جو ہو گیا سو ہو گیا!


یہ 2007 ء کی بات ہے۔ میں ادارہ برائے طبی نفسیات میں سائیکو تھراپی کی تربیت حاصل کر رہا تھا۔ تب ایک نفسیاتی الجھنوں کے شکار نوجوان نے میری زندگی اجیرن کردی۔ مجھے سائیکوتھراپی میں آتا جاتا کچھ نہیں تھا اور وہ وہ بیچارا تکلیف دینے کے بڑے حربے جانتا تھا۔ اس کا سب سے خاص حربہ یہ تھا کہ اس کے ساتھ میرے کوئی پچپن سیشن ہوئے، اور ان میں سے ہر سیشن میں اس نے کم و بیش ایک ہی جیسی باتیں کیں۔ وہ اپنی ہی باتیں بار بار دہراتا رہتا تھا۔

یوں لگتا تھا کہ وہ کسی ریڈیو کی طرح تھا۔ وہ دوسرے کی بات سننے کی ہی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کی منطق اتنی عجیب ہوتی کہ میں سن کر ششدر رہ جاتا۔ ایک جانب اس میں ’بارڈر لائن پرسونیلٹی ڈس آرڈر‘ کے عناصر تھے دوسری طرف اس کی ذہانت بھی کافی کم تھی۔ ایک روز اس نے ایک ایسی بات دوران سیشن کہی کہ جو آج بھی یاد آ جائے تو ایک عجیب کیفیت ہوجاتی ہے۔ انسان بھی کیسے کیسے سوچتے ہیں؟ بات کچھ یوں تھی،

نوجوان: ”ایک لڑکی کے پیچھے انسان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ ایک لڑکی کے لئے میری حالت کتے کی ہو گئی۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا اور دشمن اناج کا۔ ۔ ۔ جو ہو گیا، سو ہو گیا، جو ہو گیا، سو ہو گیا اور اب۔ ۔ ۔ اب تو میرے دل میں بھی درد ہورہا ہے۔ ۔ ۔ میں اپنے دل کا آغا خان ہسپتال سے چیک اپ کراؤں گا اور اگر میرے دل کو کچھ ہوا ناں!“

میں : ”تو؟“

نوجوان: ”تو میں بم لگا کر اس لڑکی کے گھر میں گھس جاؤں گا۔ ۔ ۔ ختم کر دوں گا!“

مطلب یہ کہ محترم ایک عاشق ہیں اور عشق میں ان کو اتنی تکلیف ملی ہے کہ ان کی اوقات دھوبی کے کتے کی ہوگئی ہے (جو کہ اضافی طور پر دشمن اناج کا بھی ہے) اور اسی دکھ کی وجہ سے اب ان کے دل میں بھی تکلیف ہوتی ہے جس کا چیک اپ وہ کراچی کے سب سے مہنگے اسپتال سے کرائیں گے اور اگر ان کے دل کو ان کی اس محبت کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا ہے تو وہ اس بات کی سزا اس لڑکی کو دیں گے اور اس کے گھر میں بم لگا کر گھس جائیں گے اس کو ختم کردیں گے۔

اس طرح کے کسی عاشق کا تذکرہ تو ہم نے کسی قصے کہانی میں نہیں سنا۔ اس عجیب منطق پر ہنسنے سے زیادہ رونے کا دل چاہتا تھا۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ اس شخص کی منطق کی درستی کی ذمہ داری میرے ناتواں اور نا اہل کاندھوں پر تھی۔ خیر میں اس بیچارے کا علاج کیا کرتا بعد میں اسے ایک اور تھراپسٹ کو منتقل کیا گیا۔ مگر اس ایک کیس سے میں نے بگڑی ہوئی منطق کے بارے میں بہت سیکھا۔ منطق کی ایسی خرابی جب پیدا ہوتی ہے جب ہم نہ سیدھی بات کرنا چاہتے ہیں، نہ تسلیم کرتے ہیں۔

بلکہ ہم سیدھا سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ اوپر مذکور نوجوان کو اپنی عظمت اور دولت کا اظہار کرنا تھا۔ اپنے غم کا بھی ماتم کرنا تھا۔ یہ سب جب ملا اور ذہانت نے خیال کی چادر کو بھی تنگ ہی رکھا تو ”جو ہو گیا سو ہو گیا“ نے جنم لیا۔ اس کے بعد سے یہ جملہ ”جو ہو گیا سو ہو گیا“ میرے لئے بہت سے مواقع پر ایک ٹیڑھی نفسیات کا استعارہ ہے۔ وہ نوجوان تو بہت عجیب نفسیاتی الجھن کا شکار تھا مگر ہمارے نام نہاد صحتمند سماج کے بھی کئی ”جو ہو گیا سو ہو گیا“ ہیں۔ ذیل میں ایک فہرست دی جاتی ہے۔ یہ سب ہی میں نے اپنے سماج کے اصل کرداروں سے اٹھائے ہیں۔ پڑھئے اور سر دھنئے۔

۔ ”میں نے نجانے کیسے ڈگری حاصل کرلی مگر مجھے اپنے مضمون میں کچھ بھی نہیں آتا۔ جو ہو گیا سو ہو گیا، اب میں مہنگے سوٹ پہن کر اپنی اس معذوری کو چھپانے کی کوشش کروں گا۔“

۔ ”مجھ میں اعتماد کی کمی ہے اس لئے کہ میری امی مجھے کالی کلوٹی بولتی تھیں۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا، اب میں اس اعتماد کی کمی کو مائیڈ سائنسز کی ورکشاپ اٹینڈ کر کے دور کروں گی۔“

۔ ”میری ناک ٹیڑھی ہے اور قد چھوٹا ہے میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا اب دہریت بھری باتیں کر کے سب کی توجہ حاصل کروں گا۔“

۔ ”مجھے خود سب سے زیادہ نفسیاتی علاج کی ضرورت تھی اسی لئے میں نے علم نفسیات میں داخلہ لیا۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں خود نفسیات دان کی کرسی پر بیٹھ کر سب کا علاج کروں گی۔“

۔ ”میری انٹر میں پرسنٹیج بہت کم تھی اس لیے میرا داخلہ فلسفے میں ہوا۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ ۔ ۔ اب میں سب کو یہی بتاؤں گا کہ میں تو ہمیشہ سے ہی فلسفے میں ہی داخلے کا خواہشمند تھا۔“

۔ ”میری کہیں شادی نہیں ہو رہی اس لیے میں نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ ۔ ۔ اب میں سب کو یہی بتاؤں گی کہ میں تو ہمیشہ ہے ہی پی ایچ ڈی ہی کرنا چاہتی تھی۔“

۔ ”مجھے امیر بننا تھا اسی لئے میں نے سخت محنت سے تعلیم حاصل کی لیکن نوکری سے میں امیر نہیں بن سکا۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں کنجوس بن کر ایک ایک پائی بچا کر امیر بنوں گا۔“

۔ ”میری ہونے والی بیوی کم شکل ہے، اس کی صورت میری پسندیدہ ہیروئن سے بالکل نہیں ملتی۔ قد چھوٹا ہے اور رنگ کالا ہے۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ ۔ ۔ مگر وہ لوگ جہیز تگڑا دے رہے ہیں۔“

۔ ”میں کم شکل ہوں اور میرا شوہر جاہل ہے اور ہمارے بچے ہماری صفات کا اشتراک۔ مگر میرے پاس پیسہ ہے اس لیے جو ہو گیا سو ہو گیا۔ میں اپنے بچوں کو ’جنریشنز‘ اسکول میں پڑھوا کر چکنا بنا دوں گی۔“

۔ ”میری ہونے والی بیوی کم شکل اور کالی ہے۔ میں اس سے صرف اس لیے شادی کر رہا ہوں کہ اب کہیں نہ کہیں تو شادی کرنی ہی ہے۔ ۔ ۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ لڑکی کو سب سے مہنگے بیوٹی پارلر سے تیار کیا جائے گا تو جو ہو گیا سو ہو گیا مگر پہلی رات تو معاملہ ٹھیک ہی رہے گا۔“

۔ ”مجھے نوجوانی میں ملک میں انقلاب لانے کا شوق تھا مگر ظاہر ہے کہ میں مڈل کلاسیا ہوں ایسا کیسے کر سکتا تھا؟ جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں نے فیس بک پر انقلاب لاؤں گا۔“

۔ ”مجھے گلوکاری کا شوق تھا مگر ظالم زندگی نے موقع نہیں دیا اب میں ایک نجی ادارے میں نوکری کرتا ہوں، جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں یو ٹیوب پر اپنی گلوکاری ڈال کر سپر اسٹار بن جاؤں گا۔“

۔ ”میں گنجا ہوں اور این جی او میں نوکری کرتا ہوں۔ مجھے اپنی تعریف کرنے کا شوق ہے۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں انٹرنیٹ پر آرٹیکل لکھ لکھ کر اپنی تعریف بھی درمیان میں پیل دیا کروں گا۔“

۔ ”مین بینک میں نوکری کرتا ہوں میرا پیٹ باہر نکل رہا ہے میرے جیسے کروڑوں لوگ ہیں، مجھ میں کوئی انفرادیت نہیں۔ ۔ ۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب میں فیس بک اور انسٹاگرام کو اپنی فوٹوگرافی سے بھر دوں گا۔ اب میری ایک سیاح کی شہرت ہو گی۔“

جو ہو گیا سو ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments