جانور راج! مت کیجیو اعتبار ہستی، ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ آخری قسط


گرمیوں کے اوائل میں ایک روز، چیخم چاخ نے بھیڑوں کو اپنے پیچھے آنے کا کہا اور انہیں، فارم کے آخری حصے میں ایک اجاڑ قطعۂ زمین کی طرف لے گیا، جہاں سفیدے کے خود رو پودے تھے۔ بھیڑوں نے پورا دن چیخم چاخ کی نگرانی میں ان کے پتوں کو چرتے گزارا۔ شام کو وہ خود تو فارم ہاؤس لوٹ آیا مگر چونکہ موسم گرم تھا، اس لئے بھیڑوں کو وہیں رکنے کو کہا۔ یہ قیام کہیں ایک ہفتے میں جا کے تمام ہوا، جس کے دوران کسی جانور نے ان کو نہ دیکھا۔ چیخم چاخ ہی دن کا بڑا حصہ ان کے ساتھ گزارتا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ان کو ایک نیا ترانہ سکھا رہا تھا، جس کے لئے رازداری ضروری تھی۔

یہ، بھیڑوں کے واپس آنے کے فوراً بعد کی ایک خوشگوار شام تھی جب، جانور کام سے فارغ ہو کے باڑے کو لوٹ رہے تھے کہ احاطے کی طرف سے ایک گھوڑے کی خوفزدہ ہنہناہٹ سنائی دی۔ چوکنے جانور اپنے قدموں پہ ساکت ہو گئے۔ یہ کلوور کی آواز تھی۔ وہ دوبارہ ہنہنائی اور تمام جانور، دڑکی لگا کر احاطے میں گھسے۔ تب انہوں نے وہ دیکھا جو کلوور دیکھ چکی تھی۔

یہ ایک سؤر تھا جو اپنی پچھلی دو ٹانگوں پہ چل رہا تھا۔

جی ہاں، یہ چیخم چاخ تھا۔ گو تھوڑے عجیب سے انداز میں جیسے کہ اسے اپنے اتنے بھاری ڈیل کو اس آسن میں سنبھالنا نہ آتا ہو، مگر بے حد متوازن چال چلتے ہوئے، وہ احاطے میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اور ایک ہی لمحے کے بعد، فارم ہاؤس کے دروازے سے سؤروں کی ایک لمبی قطار باہر نکلی، سب ہی اپنی پچھلی ٹانگوں پہ چل رہے تھے۔ کچھ دوسروں سے زیادہ بہتر چل رہے تھے، اکے دکے ذرا ڈگمگا رہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ انہیں ایک چھڑی کے سہارے کی ضرورت ہوگی، مگر ان میں سے ہر ایک نے کامیابی سے احاطے کا اپنا پھیرا پورا کیا۔ اور آخر میں کتوں کی بلند عف عف اور کالے مرغے کی چنچناتی ہوئی بانگ تھی، اور نپولین بنفس نفیس پروقار طریقے سے سر اٹھائے، ادھر سے ادھر نخوت کی نظر ڈالتا اپنے ارد گرد کودتے کتوں کے جلو میں باہر نکلا۔

اس نے اپنے کھر میں ایک چابک تھام رکھا تھا۔

موت کا سا سکوت طاری تھا۔ متحیر، دہشت زدہ، آپس میں گچھا ہوئے، جانوروں نے سؤروں کی لمبی قطار کو آہستہ روی سے، اکٹھے قدم اٹھاتے احاطے میں، مارچ کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ ایسا تھا کہ جیسے دنیا تہہ و بالا ہو گئی ہو۔ پھر وہ لمحہ آیا کہ حیرت کا پہلا جھٹکا گزر گیا اور جب، ہر شے کے باوجود، کتوں سے ان کے خوف کے باوجود، اور طویل برسوں کی پختہ ہوئی، چاہے کچھ بھی پیش آئے پر کبھی شکایت نہ کرنے، احتجاج نہ کرنے کی عادت کے باوجود، وہ ممکن ہے کہ احتجاج کے کچھ لفظ تو بولتے ہی۔ مگر عین اسی ساعت، ایسے جیسے کسی اشارے پہ، ساری بھیڑیں، بہت ہی اونچی آواز میں ممیانے لگیں۔

”چار لاتیں اچھی، دو لاتیں زیادہ اچھی! چار لاتیں اچھی، دو لاتیں زیادہ اچھی! چار لاتیں اچھی، دو لاتیں زیادہ اچھی!“
یہ پانچ منٹ تک بنا رکے چلتا رہا۔ اور جب تک بھیڑیں خاموش ہوئیں، کسی بھی طرح کے احتجاج کا موقع جا چکا تھا، کیونکہ سؤر واپس فارم ہاؤس میں جا چکے تھے۔

بنجامن کو اپنے کندھے پہ کسی کی ناک رگڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ کلوور تھی۔ اس کی بوڑھی آنکھیں ہمیشہ سے زیادہ بجھی ہوئی لگ رہی تھیں۔ کچھ بھی کہے بنا اس نے نرمی سے اس کی ایال سے پکڑی اور اسے بڑے گودام کے آخری گوشے تک لے گئی، جہاں سات نکات لکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک یا دو منٹ کے لئے، آراستہ دیوار کے سفید حروف کو دیکھتے رہے۔

” میری بینائی جا رہی ہے۔“ آخر کار اس نے کہا۔ ”جب میں جوان بھی تھی تب بھی میرے لئے جو بھی یہاں لکھا ہے، پڑھنا، ممکن نہ تھا۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے دیوار مختلف لگتی ہے۔ کیا ساتوں نکات وہی ہیں جو کبھی ہوا کرتے تھے بنجامن؟“

پہلی بار بنجامن نے اپنا اصول توڑنے کا فیصلہ کیا، اور اس نے جو دیوار پہ لکھا تھا اسے پڑھ سنایا۔ اب وہاں سوائے ایک نکتے کے کچھ بھی نہ تھا۔ جو کہتا تھا:

سب جانور برابر ہیں مگر کچھ جانور، باقیوں سے زیادہ برابر ہیں

اس کے بعد اگلے روز یہ عجیب نہ لگا کہ وہ سؤر جو فارم کے کام کی نگرانی کر رہے تھے، سب کے سب اپنے کھروں میں چابک پکڑے ہوئے تھے۔ یہ عجیب نہ لگا کہ سؤروں نے اپنے لئے ایک وائرلیس سیٹ خریدا، ایک ٹیلی فون لگوانے جا رہے تھے، اور ”اخبار جہاں“ ، ”چترالی“ ، اور ”روزنامہ حقیقت“ کے خریدار بنے۔ عجیب نہ لگا جب، نپولین، منہ میں تمباکو پینے کا پائپ دبائے چہل قدمی کرتا نظر آیا۔ نہیں، تب بھی نہیں جب سؤروں نے جانی صاحب کے کپڑے الماریوں سے باہر نکال کر ڈاٹے، نپولین بنفس نفیس سیاہ کوٹ، برجیس، چمڑے کے موزے پہنے نمودار ہوا، جبکہ اس کی محبوب سؤرنی آبی حریری لباس میں برآمد ہوئی جو کہ بیگم جانی اتواروں کو پہنا کرتی تھیں۔

ایک ہفتے بعد، سہ پہر کو، باڑے میں گھوڑا گاڑیاں پہنچیں۔ پڑوسی کاشتکاروں کا ایک وفد، مزرعے کے معائنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ انہیں تمام مزرعہ دکھایا گیا، انہوں نے جو دیکھا، سب ہی کی خوب توصیف کی، خاص کر پون چکی کی۔ جانور شلجم کے کھیتوں کی نلائی کر رہے تھے۔ وہ انہماک سے بمشکل زمین سے سر اٹھائے کام کرتے رہے، اور یہ نہ سمجھ پا رہے تھے کہ سؤروں سے زیادہ ڈریں یا مہمان انسانوں سے۔

اس شام، فارم ہاؤس سے بلند قہقہے اور گیتوں کے غلغلے، آتے رہے۔ اور اچانک، ملی جلی آوازوں کے شور پہ جانوروں میں تجسس جاگا۔ اب جبکہ پہلی بار جانور اور انسان برابری کی سطح پہ مل رہے ہیں تو اندر کیا ہو رہا ہو گا؟ وہ ایک ساتھ جس قدر ممکن تھا اتنی خاموشی سے رہائشی عمارت کے باغ میں رینگ گئے۔

اندر جانے سے کچھ خائف وہ دروازے پہ ٹھٹھکے مگر کلوور آگے بڑھی۔ وہ دبے قدموں، مکان تک پہنچے، وہ جانور جو ذرا لمبے تھے، طعام گاہ کی کھڑکی سے جھانکا کیے۔ وہاں، طویل میز کے گرد، نصف درجن کسان اور نصف درجن، اہم ترین سؤر بیٹھے تھے، نپولین خود میز کے سرے پہ کرسیٔ صدارت پہ بیٹھا تھا۔ سؤر اپنی نشستوں میں بہت آرام سے بیٹھے محسوس ہو رہے تھے۔ محفل میں تاش چل رہی تھی مگر اس وقت لگتا تھا شراب کا پیالہ پینے کو پتے چھوڑے گئے تھے۔ ایک بڑا سا جگ گردش میں تھا اور مگ، بئیر سے دوبارہ بھرے جا رہے تھے۔ کسی نے بھی کھڑکی سے جھانکتے، جانوروں کے متحیر چہروں کو نہ دیکھا۔

بوڑھ والا کے جناب اللہ دتہ، اپنا مگ ہاتھ میں لئے کھڑے ہوئے۔ اس نے کہا کہ وہ ذرا دیر میں احباب سے جام صحت نوش کرنے کو کہے گا۔ مگر اس سے پہلے وہ کچھ باتیں تھیں، جنہیں کہنا ضروری سمجھتا تھا۔

یہ اس کے لیے گہری طمانیت کا باعث تھا، اس نے کہا۔ اور ان سبھوں کے لیے بھی یہ محسوس کرنا جو وہاں موجود تھے کہ بداعتمادی اور بد گمانیوں کا ایک طویل دور اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ ایک وہ زمانہ تھا۔ وہ تو نہیں اور نہ ہی موجودہ احباب میں سے ہی کوئی ایسے جذبات رکھتا تھا۔ ۔ ۔ مگر ایک زمانہ تھا جب، جانوروں کے باڑے کے عزت مآب مالکان کو، ان کے انسان پڑوسیوں کی جانب سے وہ یہ تو نہیں کہتا کہ دشمن، مگر شاید کسی حد تک مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ برے واقعات پیش آئے، غلط خیالات پھیلے۔ یہ محسوس کیا گیا کہ ایک ایسے فارم کی موجودگی جسے چلاتے بھی سؤر تھے اور وہ ان کی ملکیت بھی تھا کچھ، عجیب تھی اور اسے علاقے میں بد امنی پھیلانے کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے کسان، بغیر تحقیق کے ہی یہ سمجھتے تھے کہ ایک ایسے فارم پہ خودسری اور ابتری پھیلے گی۔ وہ اپنے ذاتی جانوروں پہ اس کے اثر کے بارے میں پریشان تھے، اور اپنے انسان ملازموں پہ بھی۔ مگر اب ایسے تمام شکوک فرو ہو گئے ہیں۔ آج اس نے اور اس کے ساتھیوں نے جانوروں کے باڑے کے کونے کونے کا اپنی آنکھوں سے جائزہ لیا تھا اور انہوں نے کیا دیکھا؟ نہ صرف بے حد جدید طریقۂ کاشت، بلکہ ایک نظم و ضبط اور تنظیم جو کہ ہر جگہ کے کسانوں کے لئے مثال ہونا چاہیے۔ اسے یقین تھا کہ وہ یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہے کہ جانوروں کے باڑے کے نچلے جانور ملک میں کسی بھی دوسرے باڑے کی نسبت، زیادہ کام کرتے ہیں اور کم خوراک پاتے ہیں۔ درحقیقت، اس نے اور اس کے ساتھ آنے والوں نے، کئی ایسی باتیں دیکھیں جو کہ وہ فوری طور پہ اپنے مزرعوں پہ بھی نافذ کرنے کے خواہش مند تھے۔

وہ اپنی بات سمیٹے گا، اس نے کہا، ایک بار پھر خیر سگالی کے اس جذبے پہ زور دیتے ہوئے جو جانوروں کے باڑے اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان اس وقت ہے، اور آگے بھی رہے گا۔ انسانوں اور سؤروں کے درمیان، مفادات کے ٹکراؤ کی کوئی صورت نہ ہے اور نہ ہونی چاہیے۔ ان کی جدوجہد اور ان کی مشکلات ایک جیسی ہیں۔ کیا مزدوروں کے کھڑے کیے مسائل سب جگہ ایک سے نہیں تھے؟ یہاں صاف لگ رہا تھا کہ جناب اللہ دتہ کوئی بہت ہی چست ہوا فقرہ کسنے والے تھے۔ مگر ایک لمحے کو وہ اس کو ادا کرنے کی سرخوشی میں ایسے کھوئے کہ ادا کرنا مشکل ہو گیا۔ بہت اٹکنے کے بعد جس کے دوران ان کی لٹکتی ہوئی ٹھوڑی جامنی پڑ گئی، وہ اسے کہنے کے قابل ہوئے، ”اگر تمہیں نچلے جانوروں سے جھوجھنا پڑتا ہے“ اس نے کہا ”تو ہمارے ہاں نچلا طبقہ ہے!“ اس لطیفے پہ میز پہ فلک شگاف قہقہہ پڑا۔ اور جناب اللہ دتہ نے ایک بار پھر سؤروں کو کم خوراک اور زیادہ سے زیادہ اوقات کار رکھنے اور عمومی شفقت کی کمی جو اس نے جانوروں کے باڑے پہ دیکھی، پر مبارک باد دی۔

اور اب، اس نے آخر کہہ ہی دیا، وہ حاضرین سے کہے گا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کی تسلی کر لیں کہ ان کے جام لبریز ہیں، ”حضرات“ ، جناب اللہ دتہ نے بات سمیٹی، ”حضرات، میں جام صحت تجویز کرتا ہوں : جانوروں کے باڑے کی ترقی کے نام!“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
========================

پرجوش نعرے لگائے گئے اور پیر فرش پہ مار کے داد دی گئی۔ نپولین اس قدر شکر گزار ہوا کہ اس نے اپنی جگہ چھوڑی، میز کے گرد گھوم کے، اپنا مگ خالی کرنے سے پہلے جناب اللہ دتہ کے جام سے ٹکرایا۔ جب، غوغا تھما تو نپولین نے جو کہ کھڑا ہی تھا آگاہ کیا کہ اس کے پاس بھی کہنے کو کچھ الفاظ ہیں۔

نپولین کی تمام تقاریر کی طرح یہ بھی مختصر اور موثر تھی۔ وہ بھی، اس نے کہا، خوش ہے کہ بدگمانیوں کا دور ایک اختتام کو پہنچا۔ مدت تک یقیناً کسی خطرناک دشمن نے ایسی افواہیں پھیلائیں جن پہ اسے بجا طور پہ تشویش ہوئی کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے، نظریات، شر پسندانہ بلکہ انقلابی ہیں۔ انہیں پڑوس کے باڑوں میں انقلاب لانے کی کوششوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس قدر بڑا بہتان! ان کی ماضی میں بھی اور اب بھی فقط ایک ہی خواہش تھی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور معمول کے کاروباری تعلقات رکھتے ہوئے رہنا چاہتے تھے۔ یہ فارم جسے چلانے کی سعادت اسے حاصل تھی اصل میں ایک مشترکہ جاگیر تھی۔ ملکیت کی کاغذات جو اس کے پاس تھے، سؤروں کی مشترکہ ملکیت تھے۔

وہ یقین نہیں کرتا تھا، اس نے کہا کہ کوئی بھی پرانا شبہ اب بھی باقی ہو گا، مگر پھر بھی فارم کے معمولات میں کچھ خاص تبدیلیاں لائی گئی تھیں جو اعتماد کو مزید بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گی۔ تادم تقریر، فارم پہ جانور ایک دوسرے کو کامریڈ پکارنے کی احمق روایت لئے چل رہے تھے۔ یہ ختم کیا جائے گا۔ ایک اور بہت ہی عجیب روایت، جس کی ابتدا کے بارے میں نہیں معلوم، ہر اتوار کو ایک سؤر کے کاسۂ سر کو، جو کہ باغ میں ایک ستون پہ ایک میخ سے گڑا ہوا ہے، سلامی دینا ہے۔ یہ بھی ختم کر دی جائے گی۔ سر تو پہلے ہی دفن کیا جا چکا ہے۔ اس کے مہمانوں نے ڈنڈے پہ لہراتے سبز جھنڈے کا بھی ضرور ہی مشاہدہ کیا ہو گا۔ اگر کیا تھا تو انہوں نے شاید یہ بھی دیکھا ہو گا کہ اس پہ پہلے جو سفید کھر اور سینگ بنا ہوتا تھا، ہٹا دیا گیا ہے۔ اب سے یہ فقط ایک سبز جھنڈا ہوا کرے گا۔

اسے صرف ایک اعتراض تھا، اس نے کہا، جو اسے جناب اللہ دتہ کی بہترین اور حق ہمسائیگی والی تقریر پہ تھا۔ جناب اللہ دتہ نے تمام وقت، ”جانوروں کے باڑے“ کا نام لیا۔ ظاہر ہے انہیں معلوم بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ نپولین، ابھی ابھی پہلی بار یہ اعلان کر رہا تھا کہ یہ نام ”جانوروں کا باڑہ“ اب منسوخ ہوچکا ہے۔ آج کے بعد فارم، ”جانی صاحب کا فارم“ کے نام سے جانا جائے گا۔ جو کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا درست اور اصل نام تھا۔

” معزز حضرات“ ، نپولین نے بات سمیٹی، ”میں وہی جام صحت تجویز کرتا ہوں جو پہلے کیا گیا مگر ایک مختلف شکل میں۔ اپنے جام، کناروں تک بھر لیجیے۔ معزز حاضرین! یہ میں جام صحت تجویز کرتا ہوں : جانی صاحب کے فارم کی ترقی کے نام!“

اب بھی پہلے ہی کی طرح دل سے نعرے لگائے گئے، اور پیالوں کی تلچھٹ تک پی لی گئی۔ مگر جیسا کہ باہر کھڑے جانور یہ منظر دیکھ رہے تھے انہیں یوں لگا کہ کوئی عجیب سی بات ہو رہی ہے۔ وہ کیا تھا جو سؤروں کے خد و خال میں بدل گیا تھا؟ کلوور کی بوڑھی آنکھیں ایک چہرے سے دوسرے چہرے پہ گئیں۔ ان میں سے کسی کی پانچ ٹھوڑیاں تھیں، کسی کی چار، کسی کی تین، مگر وہ کیا تھا جو پگھل رہا تھا اور بدل رہا تھا؟ پھر تالیاں والیاں تھمیں، سب نے اپنے پتے اٹھائے اور جہاں سے کھیل کا سلسلہ ٹوٹا تھا وہیں سے جڑ گیا اور جانور خاموشی سے وہاں سے ٹل گئے۔ مگر وہ بیس گز بھی نہ گئے ہوں گے کہ وہ ٹھٹھکے۔ عمارت سے بلا کا غل سنائی دے رہا تھا۔ وہ واپس دوڑے اور پھر سے کھڑکی سے جھانکا۔ ہاں، ایک زور دار لڑائی جاری تھی۔ چلایا جا رہا تھا، میز پہ مکے برسائے جا رہے تھے، غصیلی مشکوک نظروں سے گھورا جا رہا تھا، زور دار تردیدیں تھیں۔ جھگڑے کی جڑ یہ تھی کہ جناب اللہ دتہ اور نپولین نے ایک ساتھ ہی حکم کا اکا پھینک دیا تھا۔

بارہ غصیلی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور وہ سب ایک سی تھیں۔ باہر کھڑی مخلوق نے سؤر سے انسان پہ نظر ڈالی، انسان سے سؤر پہ اور پھر دوبارہ سؤر سے انسان پہ؛ مگر یہ کہنا اب ناممکن ہی تھا کہ کون کون ہے؟

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج! – فارم کیسا بن گیا؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments