قائد اعظم اور اتا ترک میں ایک فرق


ارطغرل کی مقبولیت کے اس دور میں جب ڈراموں سمیت ترکی سے متعلق ہر چیز کے بھاؤ چڑھے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کے قائدین کا براہ راست موازنہ خطرے سے خالی نہیں۔

خاص طور پر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب ہمارے یہاں راجہ داہر اور محمد بن قاسم میں سے ہیرو اور ولن کا انتخاب مشکل ہو رہا ہو لیکن سلیمان شاہ اور عثمان اول کی عظمت کے گن گانے والوں میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ بطور قوم خود پر مسلط کردہ احساس کمتری کا علاج شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔ بیسویں صدی کے چند عظیم رہنماؤں کا ذکر کریں توایک طویل فہرست بنائی جا سکتی ہے جس میں چرچل، روزویلٹ، سٹالن، ماؤزے تنگ، گاندھی اور نیلسن منڈیلا سمیت بیسیوں نام شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ان تمام بڑے لوگوں میں قائد اعظم اور اتا ترک کئی حوالوں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کا تقابلی جائزہ ایک دقیق تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ دونوں میں جہاں کئی حوالوں سے مماثلت ہے وہاں فرق ڈھونڈنا بھی آسان نہیں۔

دونوں رہنما اپنی بود وباش اور رہن سہن میں مغرب سے متاثر تھے۔ دونوں کی خوش لباسی معروف تھی۔ ظاہری شکل کے معاملے میں جہاں جناح صاحب بمشکل پاس ہوں گے وہاں نیلی آنکھوں والے وجیہ اتا ترک کو پورے نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ ازدواجی زندگی دونوں کی مشکلات کا شکار رہی۔ گو کہ آغاز میں دونوں نے تعلیم مذہبی مدرسوں نما اسکولوں میں حاصل کی لیکن دونوں کا مذہب کی طرف رحجان زیادہ نہ تھا اوراتا ترک تو اس معاملے میں خاصے دور نکل گئے۔

دونوں میں ایک بنیادی فرق پیشے کا بھی تھا۔ مصطفی کمال میجر جنرل اور پھر مارشل کے عہدے تک پہنچنے والے ایک بہادر اور جنگجو فوجی۔ جناح صاحب ایک پڑھے لکھے سویلین اورنہایت قابل وکیل۔ معروف محقق اسٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے کہ ذاتی زندگی میں قائد اعظم، اتا ترک سے اس حد تک متاثر تھے کہ آپ کی بیٹی ڈینا واڈیا اتا ترک کی سوانح، دی گرے وولف کی مناسبت سے آپ کو کبھی کبھی گرے وولف کہ کر پکارتیں۔

استنبول کے معرف عثمانی دور کے دولمہ باچے شاہی محل کی بالائی منزل پر ایک کمرہ ہے جیسے جدید ترکی میں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ کمرے میں ضرورت کا عام سامان نہایت قرینے سے رکھا ہوا ہے۔ ایک جانب گھڑی نو بج کر پانچ منٹ کے وقت پر رکی ہوئی ہے۔ کمرے کے وسط میں لکڑی کا ایک ڈبل بیڈ موجود ہے۔ بیڈ کے اوپر ترکی کا سرخ پرچم بچھا ہوا ہے جسے گرد و غبار سے بچانے کے لئے پلاسٹک کی شیٹ بچھی ہوئی ہے۔ یہ وہ تاریخی کمرہ ہے جس میں موجودہ ترکی کے بانی اور بیسویں صدی کے عظیم رہنما کمال اتا ترک نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔

کمرے کی رکی ہوئی گھڑی وہ وقت بتا رہی ہے جب اتا ترک کی وفات ہوئی۔ (کمرے کے دورے کے دوران ہم سے چند قدم آگے ایک سیاح خاتون نے جن کا تعلق ہندوستان سے لگ رہا تھا، کمرے کی تاریخی اہمیت اور ماحول کی سنجیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے معنی خیز انداز میں اپنے خاوند سے سرگوشی کی کہ جانو اس بیڈ کا سائز تو چھوٹا لگ رہا ہے۔ خاوند بے چارہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور ہم نے بمشکل قہقہہ روکا۔)

اتا ترک کے سرہانے، بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر، ایک نہایت خوبصورت گلدان پڑا ہوا ہے جو ان کے اعلٰی ذوق، نفاست پسندی اور جمالیاتی حس کی غمازی کرتا ہے۔

استنبول سے چند ہزار میل کے ٖفاصلے پر پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ یہاں مرکزی شاہراہ فیصل پر قا ئد اعظم کا وہ شاندار محل نما گھر ہے جو دولمہ باچے محل کے برعکس اپنی محنت کی کمائی سے خریدا گیا۔ اس بنگلے کی پہلی منزل پر وہ کمرہ ہے جہان قا ئد اعظم کی زندگی کے اہم شب و روز و گزرے۔ کمرے میں ایک عدد پرانا ٹیلی فون، تھوڑا سا فرنیچر، ڈریسنگ ٹیبل، سائیڈ ٹیبل، قرآن کا ایک نسخہ اور ایک سنگل بیڈ ہے جس پر ایک پرانی سی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی ہے (ذاتی رائے میں اس پر بھی ہمارا قومی پرچم بچھا ہونا چاہیے)۔ یہ کمرہ بھی اتا ترک کے کمرے کی طرح بور اور بے رنگ سا ہے بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ سرسری سا جائزہ بھی لیں تو جلد ہی بندہ اکتا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کے دو عظیم رہنماؤں میں اور بہت سی مماثلتوں کی طرح، دونوں کے ہزاروں میل دور، اوپر کی منزل پر واقع کمرے یکساں طور پر اداس، بے رونق اور بھدے ہیں۔ قا ئد اعظم کے کمرے سے اکتاہت کے مارے نکلتے ہوئے یکلخت نظر ان کے سنگل بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر ٹھہر گئی۔ اتا ترک کے ڈبل بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر جہاں ایک بڑا سا خوبصورت نیلگوں گلدان پڑا ہوا تھا، وہاں قا ئد اعظم کے سائیڈ ٹیبل پر ایک چھوٹے سے خو بصورت فریم میں ان کی بیوی رتی جناح کی تصویر لگی ہوئی تھی۔

بیسویں صدی کے دو عظیم ترین رہنماوں میں ایک فرق تو مل گیا تھا۔

پس نوشت: اس فرق کا ذکر جب ایک ترک دوست سے کیا تو وہ خاصا برا مان گئے، لیکن پھر مان گئے۔ یہ ان کا بڑا پن ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments