قومی جہالت کا کاروبار


ترقی یافتہ اقوام کے ترقی کرنے کی وجوہات توکم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں جیسے کے منزل کا درست تعین اور اس منزل کے حصول کے لیے اک واضح روڈ میپ۔ مگر ترقی پذیر اقوام کی ناکامی کی وجوہات ہر ایک کی اپنی اپنی ہیں۔ مطلب یہ کہ ناکامی کا اپنا ایک جہان ہوتا ہے اور ہر کوئی اس جہان میں سے اپنی نالائقی کہ موافق اپنی ناکامی کے اسباب چن لیتا ہے۔ مگر جو بات ناکام یا غیرفعال (dysfunctional) اقوام میں مشترک ہے وہ ہے قومی سطح پر جہالت کا فروغ۔

آپ نے عوامی جہالت تو سنا ہو گا مگر شاید قومی جہالت کے بارے میں اپنی رائے مختلف رکھتے ہوں مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی نہیں ہو گی کہ جہالت اک قومی بیماری ہے مگر اک محدود طبقے کہ لیے تو یہ ایک بہت ہی منافع بخش کاروبار ہے۔ پاکستان اس کی ایک شاندار مثال ہے البتہ مودی کا انڈیا اور ٹرمپ کا امریکہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

جہالت کو ماپنے کا پہلا طریقہ تو سیدھا سادہ ہے جسے ہم شرح خواندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر اس جہالت کو آپ کیسے ماپ سکتے ہیں جو تعلیم یافتہ لوگوں میں پائی جاتی ہے؟ بظاہر انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی جاہل ہو سکتے ہیں۔ اور اس جہالت کو ماپنے کا بھی اک سادہ سا طریقہ کار ہے اور وہ ہے کسی بھی شخص کی طرف سے اس کے تعصب کا اظہار۔ اگر بندہ پڑھا لکھا ہے مگر اس کے اندر سے تعصب ختم نہیں ہوا تو وہ ایک طرح سے جاہل ہی تصور ہو گا۔

اختلاف رائے اور تعصب میں فرق ہوتا ہے۔ رائے کا اختلاف دوسرے کے بینادی اور انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے مگر جزوی طور پر کسی بھی مسئلے کے ایک یا ایک سے زائد پہلوؤں پر مختلف نقطہ نظر کو پیش کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا فریق اس کو بغیر نفرت کا اظہار کیے یا دل میں کینہ رکھے برداشت کرتا ہے۔ مگر تعصب تو ہر اس شضص کی گردن پر ایسے گھٹنا دبائے بیٹھا ہوتا ہے جیسے امریکی ریاست میناپولس کا پولیس افسر ڈیرک چوؤن اور تب تک وہ گھٹنا دبائے رکھتا ہے جب تک کہ ہر مختلف رنگ، نسل اور عقیدے کے جارج فلائڈ کا دم نا گھٹ جائے۔ پاکستان میں گھٹن کا یہ ماحول دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

تعصب کی بے شمار اقسام ہیں جو بے شمار وجوہات کی بنیاد پر برتا جا سکتا ہے جس میں رنگ، نسل اور عقیدہ سب سے نمایاں ہیں۔ موجودہ دور میں چند ممالک میں سیاسی اختلافات تعصب اور نفرت کے انتہائی درجے کو چھوتے نظر آتے ہیں حالانکہ سیاسی اختلاف رائے جہموریت کا حسن ہوتا ہے مگر آج کے دور میں یہ ایک گالی بن چکا ہے اور اکثر سیاسی راہنما اور کارکن اخلاقیات کی انتہائی نچلی سطح پر گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جہالت کے اس کاروبار کو پاکستان میں قریب قریب ہر حکومتی ادارے اور سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور موجودہ دور حکومت نے تو اس باریک سی چلمن کو بھی ختم کر دیا ہے جو باقی حکومتوں کے ادوار میں تھوڑی بہت پردہ داری کا کام دیا کرتی تھی۔ ویسے تو قومی سطح پر تعصب اور جہالت پھیلانے کا آغاز قرار داد مقاصد سے ہی ہو گیا تھا جسے میں قرار داد بے مقصد کہتا ہوں کیونکہ ہماری بطور قوم کج روی کا نقطہ آغاز اک فلاحی ریاست کی بجائے اک مذہبی ریاست سے ہی ہو گیا تھا۔

اب اس سے بے مقصد بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ملک اور حکومت جو عوام کو دو وقت کی عزت کی روٹی اور سستا اور بروقت انصاف تو دے نہیں سکتی مگر عوام کو جنت کی عیش وعشرت کی گارنٹی اور اس جنت میں داخلے کا بنیادی کورس وہ بھی لازمی مضمون کے طور پر اسی دنیا میں پڑھانا چاہتی ہے اور یہ سب ملک کو ایک خاص مذہبی فرقے کی اجارہ داری میں دے کر۔ عوام اس زمین پر دستیاب سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق اس ملک سے ہی بھاگ رہے ہیں۔

جس کو جو راستہ ملتا ہے وہ نکل لیتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت بڑی ڈھٹائی سے یہ تمغہ اپنے سینے پر سجا رہی ہے کہ جولائی 2018 سے لے کر اب تک نو لاکھ ستر ہزار لوگوں کو بیرون ملک بھیج چکی ہے۔ اگر لوگوں نے روزگارملک سے باہر جا کر ہی کمانا ہے جہاں قرارداد مقاصد نام کی کوئی چیز نہیں تو پھر یہ طوق صرف ان لوگوں کے لیے ہی کیوں جو بیچارے اس ملک سے زندہ بھاگ نہیں سکتے۔

مذہب کی معلوم لگ بھگ چار ہزار سالہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے سے ہمیشہ متعصب رہتا ہے اور تا قیامت معمولی استثنا کے ساتھ متصب ہی رہے گا۔ اس تاریخ کے پس منظر میں ایک مذہبی ریاست قائم کر کے معاشرے کو تقسیم اور انتشار سے بچائے رکھنا اک دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے مگر اس کا کیا کیجئے جب منافع ہی تقسیم در تقسیم میں ہو۔ ہم انگریز کو آج بھی کوستے ہیں کہ اس نے ہمارے بھولے بھالے آباواجداد کو کمال مکاری سے تقسم کرو اور حکومت کرو کے گھن چکر میں ڈال کر اس مال و دولت سے بھرے ہوئے خطے پر ناجائز قبصہ کیے رکھا مگر جو تقسیم در تقسیم ہمارے اندر در آئی ہے اس کی خبر تک نہیں۔ ہم ایسے ہی بھولے بادشاہوں کی قوم نہیں ہیں۔

تعصب اور جہالت کا نقطہ عروج ضیا دور میں اپنے جوبن کو پہنچا۔ معاشرے کو عقائد کی تفریق سے متصب بنانے کا منظم اور عملی آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والے سبھی سیاسی اور غیر سیاسی راہنما اور نجات دہندے اس کارخیر میں حصہ بقدر جثہ ڈالتے رہے۔ طریقہ واردات سادہ سا ہے۔ کہ معاشرے میں تفریق در تفریق کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلا دیا جائے۔ اب ہم سب کچھ ہیں مگر ایک قوم نہیں ہیں۔ کسی بھی اہم اور حساس معاملے پر دھول ڈالنی ہو تو ایک جھوٹا اور متضاد بیانۂ چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایسی دھول اڑائی جاتی ہے کہ حقیقت دور شرمسار کھٹری دیکھتی رہتی ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس کام کو اور آسان کر دیا ہے۔ ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ اور سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔

قانون میں ایک اصطلاح پائی جاتی ہے جس کو بے گناہی کا گمان (presumption of innocence) کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جب تک جرم ثابت نا ہو جائے ملزم ملزم رہتا ہے مجرم نہیں بنتا۔ مگر آپ قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو لے لیں، قطع نظر اس کے کہ صدارتی ریفرنس کا کوئی قانونی جواز بنتا ہے کہ نہیں ایک عام فہم بیانیہ شہزاد اکبر صاحب کی جانب سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اکثریت جو ان پڑھ اور پڑھے لکھے عوام پر مشتمل ہے رسید نکالو رسید دکھاؤ کی گردان الاپنا شروع کر دیتی ہے۔ چاہے قانون اس کی اجازت دیتا ہو یا نا دیتا ہو۔ بس رسید دکھاؤ کا شور شروع ہو جاتا ہے۔

دنیا بھر میں ٹیکس کے قوانین میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ٹیکس دہندہ کو ایک متیعن مدت کے لیے ٹیکس ریکارڈ کو رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 174 (3) کے مطابق ہر ٹیکس دہندہ شہری کو چھ سال کے لیے رسیدیں اور دیگر ریکارڈ محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ریاست کو شہری کے جمع کروائے گئے کوائف پر اعتراض ہے تو ریاست کے پاس صرف چھ سال ہیں اس ریکارڈ کی چھان بین کرنے کے لیے اور اگر ریاست اور اس کے اداروں کو چھ سال بعد ہوش آتی ہے کہ ہم نے تو اس بندے کی چھان بین کرنی تھی تو پھر یہ وہی مکا ہے جو لڑائی کے بعد یاد آتا ہے۔ قانونی طور پر ریاست کے پاس کوئی جواز نہیں کہ اس معاملے کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ قانون پر عمل معاشروں میں استحکام لاتا ہے نا کہ من مرضی۔

آپ پاکستان کی ساری تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو قانون پر عمل درآمد نہیں بلکہ من مرضی ہی نظر آئے گی۔ نظریہ ضرورت ہو یا رسید دکھاؤ مافیا سبھی ایک بات کی گواہی ہیں کہ ہم نے وہی قانون ماننا ہے جو ہمارا دل چاہتا ہے۔ اس بات کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کہ ہماری خواہش رائج الوقت قانون سے متصادم ہے۔ نواز شریف کا بھی معاملہ یہی ہوا۔ آپ لاکھ کوشش کر لیں آپ کسی ان پڑھ تو دور کی بات کسی پڑھے لکھے شخص کو یہ نہیں سمجھا سکتے کہ نواز شریف کو سزا ایون فیلڈ فلیٹ کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس اعزازیہ کا ذکر نا کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے جو وہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے بطور رکن بورڈ آف ڈائریکٹر لے سکتے تھے اور نہیں لیا۔

اس سب کے اوپر نیب آرڈنینس کی دفعہ 3 جو رائج الوقت تمام قوانین کو پس پشت ڈال کر کچھ بھی ڈیمانڈ کر سکتی ہے۔ وہ معاشرہ جس میں لوگ شناختی کارڈ بھی ووٹ ڈالنے کہ وقت بناتے ہیں تعصب اور نفرت میں اندھے ہو کر بیس پچس سال پرانی رسیدیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ساری سرکس سے اور تو کچھ ہوتا نہیں البتہ معاشرے میں پڑھے لکھے جاہلوں کا اضافہ ضرور ہو جاتا ہے اور قومی جہالت کا کاروبار کرنے والے اور طاقتور ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments