عمران خان کا اعتراف


وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ میں تصحیح کرتا ہوں جو نظم گزشتہ دنوں ٹویٹ کی تھی وہ نظم اقبال کی نہیں ہے تاہم اس میں اس نظم کے پیغام پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر ہمارے نوجوان اس پیغام پر عمل کریں گے تو ان کی خداداد صلاحیتیں سامنے آئیں گی۔ یاد رہے کہ عمران خان نے دو روز قبل علامہ اقبال سے غلط طور پر منسوب ایک نظم ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اقبال کی یہ نظم میری زندگی کی جدوجہد کی عکاس ہے۔

نوجوانوں کو میری تلقین ہے کہ وہ اس نظم کو سمجھیں، اپنائیں اور یقین کر لیں کہ اس سے ان خدا داد صلاحیتوں میں خوب نکھار آئے گا جو بطور اشرف المخلوقات رب کریم نے ہم سب کو ودیعت کر رکھی ہیں عمران خان نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اعلیٰ ظرفی کی علامت ہوتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ اشعار انھوں نے اقبال سے کیسے منسوب کیے کیونکہ اقبالیات میں عمران خان کا مطالعہ وسیع ہے بلکہ اگر اقبالؒ کو سمجھنا ہے تو عمران خان کی کتاب

Pakistan:A personal history
chapter #10
Rediscovering Iqbal Pakistan symbol and a template for our future ”

کا مطالعہ ضرور کریں یہ کتاب میرے مطالعہ میں رہی ہے اور میں نے اپنے بچوں کو بھی اس کا مطالعہ کروایا ہے، اس کا دسواں باب بہت زیادہ اہم ہے یہ کتاب ہر اقبالیات کے قاری اور عام مسلمان کو ضرور پڑھنا چاہیے اس کے یہ 21 صفحات نہایت اہم ہیں۔

عمران خان لکھتے ہیں میں اردو ترجمہ کر دیتا ہوں :

اقبالؒ کے نزدیک اسلامی فکر میں زوال کا عمل پانچ سو سال پہلے اس وقت شروع ہوا، جب اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گئے قرآنی اصول مسلمانوں کے لیے دائمی حیثیت رکھتے ہیں بدلتے وقت میں نئے علوم اور معلومات کی روشنی میں ان کی از سر نو تفہیم درکار ہوتی ہے۔ ص 154 ”

مصنف نے اس باب میں یہ واضح کیا ہے کہ ماضی میں پاکستان میں مطالعہ اقبال کو ختم کرنے کی کیا کیا سازشیں کی گئیں ہیں اقبالؒ کی فکر سے کس طرح لوگوں کو دور رکھا گیا۔

بطور اقبالیات کا طالب علم اقبال سے منسوب کیے گے اشعار کے ایسے واقعات روزانہ سوشل میڈیا پر رونما ہوتے ہیں اس سلسلے میں بے شمار اقبالیات سے وابستہ لوگ نشاندہی بھی کر رہے ہیں، مجھے اکثر پڑھے لکھے افراد جو ذرا بھی زحمت کیے بغیر یا کلیات اقبالؒ کو دیکھے بغیر اقبالؒ کے اشعار کو اپلوڈ کر دیتے ہیں بہت غصہ آتا ہے اس سلسلے میں اساتذہ تو بالکل معافی کے حقدار نہیں ہیں۔

مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے ایک تعلیمی ادارے کے اہم انتظامی عہدے دار نے جو ضیاءالحق کی طرح اپنے آپ کو امیرالمؤمنین ظاہر کرتے رہتے ہیں اور صرف گفتگو میں تلقین شاہ کے ہم پلہ ہیں مجھے بلایا اور کہا ڈاکٹر صاحب ہم اپنے طلبہ کو اقبالؒ کا شاہین بنانا چاہتے ہیں آپ ہمیں اقبال کے چند مشہور اشعار کا مفہوم لکھ دیں جیسے ان کا مشہور شعر ہے ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد“۔

خیر میں ادارے کا معیار سمجھ گیا مفہوم کیا سمجھاتا، چند دنوں بعد دیکھا تو موصوف نے اپنی فیس بک وال پر اقبال کے نام سے ایک شعر درج کیا ہوا ہے جو پہلے تو شعر کے زمرے میں ہی نہیں آتا اور بغیر کلیات کو دیکھے اقبالؒ سے منسوب کر دیا، وہ خود بھی سوشل سائنسز سے وابستہ ہیں اور ان کے ادارے میں سے کسی اردو ٹیچر نے بھی ان کی غلطی کی نشاندہی کرنے کی بجائے جوش خوشامد میں لائک کرنے میں دیر نہیں کی اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پتہ چلتا ہے کہ ادارے میں پڑھانے والے کچھ تیاری کرنے کی زحمت بھی کرتے ہیں یا صرف سنی سنائی باتیں طلبہ کو سنا کر وقت پورا کر لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ اساتذہ سے بے شمار طلبہ منسلک ہوتے ہیں جس وجہ سے یہی اغلاط طلبہ میں منتقل ہو رہی ہیں کلام اقبال ہمارے لیے قیمتی اثاثہ ہے اس کو ضرور شیئر کریں لیکن کوشش کریں کہ مستند کلیات سے مدد لے کر اقبالؒ کے بے مثل کلام کو دوسروں تک پہنچائیں۔

ہمارے بعض دانشور قاری کو اقبالؒ کے نزدیک لانے کی بجائے دور کرنے میں پیش پیش ہیں وہ اپنی گفتگو میں لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اقبال کا اصل کلام تو سارا فارسی میں ہے لہذا جب تک فارسی کلام نہ سمجھا جائے اردو کلام پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ بات بالکل غلط ہے اقبال کا ہر شعر خواہ وہ اردو میں ہو یا فارسی میں اپنے اندر ہمارا مقدر بدلنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اقبال خود کہتے ہیں۔

بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان!

علامہ اقبال نے شاعری کو محض وسیلہ اظہار کے طور پر برتا ہے پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا علامہ اقبال سے متواتر ملاقاتوں کا سلسلہ 1925 ء سے 1938 ء تک رہا۔ ان ذاتی ملاقاتوں میں انھوں نے علامہ سے گفتگو کے دوران پیش آنے والے بے شمار واقعات بیان کیے ہیں ان واقعات اور ملفوظات کو اقبالیاتی ادب کا ایک معتبر سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ یوسف سلیم چشتی ”ملفوظات اقبالؒ“ میں لکھتے ہیں

15۔ اکتوبر 1936 ء جاوید منزل میو روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ادبی تنقید کا ذکر نکلا تو فرمایا ”جہاں تک صحیح تنقید کا سوال ہے، ہندوستان ابھی مغرب سے سو سال پیچھے ہے۔ ہندوؤں میں تو کچھ حقیقت پسندی پیدا ہو چلی ہے لیکن مسلمانوں میں ابھی تک رومانیت کا اثر باقی ہے۔ گزشتہ پانچ سو سال میں مسلمانوں کے آرٹ، لٹریچر اور شاعری کا رجحان یہ رہا ہے کہ حقائق سے گریز کیا جائے اور خیالی دنیا میں زندگی بسر کی جائے۔

ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ مسجد قرطبہ کو دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا؟ میں نے کہا
It is a commentary on the Quran written in stones
یہ قرآن کی تفسیر ہے جو پتھروں کے ذریعے سے لکھی گئی ہے۔ ”

پھر فرمایا ”میری شاعری کو شعر کے معیار پر جانچنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اسرار خودی سے لے کر بال جبریل تک ہر کتاب میں میں نے یہی لکھا ہے کہ شاعری میرے لیے مقصود بالذات نہیں ہے۔ میں تو مسلمانوں کے سامنے حقائق حیات بیان کرتا ہوں اور انہیں مشکلات زندگی کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لیکن مسلمانوں پر گزشتہ تین سو سال سے رومانیت کی وجہ سے ایسا رنگ چڑھ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص انہیں بذریعہ شعر ’حقائق حیات کی طرف دعوت دے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ان کی نظر میں شاعری وہ ہے جس میں خلاف عقل اور تخیلی باتیں ہوں جن کو حقیقت سے کوئی سروکار نہ ہو۔“ خدا مست ”کی ترکیب پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ترکیب اساتذہ کے یہاں نہیں ملتی۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ اقبال کا پیغام کیا ہے؟

اقوام کے عروج و زوال کے اسباب بہت مخفی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے ہم کو جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ علامات ہیں نہ کہ اسباب۔ قومی عروج انتہائی نظم و ضبط کی صفت پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کی اطاعت بہت مشکل چیز ہے اور اس کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔ جو قومیں رو بہ زوال ہیں وہ محنت اور پابندیوں سے گھبراتی ہیں جس طرح مریض طبیب کے احکام کی تعمیل سے گریزاں ہوتا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ مرض بڑھتا جاتا ہے۔ ”
کلام اقبالؒ ضرور پڑھیں لیکن مسند کلیات سے پڑھیں اور شیئر بھی مستند کلیات سے کریں تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments