پارٹیوں میں خاندانی اور شخصی اجارہ داری کا نقصان


عدلیہ کو البتہ آئینی طور سے ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت حاصل ہے۔ ماضی کی تاریخ میں اس ادارے نے البتہ آئین کی نگہبانی اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بجائے فوجی حکومتوں کو جائز قرار دینے اور آئین میں شخصی ضرورتوں اور پسند کے مطابق ترامیم کرنے کا اختیار دینے کی روایت قائم کی ہے۔ حالانکہ آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور سپریم کورٹ بھی اس اختیار کو محدود نہیں کرسکتی ۔ تاہم سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں یہ کوشش بھی کرکے دیکھ لی گئی۔ ملکی عدلیہ اس وقت اختیار کی بند ربانٹ میں اپنا حصہ لینے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ کشمکش بیک وقت پارلیمنٹ اور فوجی اداروں کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے۔ حالیہ واقعات میں آرمی چیف کی توسیع پر سپریم کورٹ کی گرم جوشی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں اس کشمکش کے نشانات تلاش کئے جاسکتے ہیں۔

ملک کی سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کو آئینی بالادستی کے تناظر میں اصولی طور پر سپریم کورٹ کی پشت پر ہونا چاہئے۔ لیکن آرمی چیف کی توسیع پر سپریم کورٹ کا اعتراض دور کرنے کے لئے جس طرح شدید سیاسی اختلاف کے باوجود تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے مل کر ریکارڈ مدت میں قانون سازی کرنا ضروری سمجھا،اسے سیاسی پارٹیوں کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے وقعتی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے ایک ناپسندیدہ فیصلہ پر ایک جج کو عبرت کی مثال بنانے کے لئے جس طرح صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور حکومتی اداروں نے جیسے اس میں معاونت کی، اس سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ حکومت یا کوئی بھی سیاسی حکومت ملک کی عدلیہ کے مقابلے میں فوج کا ساتھ دینے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ اس طرح صرف عدلیہ ہی کمزور نہیں ہوتی بلکہ ملک کا آئینی جمہوری نظام بھی کمزور ہوتا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب بھی آئین کے نگران ادارے کو کمزور کیا جائے گا، آئینی اختیار رکھنے والی پارلیمنٹ بے بس اور غیر محفوظ ہوجائے گی۔ یہی ملک میں جمہوریت کی ناکامی کا باعث ہے اور اسی طرح آئینی انتظام میں نقب لگانے کے راستے ہموار کئے جاتے ہیں۔

اس افسوسناک صورت حال کی بنیادی ذمہ داری سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں نے ذاتی اقتدار کے لئے مفاہمت اور اصول شکنی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سیاست دانوں نے مشکلات بھی اٹھائیں۔ وہ ذولفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی پر چڑھے یا نواز شریف کی طرح جلاوطنی پر مجبور ہوئے لیکن انہوں نے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔نہ تو ثابت قدمی سے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے اور آئینی انتظام کو یقینی بنانے کی جد وجہد کی گئی اور نہ ہی آئینی انتظام کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوئے۔  سیاسی مزاحمت کی چند مثالیں ضرور تلاش کی جاسکتی ہیں جن میں بھٹو کی قربانی کے علاوہ نواز شریف کی طرف سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کی تحریک بھی شامل ہے۔ لیکن ان دونوں معاملات میں بھی ان لیڈروں کی پارٹیوں نے جد و جہد جاری رکھنے کی بجائے انہی قوتوں سے مفاہمت کرکے سیاست کرنے کو ترجیح دی جن کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی چڑھناپڑا، بے نظیر شہید ہوئیں اور نواز شریف عدالتوں میں خوار ہونے کے بعد ملک سے ’فرار‘ ہونے پر مجبور ہوئے۔

سوچنا چاہئے کہ اس طرز عمل کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یوں تو متعدد عوامل کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے لیکن ان میں سب سے اہم اور فیصلہ کن وجہ سیاسی پارٹیوں پر خاندانوں یا افراد کی اجارہ داری ہے۔ جب ایک خاص خاندان یا فرد کسی پارٹی پر حاوی ہوگا تو وہ پارٹی بھی اسی کے مفادات کے لئے کام کرے گی اور کسی سیاسی یا آئینی چیلنج کا اصولی مقابلہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکے گی۔ اس پس منظر میں ملکی سیاسی پارٹیوں کی ساخت اور ان کے اندرونی کلچر کو تبدیل کئے بغیر ملک میں جمہوریت کے فروغ کا خواب دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت ملکی سیاست میں جن تین پارٹیوں کا غلبہ ہے، ان میں افراد اور خاندان حاوی ہیں۔ کارکنوں کی یا تو کوئی رائے نہیں ہے یا وہ بھی اپنے لیڈر کی خواہش پر عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی لئے ملک میں سیاسی کارکنوں کی بجائے الیکٹ ایبلز خانوادے پیدا ہورہے ہیں جو طاقت ور کی کٹھ پتلی بن کر اپنے مفاد کو یقینی بنانا ہی سیاست کا ماحصل سمجھتے ہیں۔

اس وقت حکمران جماعت پر عمران خان کا قبضہ ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر پارٹی کا کوئی شخص فیصلہ تو کجا رائے تک دینے کا مجاز نہیں ہے۔ یہی صورت حال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان دونوں پارٹیوں میں باالترتیب شریف خاندان اور بھٹو/زرداری خاندان کی اجارہ داری ہے۔ عمران خان نے نظام بدلنے کی جد و جہد کرتے ہوئے جب چند برس پہلے اقتدار حاصل کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کا آلہ کار بننے کا فیصلہ کیا تو ان کے اقتدار کا راستہ تو ہموار ہوگیا لیکن پارٹی پروگرام سے وفادار کارکن یتیم ہوگئے۔ انہوں نے یا تو لیڈر کی بات کو ہی اس کا ’ویژن‘ قرار دینے میں عافیت سمجھی یا وہ خاموشی سے پارٹی چھوڑ گئے۔ جنہوں نے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے لیڈر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی انہیں نشان عبرت بنادیا گیا۔ لہذا دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے بھی انہیں سیاسی خانوادوں نے کردار ادا کیاہے جو اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے ’وفادار‘ تھے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہیں لیکن ان کے سربراہ خاندان کی منفعت کو ہی دراصل سیاسی پروگرام یا حکمت عملی قرار دیاجاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اس سال کے شروع میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کی متفقہ منظوری کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ جب کسی سیاسی پارٹی میں ہی جمہوریت نہیں ہوگی جو بظاہر ملک میں جمہوریت اور آئینی بالادستی یعنی انفرادی حق رائے کی سربلندی کے لئے کام کرتی ہے تو اسے کیسے سنجیدہ کوشش سمجھا جاسکتا ہے؟ پارٹی میں ایک فرد یا خاندان کے افراد کو عقل کل قرار دینے سے سیاسی امور پر مباحث اور مل جل کر فیصلے کرنے کی ثقافت بھی متاثر ہوتی ہے۔ کسی پارٹی میں خاندانی وراثت کا یہ نقصان بھی ہوتا ہے کہ ایک فرد پر لگنے والے الزامات کو پارٹی پر الزام سمجھا جاتا ہے اس طرح ذاتی مفاد کے لئے سیاست کرنے کا رویہ راسخ ہوتا ہے۔

موجودہ حالات میں اگر دیکھا جائے کہ مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کا کنٹرول نہ ہو بلکہ اس کے منتخب ادارے فعال ہوں جو قومی سطح سے دیہات تک ایک مربوط نظام سے بندھے ہوں اور سیاسی عمل میں حصہ ادا کررہے ہوں تو نواز شریف یا ان کے خاندان پر لگنے والے الزامات کا پارٹی کی کارکردگی پر اثر مرتب نہیں ہوگا اور نہ ہی پارٹی کو کسی ایک فرد پر عائد ہونے والے الزامات کی روشنی میں مسترد کیاجاسکے گا۔ یہی اصول دیگر پارٹیوں پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری بنیاد پر کسی سیاسی پارٹی کو استوار کرنے سے کارکنوں کو تحریک ملے گی اور پارٹیوں کو بڑی تعداد میں محنت کرنے والے سیاسی کارکن مل سکیں گے۔ اہم امور پر پارٹی کی نچلی سطح سے اوپر تک مباحث کے بعد صاف ستھری اورٹھوس رائے بھی سامنے لائی جا سکے گی۔ اس عمل کے نتیجہ میں اس الزام کا تدارک بھی ہوسکے گا کہ سیاستدان نااہل ہوتے ہیں، اس لئے فوج یا دیگر اداروں کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سیاست دان سیاسی عمل سے گزرنے کے بعد ہی معاملات کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔

سیاسی پارٹیوں کو افراد اور خاندانوں کے چنگل سے نکالے بغیر ملک میں جمہوری ثقافت کو فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔ جب سیاسی کارکن یہ جانتا ہو کہ وہ کبھی کسی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا کیوں کہ وہ ’درست‘ خاندان میں پیدا نہیں ہؤا تو اس کی سوچ جمہوری نہیں ہوگی بلکہ وہ جمہوریت کو ذاتی ترقی کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے گا۔ اسی طرح سیاسی فکر اور متبادل آرا کی تشکیل اور بہتر راستہ تلاش کرنے کا عمل بھی مسدود ہوگا۔

پاکستان کی سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی جد و جہد میں اگر اس بنیادی نکتہ کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں تب ہی ایسا ڈھانچہ استوار ہوسکتا ہے جسے بندوق کی گولی یا عدالتی اختیار نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اسی وقت ملک میں آئینی نظام کو ہمہ قسم خطرات سے محفوظ کیا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2788 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments