پرسکون دیہی زندگی _____ حقیقت یا خام خیالی



ہمارے ہاں دیہی زندگی کو بہت زیادہ آئیڈیالائز کیا جاتا ہے اور شہری لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دیہی زندگی بہت پر سکون ہوتی ہے، یہاں کی زندگی سادہ، آسان، غیر پیچیدہ، فطری، بناوٹ اور دکھاوے سے پاک اور مسائل سے عنقا ہوتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں رہ کر دنیاوی جھمیلوں سے دور رہا جا سکتا ہے اور ذہنی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے، ادھر زندگی میں ٹھہراؤ ہے فطرت سے قربت بھی یہیں رہ کر نصیب ہوتی ہے الغرض شہری لوگ دیہی زندگی کو ایک خوابوں اور خیالوں والی ہر لحاظ سے پرفیکٹ زندگی مانتے ہیں جہاں کوئی نقص نہیں، کوئی پریشانی نہیں، سب اچھا ہے اور ساری زندگی ایسی جگہ رہنے کے کچھ خواب بھی دیکھتے ہیں مگر افسوس کہ حقیقت ایسی بالکل نہیں اور شہری لوگ چند دن جا کر تو دیہات میں رہ سکتے ہیں پر ساری عمر نہیں کیونکہ یہ نرا گھاٹے کا سودا ہے۔

سوشل میڈیا پر دیہی زندگی کے حوالے سے بہت چرچے رہتے ہیں کہ یہ ایسی ہوتی ہے ویسی ہوتی ہے، اس کی خوبیاں بہت بڑھا چڑھا کر اس طرح یک طرفہ طور پر بیان کی جاتی ہیں کہ لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں اور اس کی چاہ میں کھو جاتے ہیں۔ ہمارا ادب بھی دیہی زندگی کا بڑا دلچسپ نقشہ کھینچتا ہے کہ لوگوں کو یہ اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دیہی علاقے ایسے نہیں کہ وہاں جا کر مستقلا رہا جا سکے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں سے لوگ اب بہتر زندگی کی چاہ میں نقل مکانی کر کے شہروں کی طرف آ رہے ہیں جبکہ اگر واقعی زبان زد عام دیہی زندگی سے منسوب قصے سچ ہوتے تو وہاں سے لوگ جوق در جوق شہر نہ آتے۔

سوشل میڈیا اور روز مرہ زندگی میں یہ سوال اکثر ہوچھا جاتا ہے کہ کیا شہری لڑکی کسی گاؤں میں شادی کر کے وہاں خوش رہ سکتی ہے جس پر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ نہیں کبھی نہیں۔ ہاں دیہاتی لڑکی شادی کے بعد شہر آکر خوش رہ سکتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

ہمارے ہاں دیہاتوں کی حالت زار بے حد خراب ہے۔ وہاں قدرتی مناظر و نظارے تو ہیں مگر زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی نہایت مشکوک جو اول تو ہیں نہیں ہیں بھی تو معیار ویسا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔ مغربی ممالک کے دیہی علاقوں اور زندگی کی بات اور ہے۔

یہاں نہ تو پکی سڑکیں ہیں، نہ اعلی تعلیمی ادارے، نہ بجلی و گیس کا باقاعدہ نظام۔ زیادہ تر دیہاتوں میں تو بجلی و گیس ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ پانی کی دستیابی کا بھی معقول بندوبست نہیں۔ حفظان صحت کے مسائل الگ۔ تو وہاں جاکر رہنا آسان نہیں۔

دیہاتوں میں ہسپتال اول تو ہوتے نہیں، ہوں تو ڈاکٹر و دوسرا عملہ نہیں ہوتا۔ ڈسپنسریز و ہیلتھ مراکز بھی عملے کے بغیر ہی ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ کمپاونڈر مل سکتا ہے ادھر آپ کو۔ حکیم اور عطائی ڈاکٹروں کی ادھر بھرمار ہوتی ہے جن کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھونا بھی یہاں کا بڑا ایشو ہے۔ آپ دیہات میں رک کر کسی حادثے یا مہلک بیماری کا شکار ہوجائیں تو موت یقینی کہ آپ کو علاج کے لیے شہر ہی جانا پڑے گا اور شہر تک جانے والی سڑک کی عدم موجودگی یا خستہ حالی اور کسی مناسب سواری کی عدم موجودگی آپ کو موت کا تحفہ تو دے سکتی ہے مگر شہر علاج کے لیے نہیں پہنچا سکتی۔ لہذا زندگی عزیز ہے تو ادھر طویل قیام جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

یہاں خریداری کے لیے بھی نہ بڑی دکانیں ہوتی ہیں نہ شاپنگ مالز۔ چھوٹی موٹی دکانوں سے بمشکل روزمرہ کی اشیاء مل پاتی ہیں۔ ہوٹلنگ کرنے کا خواب بھی ادھر رہ کر پورا ہونا ممکن نہیں کہ یہاں آپ کو اچھے فائیو سٹار یا ان جیسے ہوٹلز تو ملنے والے نہیں۔ ہاں ڈھابا، جھگی ہوٹل، کیفے ڈی پھونس اور روڈ سائیڈ کھانے کی کچھ جگہیں مل سکتی ہیں پر وہ بھی اکثر مضر صحت اشیاء کے ساتھ۔

یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی دور دراز واقع ہوتے ہیں، زیادہ تر ادھر چوہدریوں، وڈیروں اور جاگیر داروں کا راج ہوتا ہے جو ادھر کے لوگوں کو اپنی رعایا سمجھ کر ان کی جان، مال اور عزت کا استحصال کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تو یہاں رہنا خود کو جانتے بوجھتے ہوئے جہنم میں دھکیلنے والی بات ہے۔ مزید ادھر پنچائتی نظام کے تحت مخصوص گروہ کی اجارہ دارہ ہوتی ہے اور ان کی نا انصافی کے خلاف احتجاج خودکشی والی ہی بات ہے۔ ذات پات اور برداری سسٹم، امیر غریب کی کشمکش ادھر ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔

مزید مچھروں کی بہتات، نکاسی آب کے مناسب انتظام کی عدم دستیابی، روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی، نئے ہنر اور مہارتیں سیکھنے سکھانے کے مواقع و ادارے عنقا ہونا، غربت، جہالت، توہم پرستی وغیرہ نے تو یہاں کا رہا سہا چارم بھی ختم کر دیا ہے جو یہاں رہنے کی خواہش رکھنے والوں کو جلد عقل دلا دیتا ہے کہ وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ بھئی یہ تو جہنم میں آگئے ہم۔ خاندانی دشمنیاں، ذات برادری کے جھگڑے الگ اور نہ ختم ہونے والے طویل قصے ہیں۔

ہمارے رشتے دار جو گاؤں میں رہتے ہیں ان کی اکثریت دیہی مسائل کے رونے روتی رہتی ہے جن کے لیے ممکن تھا وہ شہر آگئے باقی وہیں زندگی کے دن مجبوراً کاٹ رہے ہیں۔

ایک شادی شدہ سہیلی جس کی جاب ایک دور دراز کے گاؤں کے پرائمری سکول میں اپنے گھر سے ستر کلومیٹر دور لگ گئی نے گاؤں میں کرائے پر مکان خرید لیا کہ جاب آسانی سے کرسکے۔ وہ بھی دیہی زندگی کے حوالے سے بڑی خوش فہمی کاشکار تھی۔ چند دن بعد ہی اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے کہ گاؤں میں بجلی تھی پر آتی بہت کم تھی، گیس تھی نہیں، لکڑیاں اور اوپلوں کا ہی سہارا تھا، موبائل کے سگنلز بھی کم کم آتے، انٹرنیٹ کا تو اللہ ہی حافظ تھا، راستے کچے تھے، علاج کے لیے دعا کے بعد نیم حکیم کا ہی آسرا تھا جو خطرہ جان ہی تھا۔ الغرض دیہات میں کرائے پر مکان لینے کے بعد جب بھی اس سے بات ہوتی وہ دیہات کی برائیاں ہی کرتی پائی جاتی حالانکہ شہر میں رہ کر وہ دیہات کی دیہی زندگی گزارنے کی خواہاں تھی۔ شکر ہے جلد اس کی ویڈ لاک پر فیصل آباد ٹرانسفر ہوگئی اور وہ پھر سے شہر کو پیاری ہوگئی پر اب دیہی زندگی کا نام بھی نہیں لیتی۔

میری کئی سٹوڈنٹس بھی دیہی علاقوں سے آتی ہیں اور وہ اور ان کی مائیں بھی گواہی دیتی ہیں کہ زیادہ تر دیہات بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور وہاں زندگی بہت مشکل ہے۔

کالج میں گاؤں سے آنے والی میری سب سہیلیاں بھی گاؤں کی شکایتیں ہی کرتی پائی جاتیں اور یہی سچ ہے کہ ادھر زندگی آسان نہیں۔ بہت مشکل ہے۔ ادھر لٹریسی لیول بھی کم ہے اور لوگوں کی اکثریت اب بھی فرسودہ رسوم و روایات سے جڑی ہے۔ ونی، وٹہ سٹہ، کارو کاری اب بھی ادھر عام ہیں۔

یہاں کے لوگوں کی سادگی، ایمانداری، دیانت داری کے قصے سچ تو ہوسکتے ہیں مگر سو فیصد نہیں کہ یہاں بھی انسان ہی رہتے ہیں فرشتے نہیں اور انسان خطا کا پتلا ہی ہے۔ یہاں رہ کر زندگی میں آگے بڑھنا اور بہتر مستقبل بنانا بھی مشکل بلکہ نا ممکن سی بات ہے تبھی تو لوگ دیہات سے شہر آتے ہیں۔

دیہی زندگی میں حسین نظارے تو ہوتے ہیں مگر صرف انہی کے سہارے توانسان ساری زندگی نہیں گزار سکتا کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں ان حسین نظاروں کے سوا۔

دیہات کے برعکس شہری زندگی پرفیکٹ نہیں مگر یہاں کم ازکم زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں اور ترقی و بہتر روزگار کے مواقع تو موجود ہوتے ہیں ناں۔

تو پس ہمارے ہاں دیہاتوں میں زندگی اتنے مسائل سے بھری ہے کہ وہ یہاں کے پرسکون ماحول کو پرسکون نہیں رہنے دیتی۔ لہذا یہاں تفریح کی غرض سے چند دن جا کر رہنا اور بات ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کا خواب دیکھنا نری بیوقوفی ہے کیونکہ ایسا کر کے آپ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ ہی کھیل سکتے اور اسے برباد کر سکتے ہیں۔ لہذا اگر آپ بھی محض فرضی قصے کہانیاں سن کر، دیہات کے خوبصورت نظاروں کی چاہ میں ادھر جا کر ہمیشہ کے لیے پرسکون زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہے پیں تو میں یہی کہوں گی کہ جاگ جائیے پلیز۔

ذاتی تجربے کے لیے کسی دیہی رشتے دار کو ڈھونڈ کر کچھ دن دیہات کا چکر لگا لیں تو پتا چل جائے گا کہ پرسکون دیہی زندگی بس خام خیالی ہی ہے اور آپ کے یہاں رہنے کی خواہش پیدا کرنے والے کیڑے کا علاج ہو جائے گا اور عقل بھی آ جائے گی اور آپ سمجھ جائیں گے پرسکون دیہی زندگی آج کے دور میں حقیقت نہیں محض خام خیالی ہے۔ بس آزمائش شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments