اگر اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں


کورونا کی وبا کو دنیا میں پھیلتے ہوئے کم و بیش پانچ ماہ ہو چکے ہیں اور یہ وبا ہے کہ کنٹرول ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔ عام نظر سے نہ دیکھے جا سکنے والے اس وائرس نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے کورونا کیسز 69 لاکھ سے زائد جبکہ اموات 4 لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں۔ چین سے شروع ہونے والی وبا سے متعلق ابتدائی طور پر یورپ اور امریکہ کا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور انتہائی غیر سنجیدہ تھا۔

یورپ اور امریکہ کے خیال میں کورونا صرف چین کا مسئلہ ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین کی معیشت سالانہ پیداواری صلاحیت کی کمی کی وجہ سے دباؤ میں آئے گی اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ امریکہ کی بدقسمتی کہ ٹرمپ کے کورونا سے متعلق غیر سنجیدہ رویہ کے سبب اس وائرس نے سب سے زیادہ امریکیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ کورونا کے سبب امریکہ سمیت یورپ کا معاشی پہیہ رک گیا۔ ان ممالک میں لاک ڈاؤن نے عوام کی زندگی کو اجیرن کر دیا۔ خوف کی فضا میں سانس لینے پر مجبور امریکہ اور یورپ کے عوام شاید ہی اس وبا کو کبھی بھول سکیں اور کچھ نہیں تو امریکیوں کو صدر ٹرمپ اپنے غیر سنجیدہ رویے کے سبب ہمیشہ یاد رہے گا۔

دنیا نے دیکھ لیا کہ جن ممالک نے کورونا سے متعلق سستی کا مظاہرہ کیا اور بر وقت اقدامات نہیں کیے وہاں پر حالات بہت زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں پر موجود حکومت نے کورونا سے متعلق قطعی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان میں 26 فروری کو کورونا کا پہلا کیس منظر عام پر آیا۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے کورونا سے متعلق دنیا بھر سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر کورونا کی ٹیسٹنگ، سماجی دوری اور قرنطینہ سینٹرز بنانے سے متعلق پالیسی بنائی جبکہ وفاق اور دیگر صوبوں نے کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

عمران خان کی حکومت نے کورونا سے متعلق ردعمل میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غفلت کا مظاہرہ کیا۔ عوامی سطح پر شدید تنقید کے بعد وزیراعظم نے 17 مارچ کو پہلی بار کورونا سے متعلق عوام سے خطاب کیا اور یہ خطاب بھی تضادات کا مجموعہ تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنا ناممکن ہے انہوں نے عوام سے کہا کہ کورونا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ وبا عام فلو جیسی ہے۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو ناقابل عمل قرار دے دیا۔ دنیا بھر میں تباہی مچانے والے کورونا سے متعلق یہ تھا وزیراعظم کا وہ غیر سنجیدہ رویہ جس کے بعد 23 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار ایک مرد بحران کے طور پر سامنے آئے اور میڈیا کو لاک ڈاؤن سے متعلق پاک فوج کی تیاریوں سے متعلق بریف کیا۔

اس موقع پر لاک ڈاؤن سے متعلق نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ عمران خان لاک ڈاؤن کرنے کے خلاف تھے تو پاک فوج نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی مدد کی درخواست پر فوج کی تعیناتی کرنے سے متعلق پریس کانفرنس کر دی۔ نیویارک ٹائمز کا دعوی تھا کہ لاک ڈاؤن کے فیصلے میں وزیراعظم کی مرضی شامل نہیں تھی لیکن فوج نے مفاد عامہ کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے فیصلہ پر عمل درامد کو یقینی بنایا۔ حالانکہ اس ضمن میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی بارہا لاک ڈاؤن کی حمایت میں بیان دے چکی تھیں بلکہ سندھ حکومت تو لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کر چکی تھی۔

اس صورتحال پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ معیشت تو بحال ہو سکتی ہے مگر زندگیاں واپس نہیں لائی جا سکتیں لہذا انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن ضروری ہے۔ بہرحال اگر سندھ حکومت ایران سے آنے والے زائرین کی سکریننگ اور مشتبہ افراد کو قرنطینہ سینٹرز میں منتقل نا کرتی تو کوئی شک نہیں کہ کراچی پاکستان کا ووہان ثابت ہوتا۔ پاک فوج کے فوری فیصلوں اور سندھ حکومت کے بروقت اقدامات نے جہاں کورونا کو پھیلاؤ کی رفتار کو کم کیا وہاں پر وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں کو بھی الرٹ کر دیا۔

تا ہم کورونا کی روک تھام سے متعلق حکومتی پالیسیاں ابہام کا شکار رہیں۔ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے لئے حفاظتی لباس اور ماسک تک بروقت مہیا نا کیے جا سکے جس کے نتیجے میں بہت سے مسیحا اس وائرس کا شکار ہوگئے۔ جب ڈاکٹرز نے اس پر احتجاج کیا تو ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حکومت نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کورونا پوری حشر سامانیوں کے ساتھ عوام کے اندر موجود ہے۔

عددی اعتبار سے اس وقت ہم چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں 93 ہزار سے زائد کورونا کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں سے 1935 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہفتہ میں دو دن ہفتہ اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن کا حکم دیا گیا ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند ہیں اور کاروبار زندگی نا ہونے کے برابر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کورونا کی روک تھام سوشل میڈیا، میڈیا اور پریس کانفرسز کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتی رہی جس کی وجہ سے کورونا رکنے کی بجائے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

اگر حکومتی وزیروں اور مشیروں کے کورونا سے متعلق گزشتہ تین ماہ کے بیانات کا جائزہ لیں تو آپ کو خود سمجھ نہیں آئے گی کہ حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ لاک ڈاؤن نہیں کریں گے اور لاک ڈاؤن ہو گیا۔ کورونا عام سا فلو دوسرا بیان کہ کورونا بہت خطرنا ک ہے۔ عوام کاروبار کھول دیں اب عوام کاروبار بند کر دیں۔ چلو جو ہوا سو ہوا بس وزیراعظم کے ایک بیان کی وضاحت چاہیے کہ عمران خان کی 17 مارچ کی تقریر کے مطابق گھبرانا نہیں ہے تو اب جس تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے تو جناب وزیراعظم صاحب اگر اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments