکھا تھا۔ پنڈ چلانا کیا ہوتا ہے یہ اس کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے۔

خیر اس نے ڈبکوؤں اور کچھ سرکردہ لوگوں سے صلاح مشورے کیے کہ کیا کریں۔ ہر کوئی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مشورے دیتا رہا۔ جن کا نچوڑ یہ تھا کہ سارے پنڈ کے کھسرے اکٹھے کیے جائیں اور ان کو حکم دیا جائے کہ وہ زرعی قرضے وصول کریں۔ پنڈ کی نہر پر ڈھولے، ٹپے، ماہیے گانے اور ٹھمکے لگانے والے لونڈیاں اور لونڈے وباؤں کے خلاف لڑیں اور پنڈ کی کچھ پھپھے کٹنیاں پنڈ والوں کو نت نئے شوشے اور تماشے نکال کر دھیانے لگائیں۔ اور شریکوں کی منجی ٹھوکنے کے کچھ تازہ دم ٹوٹکے متعارف کروائے جائیں۔

پھر کیا تھا اب ہر پندرہ دن بعد پھپھے کٹنیاں ایسے ایسے تماشے کرتی کہ سارا بھولستان انھیں کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ان تماشوں کو پنڈ کے بڑے بڑے چوکوں میں دکھایا جاتا ہے جن کو دیکھنے اور سننے پورا پنڈ آتا ہے۔ اور ہر تندور، نائی کی دکان، بیٹھک، تھڑے، اور گھر میں اسی بارے میں بات ہوتی رہتی ہے۔

اوپر سے شریکوں کی منجی ٹھوک پلان نے کچھ جدید طریقے متعارف کروائے ہیں جن کے ذریعے گاؤں کی گلیوں میں شریکوں کی بدبو دار جرابیں، گندی بنیانیں اور کچھے دکھائے جاتے ہیں پورا پنڈ ان کی گندگی پر تھو تھو اور ابکائیاں کرتا رہتا ہے۔

باجا کیا کر رہا ہے اور گاؤں پر کیا گزر رہی ہے یہ سوچنے کا ٹائم کسی کو ملتا ہی نہیں۔ پنڈ کے سب سیانے بھولستانیوں کی حماقتوں اور خر دماغی پر سر پکڑ کر نکڑے لگے بیٹھے ہیں۔

نوٹ: کہانی کے تمام کردار و واقعات فرضی ہیں۔ لہذا کسی شخص یا واقعے سے اس کی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی اور رائٹر اس سے برات کا اظہار کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments