پارٹیوں میں خاندانی اور شخصی اجارہ داری کا نقصان


پاکستان کو اس وقت بظاہر کورونا وائرس کے علاوہ ٹڈی دل جیسے دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ کووڈ۔19 نامی وائرس ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی پالیسی غیر واضح یا کمزور ہے۔ اس وبا کا پھیلاؤ شدید ہونے کی صورت میں پاکستان کے محدود مالی و طبی وسائل کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف میں غیر معمولی اضافہ کا امکان ہے۔ اسی طرح ٹڈی دل کا حملہ ملک کی فصلوں کے لئے شدید نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ باون اضلاع میں لاکھوں ایکڑ رقبہ پر فصلیں ٹڈی دل کے نشانے پر ہیں۔ اس کا سامنا کرنے کے لئے ملکی صلاحیت اور کوشش حملہ کی نوعیت اور شدت کے مقابلہ میں کم تر بتائی جارہی ہے۔ البتہ ملک کو اس وقت سیاسی تصادم، نظام پر عدم اعتماد اور اختیارات کی تقسیم کے سنگین کا بحران کا سامنا بھی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے فوری نوعیت کے مسائل سے نمٹنا مشکل تر ہوجا تا ہے۔

جیسا کہ کورونا اور ٹڈی دل کے مقابلے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ایک وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے اور عالمی ادارہ صحت یا دیگر ماہرین کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر وبا سے بچاؤ اور متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے ہر فرد نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ انسانی صحت اور عوام کی زندگی سے متعلق اس بنیادی مسئلہ کو بھی سیاسی رسہ کشی کا سبب بنا لیا گیا ہے۔ وفاق میں حکمران پارٹی پوری قوت سے سندھ میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی پر حملہ آور ہے اور جواب میں بلاول بھٹو زرداری کی سرکردگی میں پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو نااہل اور مسئلہ سے نمٹنے کی صلاحیت سے بے بہرہ قرار دیتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خود یہ کنفیوژن پیدا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں کہ اس مسئلہ سے نمٹنے اور مقابلہ کے لئے اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ماہرین کی رائے کے مطابق مل جل کر فیصلہ کرنے کے نادر موقع کو باہمی چپقلش اور سیاسی انارکی کی وجہ بنا لیا گیا۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے نادانستگی میں یا جان بوجھ کر اس موقع پر اٹھارویں ترمیم، سیاسی اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم کے سوال پر اظہار رائے کرنا اور اسے سیاسی مباحث کا حصہ بنانا ضروری سمجھا۔ یعنی ایک ایسے وقت میں جب وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت تھی اختلاف اور دوری کا ایک نیا موضوع تلاش کرکے اسے بظاہر ملکی نظام کی درستی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔

ٹڈی دل کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ملکی نظام اس حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جب یہ دل افریقی ممالک میں تیار ہو کر برصغیر کی طرف کوچ کرنے والے تھے، اسی مرحلہ پر ضروری معلومات کے تبادلہ اور زمینی سطح پر اس ٹڈی دل کو تباہ کرنے کے عملی اقدامات کی طرف توجہ دینا ضروری تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے چونکہ ٹڈی دل کا حملہ نہیں ہؤا تھا اس لئے ملکی نظام میں یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اب اس قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا ۔ ایسی آفات کی پیش بندی کے لئے قائم انتظامی ڈھانچہ تتر بتر ہوگیا لیکن چند برس سے جب ٹڈی دل کے نئے حملے اور سفر کے روٹ کی اطلاعات سامنے آنے لگیں تو بھی پاکستان میں اس حوالے سے نہ تو رائے عامہ تیار ہوئی، نہ میڈیا میں اسے فوکس کیا جاسکا ۔اور نہ ہی سرکاری سطح پر ٹڈی دل سے ہونے والے ممکنہ نقصان کاکوئی تخمینہ کرنے اور اس کی روک تھام کا اہتمام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جب ٹڈی دل حملہ آور ہوئی اور یہ اطلاعات سامنے آنے لگیں کہ موسمی و زمینی حالات اس کی افزائش کے لئے نہایت سازگار ہیں تو اس کا ’مقابلہ‘ کرنے کی ڈھنڈیا پڑی۔ تب خبر ہوئی کہ زمانہ قدیم میں ٹڈی دل کی روک تھام کے لئے اسپرے  کرنے والے چھوٹے طیاروں میں سے بیشتر ناکارہ اور ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ یہ سوال نہ مباحث کا حصہ بنے گا اور نہ ہی کوئی آڈٹ اس کا حساب سامنے لاسکے گا کہ تین چار دہائیوں میں ان جہازوں کو مین ٹین رکھنے اور مرمت وغیر کے نام پر کس قدر وسائل استعمال کئے جاچکے ہیں۔ کتنے ٹھیکیداروں کے گھر اس مد میں پلتے رہے اور کتنے ملازمین ایک ایسے کام کی تنخواہیں وصول کرتے رہے جو کبھی سرانجام ہی نہیں دیا جاسکا۔

جس طرح کورونا وبا کے سوال پر وفاق اور سندھ کی لڑائی میں مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کے لئے فوجی قیادت نے خاموشی سے کورونا کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر بنا کر اہم معلومات کی مواصلت اور ضروری پیش بندی کا اہتمام کیا تھا ، اسی طرح اب فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فوج ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کے لئے سول حکام کی مدد کرے گی۔ اس دوران درجنوں اضلاع اس حملہ کی زد میں ہیں اور ٹڈی دل کے مزید حملوں کا شدید اندیشہ ہے۔ البتہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں کیا جاسکا کہ اس سے فصلوں کے نقصان کی نوعیت کیا ہوگی اور ملک میں آئیندہ برس کے دوران خوارک کی دستیابی کی کیا صورت حال ہوگی۔ حالانکہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران میں یہ حقیقت امید افزا تھی کہ پاکستان چونکہ زرعی ملک ہے، اس لئے شدید مالی مشکلات اور سیاسی بدانتظامی کے باوجود ملک کا زرعی شعبہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا۔ اس طرح نہ صرف اجناس کی فراہمی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی بلکہ یہ شعبہ کورونا وائرس پھیلنے کے سبب مواصلات اور آمد ورفت بند ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے اندیشوں میں معاشی احیا کی بنیاد بھی بن سکے گا۔ اگر اسی شعبہ کو بے آسرا چھوڑ دیا جائے اور ٹڈی دل جیسی آفت کھڑی فصلوں کو تباہ کرکے عوام کو فراہم کی جانے والی خوراک کو کھیتوں میں ہی برباد کردے گی تو ملک اپنے 22 کروڑ نفوس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی درآمدات کا محتاج ہوسکتا ہے۔ ملک کے موجودہ معاشی بحران میں یہ صورت حال ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گی۔

کورونا وائرس ہو یا ٹڈی دل، یہ پھر بھی عبوری نوعیت کے مسائل ہیں۔ وقت کے ساتھ وبا اور فصلوں کو لاحق خطرہ ٹل جائے گا لیکن ملکی نظام کے نقائص درحقیقت اصل مسئلہ اور قومی چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ملکی نظام ان مسائل کا مناسب اور بروقت مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکاہے۔ گزشتہ تین چار ماہ میں کورونا اور ٹڈی دل کے مقابلے میں ملک میں جوسیاسی تصادم کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں عوام کی منتخب اسمبلیاں جس طرح بے بس اور بے اثر ثابت ہوئی ہیں، ان سے یہ بنیادی نوعیت کا سوال سامنے آتا ہے کہ ملک میں حکمرانی کا نظام کیسے کام کررہاہے۔ اور کیا یہ طریقہ واقعی قابل عمل ہے اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز و خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب ہوگا۔

موجودہ نظام بظاہر 1973 کے آئین پر استوار ہے جو پارلیمانی جمہوریت کا داعی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو انتظامی اختیارات اور مالی وسائل میں بڑا حصہ دینے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ لیکن عملی طور سے آئینی تقاضوں کو ’زمینی ضرورتوں‘ کے مطابق مینیج کرنے کی روایت راسخ کی گئی ۔ اس انتظام میں سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کا کردار ثانوی ہوگیا ہے حالانکہ آئینی پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کو بہر صورت بالادست ہونا چاہئے۔ لیکن اب اس کی حیثیت ڈبیٹنگ کلب سے زیادہ نہیں ہے جہاں افراد اور گروہ اپنے فائدے اور اقتدار کی بند ربانٹ میں حصہ لینے کے لئے جوڑ توڑ کا حصہ بنتے ہیں۔ آئینی نظام کے بین السطور جو انتظام استوار کیا گیا ہے ، اس میں فوج اور عدلیہ کو اہم اسٹیک ہولڈرز کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔

اس وقت ملک میں فوج کو سب سے طاقت ور، فیصلہ کن، مؤثر اور فعال ادارے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ملکی دفاع کا ضامن ہونے کی وجہ سے اس کی عزت و توقیر کے لئے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ایسے میں البتہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ملک کے تسلیم شدہ آئینی انتظام میں فوج کو کسی ادارے کی نہیں بلکہ حکومتی انتظام میں ایک محکمہ جاتی شعبہ کی حیثیت حاصل ہے۔ یعنی فوج، فضائیہ اور بحریہ وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والے شعبے ہیں جو دفاع کے علاوہ دیگر سول ضرورتوں کے لئے حکومت کے حکم پر امداد فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ عملی طور سے ہی نہیں عام تفہیم میں بھی یہ تصویر دھندلا چکی ہے۔ اب فوج کو نہ صرف ادارہ مانا جاتا ہے بلکہ سب سے بالادست اور فیصلہ کن اختیار کا حامل ادارہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments