کرونا وبا، ہرڈ امیونٹی کے بارے میں کچھ معلومات


آج مورخہ 6 جون پاکستان میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 91 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور 1905 افراد زندگی سی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ملک کے تمام حصے کم و بیش اس کی لپیٹ میں ہیں اور مرنے والوں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں لیکن شعبہ صحت میں کام کرنے والے بالخصوص اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ وجوہات پر نظر ذرا بعد میں۔ 18 مئی کو جب سپریم کورٹ نے اپنے حکم کے ذریعے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا حکم دیا تو پہلے سے ڈھلمل کیفیت والی حکومتی پالیسی بھی ڈھیر ہو گئی اس دن تک ملک میں مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 42 ہزار افراد اس سے بیمار ہوئے تھے اور 900 کے قریب اموات ہوئی تھیں۔

اگلے 19 دن میں یہ دونوں اشاریے دو گنے ہو چکے ہیں۔ بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں یہ لاک ڈاؤن اس وقت اٹھایا گیا جب اس وبا میں مبتلا افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ مارچ کے آخر میں مرکزی حکومت کے عملاً نا مکمل نافذ کردہ لاک ڈاؤن نے بھی اس وبا کو کافی حد تک کنٹرول کر رکھا تھا لیکن سیاسی حکومتی حلقوں میں غربت کے نام پر بے چینی بیٹھ رہی تھی۔ آج ہم ان سائنسی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جو بظاہر پاکستان اور چند دوسرے ممالک مثلاً برازیل اور سویڈن میں جاری پالیسیوں کی پیچھے ظاہر کی جا رہی ہیں یعنی گروہی مدافعت کا تصور۔

جب نومبر 2019 میں کرونا کی وبا شروع ہوئی تو اس وقت اس کے خلاف کوئی انسانی جسمانی مدافعت موجود نہیں تھی اور یہ وائرس بہت تیزی سے پھیل سکتا تھا اس کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ افراد میں اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جا سکے۔ اس کے دو ہی طریقے موجود ہیں ایک تو یہ کہ ویکسین تیار کی جائے اور اس کی فراہمی تک اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ دوسرے طریقے میں اس وائرس کو انسانی آبادی میں پھیلنے دیا جائے اور قدرتی انداز میں انسانوں میں مدافعت پیدا ہونے دی جائے۔

مدافعت کے دونوں طریقوں میں ضروری ہے کہ اگر انسانی آبادی کے بڑے حصے میں مدافعت موجود ہو تو یہ باقی لوگوں کو بالواسطہ تحفظ فراہم کرتی ہے اور اس کو گروہی مدافعت کہتے ہیں۔ مثلاً اگر آبادی میں 80 فیصد افراد میں ایک وائرس کے خلاف مدافعت موجود ہے یعنی پانچ میں سے ہر چار افراد اگر اس بیماری میں مبتلا کسی فرد سے مل بھی لیں تو بیمار نہیں ہوں گے اور اس بیماری کو آگے نہیں پھیلائیں گے۔ اسی اصول سے متعدی بیماریوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

بیماری کی پھیلاؤ کی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے گروہی مدافعت کے لیے عموماً 70 سے 80 فیصد افراد میں مدافعت کا پیدا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ خسرہ، ممپس، لاکڑا کاکڑا، چکن پاکس، پولیو ان چند بیماریوں میں سے ہیں جو ایک زمانے میں قسمت کا حصہ سمجھی جاتی تھیں لیکن اب ان پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اگر ان میں سے کوئی بیماری اگر کسی کو ہو جائے تو قومی سطح کی خبر بن جاتی ہے۔ ان بیماریوں کے کنٹرول میں بنیادی کردار ویکسین کا ہے اور گاہے بگاہے ویکسین کے کم استعمال کی بدولت ان کے پھیلاؤ کا خطرہ رکھتا ہے جیسا کے وطن عزیز میں پولیو کو کنٹرول کی جدوجہد سے ظاہر ہے۔

وہ متعدی بیماریاں جن کے خلاف ویکسین موجود نہیں ہے، چاہے بہت سے بالغ افراد میں، بیماری میں مبتلا ہونے کی بنا پر، مدافعت اگر پیدا ہو بھی جائے، پھر بھی بچوں میں بیماری برداری کی وجہ سے کمزور مدافعت والے بالغ افراد میں پھیل سکتی ہیں۔ اس امر کا مشاہدہ مندرجہ بالا بیماریوں کا ویکسین کے تعارف سے پہلے کے دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے وائرس مثلاً فلو میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے اس لیے ویکسین یا بیماری کے بعد انسانی جسم میں پیدا کردہ اینٹی باڈیز صرف کچھ عرصے کے لیے ہی اس کے خلاف تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ فلو میں اس کی میعاد ایک سال سے کم عرصہ ہے۔ اگر کووڈ 19 کا جرثومہ، فلو کی قسم کے دوسرے کرونا وائرس ہی کی طرح ہے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ موجودہ وبا میں مبتلا افراد ٹھیک ہونے پر کچھ عرصے (چند ماہ سے سال) تک تو اس کے مزید حملوں سے بچ سکتے ہیں لیکن طویل مدت مدافعت نظر نہیں آتی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، متعدی بیماری کے خلاف گروہی مدافعت صرف دو طریقوں سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ اس میں مبتلا ہو یا حفاظتی ویکسین کا استعمال۔ موجودہ وبا کے پھیلاؤ کے ابتدائی اندازوں کے مطابق، گروہی مدافعت کے لیے کم از کم 70 فیصد آبادی میں مدافعت کا پیدا ہونا ضروری ہے۔

پہلے منظر نامے کے مطابق اگر وائرس کی پھیلاؤ میں کمی کے لئے کوئی حفاظتی تدابیر یعنی سماجی فاصلہ، یا لاک ڈاؤن اختیار نہ کی جائیں تو چند ماہ میں ہی بہت بڑی تعداد میں لوگ بیمار پڑ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہسپتال وغیرہ کا نظام بیٹھ سکتا ہے اور بڑی تعداد میں اموات کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ وطن عزیز اور چند دوسرے ممالک میں اس کے اشارے نظر آ رہے ہیں

دوسرا منظر نامہ، جس میں تمام حفاظتی تدابیر، مثلاً سماجی فاصلوں کا سختی سے نفاذ، تمام افراد کا ان پر عمل، کے ذریعے انفیکشن کے پھیلاؤ کو ایک لمبے عرصے (ممکنہ طور پر ایک سال) روکنا تاکہ ویکسین تیار کرنے، ٹیسٹ کرنے اور پھر بھاری پیداوار اور سپلائی کے لیے موقع مل جائے۔

میرے خیال میں ایک درمیانی راہ اختیار کرنا زیادہ ممکن ہو سکے گا جس میں آنے والے ماہ و سال میں اس وبا کے پھیلاؤ میں اتار چڑھاؤ آئے گا اور حکومتوں کو اسی حساب سے اقدامات اٹھانے ہوں گے یعنی وبا میں کمی کی صورت میں سماجی فاصلوں /لاک ڈاؤن میں نرمی اور بوقت ضرورت ان اقدامات کا نفاذ، یہ حکمت عملی ہمیں ویکسین کی تیاری اور اس کی بڑے پیمانے پر فراہمی تک جاری رکھنا ہو گی، کیونکہ یہ بچوں کو متاثر کر سکتی ہے اور ان بڑوں کو بھی جو ایک بار اس کا شکار ہو چکے ہیں۔

تمام احتیاطی تدابیر سے گلو خلاصی اور لوگوں کو ان کے حالات پر چھوڑنے کی کی ہماری موجودہ حکمت عملی اچھا قدم نہیں ہے اگرچہ دنیا کی مختلف ممالک میں اس کو اپنایا جا رہا ہے مثلاً برازیل اور امریکہ جہاں کی قیادت کے اس وبا بارے خیالات ہماری سیاسی قیادت سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اسی طرح یہاں برطانیہ میں اس وبا کے شروع میں یہی ذہنیت کار فرما تھی اور لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلوں پر عملدرآمد میں سستی کی قیمت ایک بڑی تعداد میں اموات کی شکل میں ادا کی گئی۔

ہم امریکہ میں یہی صورت حال دیکھتے ہیں اس طرح برازیل میں اس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح میں انتہائی تیزی دیکھی جاری ہے۔ ایک اور مثال سویڈن کی ہے جہاں شرح خواندگی انتہائی زیادہ اور شہریوں میں احساس ذمہ داری بھی زیادہ ہے وہاں حکومت نے صرف شہریوں پر اعتماد کرنے کی بات کی اور دوسرے نارڈک ممالک کے مقابلے میں لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں کیا، نتیجتاً وہاں آبادی کے لحاظ سے شرح اموات برطانیہ سے بھی بڑھ گئی۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد صرف تین ہفتوں میں اموات دگنی سے زائد ہو چکی ہیں۔

ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کے لواحقین کی طرف سے احتجاجی مظاہرے جن میں قیمتی طبعی ساز و سامان کی توڑ پھوڑ، عملہ پر تشدد کے واقعات میں اضافہ اور بالخصوص طبی عملہ میں بیماری کا پھیلاؤ اور ڈاکٹروں میں تیزی سی بڑھتی شرح اموات ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ مہیا کر تی ہے۔ 1918 کی انفلوئنزا کی وبا کو مت بھولیں جب اس وقت کے ہندوستان میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آج ہمارے گنجان آباد شہر اور قصبے، جن میں صفائی اور صحت کا بنیادی نظام پہلے ہی بہت کمزور ہے، ہماری موجودہ بے رحم پالیسی کے نتیجے میں اس وبا کے لئے ایک زرخیز ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ ہمیں سائنسی حقائق پر مبنی پالیسیوں کو اپنانا ہو گا جن کی قیمت شاید ابھی زیادہ ہو لیکن مستقبل میں صرف فائدہ ہی فائدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments