سب رنگ ڈائجسٹ۔ ایک یاد۔ ایک رومانس


سب رنگ ڈائجسٹ نوجوانی کا رومانس تھا جو اس کی اشاعت تک جاری رہا۔ انیس سو ستر کے شروع میں ایک دن ایک بک سٹال پر بہت خوبصورت سر ورق جس پر ایک خوبصورت حسینہ براجمان تھیں دیکھا، تو فوراً ً خرید لیا۔ اس وقت اس کی قیمت پونے دو روپے تھی جو جیب خرچ سے دیتے بڑی تکلیف ہوئی۔ گھر آکر اسے پڑھا اور پھر اسی کے اسیر ہو گئے۔ کوشش کر کے پچھلے شمارے ڈھونڈ کر خریدے۔ چند دن پہلے پرانی کتابوں کی الماریوں کی صفائی کے دوران سب رنگ ڈائجسٹ کا اگست 1971 ء کا شمارہ برا مد ہوا۔

رات کو اسے پھر سے پڑھا۔ بہت ساری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس شمارے میں دو قسط وار کہانیوں۔ غلام روحیں اور انکا کے علاوہ الیاس سیتاپوری۔ اقبال پاریکھ اور اثر نعمانی کی شاہکار کہانیاں بھی شامل تھیں۔ انگریزی اور اردو ادب سے بہترین انتخاب۔ چھوٹے چھوٹے چٹکلے اور کارٹون بھی اس رسالے میں شامل تھے۔ ان سب کے علاوہ شکیل عادل زادہ کا ذاتی صفحہ ایک خاصے کی چیز تھا۔ اتنے خوبصورت الفاظ اور قارئین کے لئے محبت کے ایسے جذبات شکیل عادل زادہ کا ہی کمال تھا۔ باذوق قارئین کی دلچسپی کے لئے اگست 71 ء کے اس شمارہ سے شکیل عادل زادہ کے ذاتی صفحہ سے ایک چھوٹا سا اقتباس اور کچھ منتخب چٹکلے پیش ہیں۔

ذاتی صفحہ۔ اگست 1971

تیس دن کی دوری ختم ہوئی۔ اب مجھے اپنے قریب محسوس کیجیے۔ میرے اوپر جو گزری اس کا احوال سنئیے۔ یہ آپ کے نام میرا بیسواں محبت نامہ ہے۔ عشق کامل میں بیس کیا ان گنت محبت ناموں اور امتحانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر ساری بات شدت احساس کی ہے۔ یہ اسی شدت احساس کا کرشمہ ہے کہ میں نے بیس ماہ میں اپنے اردگرد پروانوں کا ایک ہجوم اکٹھا کر لیا۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہوں گا۔ میری بات کی صداقت میں وہ ڈرائینگ روم۔ وہ بسیں، وہ بازار اور وہ گلیاں ہیں جہاں سب رنگ کا جلوہ عام ہے۔ بیس مہینوں میں کیا انقلاب آیا۔ میرے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ ہوا۔ کہاں کہاں میں رسواء نہ ہوا۔ لوگ میرا انتظار کرتے ہیں میں کہ جو سب رنگ ہوں میں کہ جو ایک محبوبہ ہوں جس کی محبتیں سب کے لئے ہیں اور جو محبت میں اشتراک کی قائل ہے۔ ایک صاحب نے مس سب رنگ شکیل عادل زادہ کے نام سے ایک دلچسپ خط لکھا ہے۔ اب بتائیے میرے اندر محبوبیت کیوں پیدا نہ ہو اورمیں اپنے اس خوبصورت جذبے کی سیرابی کے لئے اپنے اندراور کشش اور دلکشیاں سمونے کی جستجو کیسے نہ کروں۔

قربتیں میری داد ہیں اور قربتوں کا بے پناہ اظہار ہو رہا ہے۔ جو میرے احساس میں تازگی اور میرے جذبوں میں توانائی کا سبب ہیں۔ سچ پوچھئیے تو میں دوہرا لطف اٹھا رہا ہوں۔ میں ایک محبوب ہوں۔ ماہ جبینوں کی نظر فرحت کی سعادتیں مجھے حاصل ہیں۔ میں جو ایک محبوبہ ہوں۔ اضطراب و اشتیاق کی نگاہیں میرے ہمراہ چلتی ہیں۔ میں سب رنگ ہوں۔ میرا نام شکیل عادل زادہ ہے۔ میں جو شکیل عادل زادہ ہوں میرا نام سب رنگ ہے۔

چٹکلوں سے انتحاب۔
(1)

ترقی پسند مصنفین کے جلسے میں جب کئی مقرر پرجوش تقریریں کر چکے تو منتظمین نے نشے میں دھت مجاز کو مجبور کیا کہ وہ بھی تقریر کریں۔ مجاز نے انکار کیا۔ لوگوں نے انھیں زبردستی کھڑا کر دیا۔ اور سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : حضرات اب آپ کے سامنے مجاز صاحب کچھ ارشاد فرمائیں گے۔ مجاز نے چند جملوں میں اپنی تقریر ختم کر دی۔ حضرات آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارے باپ دادا جھونپڑیوں میں رہتے تھے اور محلوں کے خواب دیکھنے تھے۔ لیکن اب چونکہ زمانہ بدل چکا ہے اس لئے ہم لوگ محلوں میں رہ کر جھونپڑیوں کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔

(2)

فراق گھورکھپوری کو ٹرین میں ایک پارسی قدردان ملا، اسے فراق کا کلام بہت پسند تھا۔ جب وہ فراق صاحب سے جدا ہونے لگا تو اس نے فراق صاحب سے پتہ پوچھا۔ وہ دوبارہ گھر ملنے کا خواہش مند تھا۔ فراق نے اس سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے پارسی نوجوان نے جواب دیا : فیروز دارو والا : فراق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔ جب تم الہ آباد پنچنا تو اسٹیشن پر کسی کو بھی اپنا نام بتا کر میرا پتہ پوچھ لینا، تمہارے نام کا جزو ً دارو والا ً تمہیں بہ آسانی میرے گھر تک پنچا دے گا۔

(3 )
دولت کا راز

محکمہ انکم ٹیکس کے عملے نے پال ہگز نامی ایک شخص کو قابل ٹیکس آمدنی پر ٹیکس ادا نہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا۔ گرفتار ہونے پر اس پچاس سالہ ملزم نے بتایا کہ اس نے اپنی اسی پونڈ ماہانہ آمدنی سے چھ ہزار پونڈ جمع کیے ہیں۔ کسی ناجائز طریقے سے نہیں، بلکہ اس طرح کہ اس نے کبھی مٹھائی نہیں چکھی۔ تمباکو نوشی سے ہمیشہ دور رہا۔ شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ عورتوں کے ساتھ کبھی تفریح کے لئے نہیں گیا۔ شیو ہمیشہ اپنے بھائی کے بلیڈ سے بنایا۔

دادی کو جو رقم قرض دی اس پر بارہ فیصد سالانہ سود وصول کیا۔ دن رات دو ڈیوٹیاں انجام دیں۔ تیرہ سال تک کوئی سوٹ نہیں سلوایا۔ را ت کو کام پر جاتے وقت اپنے باپ کے جوتے استعمال کرتا تھا۔ کبھی پھول خریدنے پر ایک پینی خرچ نہیں کی۔ زندگی میں صرف ایک دفعہ فلم دیکھی۔ دسترخوان پر جو آتا کھا لیتا تھا۔ اپنے تمام کپڑوں کو جوڑ لگا کر اور خود ہی سلائی کر کے پہنتا تھا۔ یہاں تک کہ زیرجامے تک بھی پیوند لگے ہوئے تھے۔ میں چھٹیاں گزارنے کبھی ایسے مقام پر نہیں گیا جہاں تین شلنگ گیارہ پنس سے زیادہ خرچہ ہو۔

(4)

جب گوا پر پرتگالیوں کا قبضہ ہو گیا تو وہاں پرتگالی خکومت کی طرف سے نظم و نسق چلانے کے لئے باقاعدہ دفاتر قائم ہوئے اور پرتگال کی طرف سے وائسرائے کا تقرر ہونے لگا۔ جب وائسرائے ہاؤس تعمیر ہوا تو اس کی ایک محراب پر برکت کے لئے ایک سینٹ (ولی) کی تصویر بنائی گئی۔ اس تصویر میں ایک ہندوستانی کو منہ کے بل زمین پر پڑے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سینٹ (ولی) اس طرح کھڑا ہے اس کا مقدس قدم مظلوم ہندوستانی کی گردن پر ہے اور دست مبارک کی ننگی تلوار کی نوک ہندوستانی کی طرف ہے۔ بابائے اردو نے جب اس تصویر کو دیکھا تو کہا۔ خوب۔ جن کے ولی ایسے ہیں ان کے شیطان کیسے ہوں گے۔

(5)

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز نے اپنے خادم مزاحم سے کہا کہ مجھے رحل درکار ہے لا دو۔ مزاحم نے تعمیل حکم میں ان کے لئے ایک نفیس رحل فراہم کر دی۔ عمرؓ بن عبدالعزیز نے اسے بے حد پسند کیا اور دریافت فرمایا۔ اسے کہاں سے لائے ہو؟ مزاحم نے جواب دیا : بیت المال سے، وہاں ایک لکڑی پڑی تھی۔ میں نے اسے بڑھئی کے حوالے کر دیا۔ اور اس سے رحل بنوا لی۔ اس جواب سے حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز بہت ناراض ہوئے اور مزاحم کو حکم دیا کہ اسی وقت رحل کو لے کر بازار جاؤ اور اس کی قیمت معلوم کرو۔ کچھ دیر بعد مزاحم واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اس لکڑی اور اس سائز کی رحل بازار میں آدھے دینار میں مل جاتی ہے۔

حضرت عمر ؓ نے کہا۔ اگر ہم ایک دینار بیت المال میں داخل کرا دیں تو کیا سبکدوش ہو جائیں گے۔ مزاحم نے کہا لیکن امیرالمومنین بازار میں تو اس لکڑی اور اس سائز کی رحل آدھے دینار میں مل جاتی ہے! حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز نے فکر مند اور خوفزدہ لہجے میں کہا: اچھا لیکن تم بیت المال میں اس کی قیمت میں دو دینار جمع کرا دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments