واک آؤٹ سے چائے شائے تک


مجھ سمیت آپ تمام کو ‏وفاقی PSDP میں کوئٹہ کراچی شاہراہ توسیع منصوبہ مسترد کئے جانے کی خبر مل چکی ہو گی اور اس کے علاوہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال کاسالانہ منصوبہ بندی کمیشن کے اجلاس سے احتجاج کے طور پر واک آؤٹ کرنا جس میں شکایات درج کرواتے وقت وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا وفاقی PSDP میں بلوچستان کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بعد ازاں دوبارہ وزیراعلی بلوچستان کو بالآخر چائے پر بلایا گیا۔ ممکن یہ واک آؤٹ کے بعد والی چائے بلوچستان کے حق میں بہتر ثابت ہو۔

ویسے وزیراعلی بلوچستان کے اس اقدام کو اچھی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اب مزید وفاق پر منحصر جس طرح وفاقی حکومت نے بلوچستان کے حوالے سے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ رویہ اسی طرح برقرار رکھنا ہے۔ تو پھر امید ہے واک آؤٹ میں توسیع کی خبر بھی آ جائے ویسے چائے پر امید قائم ہے۔ فرضی باپ کو اس بار اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

ماضی کی طرح ٹھیکے پر چلنے والی بلوچستان کی پچھلی حکومتوں نے بھی ایسے کئی تماشے کئیے ہیں۔ اور ایسے کئی واک آؤٹ اسلام آباد میں موجود سیکنڈ بلوچستان کمپاونڈ میں رہ کر اپنے موقف سے ہٹ گئے۔ عین ممکن ہے وفاق نے جس طرح بلوچستان کے اس دفعہ PSDP سے بلوچستان کے اہم مسائل کو نظر انداز کرنے کو اہمیت دی ہے۔ اور اس حوالے سے وزیراعلی بلوچستان اپنی بات منوائے بغیر واک آؤٹ اگر ٹرن آؤٹ پوائنٹ پر لے گئے تو سمجھ جائیں۔

خیر یہ معاملہ کچھ دنوں میں واضح ہو جائے گا ابھی کافی راونڈ باقی ہیں بشمول بجٹ سے منسلک دیگر معملات کے۔ ویسے اس بار میری آخری امید ہے چھ نکات والے بھی احتجاجی حوالے سے بجٹ کی مخالفت میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ گزشتہ دوسال میں بجٹ کے حق میں ووٹ دے کر بلوچستان کے حق میں ان کو بھی سوائے تقریر کے یا وکٹری کے نشان کے باقی جو ملا ہوگا وہ ان کو پتا ہوگا۔

بلوچستان کے کوٹے یا علاقے کی جابز سے لے کر زمینوں سے لے کر مادنیات سے لے کر سمندر سے لے کر ساحل تک ٹھیکداری نظام کے حوالے ہے۔ شکر ہے اس وقت ہمیں صرف سڑک یاد ہے اور ہماری برداشت کی حد یہ ہے کہہ ملک چلانے والا صوبے کو بھکاری ثابت کرنے کے لیے ایک کرکٹر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر بلوچستان میں صوبے بھر کے معملات اپنی جگہ خوف کا یہ عالم ہے کہہ میں اپنے حلقے میں بھی حق کی بات نہیں کر سکتا۔

کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ کا ڈبل بننا کورونا سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ کیونکہ کورونا کے حوالے سے وفاقی حکومت خود کنفیوز ہے جس میں لاک ڈوان سے نو لاک ڈوان پھر سمارٹ لاک ڈوان کے بعد ہفتے میں دو دن لاک ڈوان والے انتہائی احمقانہ پلان پر چل رہے ہیں۔ بلوچستان میں جمعہ مبارک کے دن کو لاک ڈوان کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اگر بلوچستان میں کورونا ڈیتھ رہٹ کو کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ کے ڈیتھ ریٹ کے ساتھ موازنہ کیس جائے تو کورونا سے گزشتہ تین ماہ میں 54 لوگ جان کی بازی ہارچکے ہیں اب تک جبکہ کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ پر مختلف حادثات کے نتیجے میں ان تین ماہ میں مجھے جو ڈیٹا موصول ہوا ہے اس حساب سے بھی یہ تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔

بلوچستان کی عوام کی خاطر نہ سہی مگر اپنی اتحادی صوبائی حکومت کی خاطر امید ہے وفاقی حکومت محض یہ ایک مطالبہ پورا کرے گی۔ توقع ہے وزیراعلی بلوچستان کے PSDP میں بلوچستان کے اہم مسائل کو نظر انداز کرنے والے واک آؤٹ کو محض چائے شائے کی نذر نہیں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments