خوفزدہ عوام اور سمارٹ لاک ڈاؤن


ویسے تو حکومتی پالیسی نہایت مبہم سی ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ نامعلوم اشرافیہ، حکومت کو کس قسم کے لاک ڈاؤن پر مجبور کر رہی ہے، لیکن ایک چیز تو واضح ہے کہ حکومت خود بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کی خواہاں ہے۔ اس کی حکومتی وضاحت تو ہماری نظر سے ہیں گزری کہ یہ کیا ہوتا ہے، لیکن نریندر مودی کے سمارٹ لاک ڈاؤن سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کیا ہو گا۔

چوبیس مارچ 2020 کو مودی نے جب ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو کہا کہ ”جان ہے تو جہان ہے“ ۔ لیکن جب معاملہ لمبا چلتا دکھائی دیا تو سمارٹ لاک ڈاؤن کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور کہا کہ ”جان بھی جہان بھی“ ۔ پندرہ اپریل کو مشاورت کے بعد انڈیا میں یہ سمارٹ لاک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس میں مودی سرکار کی پالیسی یہ تھی کہ مختلف علاقوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے انہیں وبا کی شدت کے لحاظ سے سبز، نارنجی اور سرخ علاقوں میں بانٹا جائے اور ہر علاقے میں اس کے درجے کے حساب سے نرم یا سخت پابندیاں نافذ کی جائیں۔

یہ بظاہر ایک اچھا ماڈل ہے۔ پاکستان بھی اس پر عمل کرے تو اچھی بات ہے۔ مگر مسئلہ یہ بن رہا ہے جس طرح ہماری معیشت کاغذی نہیں ہے، ویسے ہی ہمارے کرونا کے حکومتی اعداد و شمار بھی بظاہر درست نہیں ہیں۔

ہماری معیشت کے سرکاری اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہوتے ہیں کیونکہ اس کا بڑا حصہ ڈاکیومنٹ نہیں کیا جاتا۔ حکومت کو خبر ہوئے بغیر ہی لین دین ہو جاتا ہے۔ کرونا کے اعداد و شمار کا بھی یہی حال ہو چکا ہے۔ تادم تحریر سرکار پنجاب میں 39 ہزار کنفرم مریض بتا رہی ہے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جو مریضوں کا علاج کرتی پھر رہی ہے، کہتی ہے کہ کرونا کے کم از کم بھی لاہور میں پینتیس لاکھ اور پنجاب میں دو کروڑ مریض ہیں۔ عید سے قبل پندرہ مئی کو پنجاب کے محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں اس وقت مریضوں کی تعداد کا اندازہ پونے سات لاکھ لگایا گیا تھا اس لیے پی ایم اے کے یہ اعداد و شمار اتنے ناقابلِ یقین نہیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت کچھ چل رہا ہے۔ ہسپتال جانے والے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ادھر ہمارے مریض کا کرونا سے انتقال ہوا مگر ہم اٹینڈنٹس کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے کیونکہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے۔ ٹیسٹ کا ریزلٹ بھی آٹھ دس دن بعد آنے کی شکایات موجود ہیں۔ لیکن ایک عمومی رجحان یہ بن رہا ہے کہ کرونا ہو بھی گیا تو حکومت کو خبر نا ہونے دو ورنہ شامت آ جائے گی۔

مختلف علاقوں سے لوگ بتا رہے ہیں کہ ان کے محلے یا شہر میں بہت زیادہ مریض ہیں لیکن لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے بلکہ محلے کے ڈاکٹروں سے علاج کروا رہے ہیں۔ ڈاکٹر بھی چپ کر کے علاج کی کوشش کر رہے ہیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ شروع شروع میں جس طرح کرونا کے مشتبہ شخص کا پتہ چلتے ہی پورے گھر کو اٹھا کر قرنطینہ میں ڈال دیا جاتا تھا اور برے حالوں میں رکھا جاتا، اور جس طرح فوت ہونے والوں کی سرکاری تدفین کی گئی، اس سے لوگ خوفزدہ ہو گئے ہیں۔

”ہم سب“ پر بھی مریم ارشد صاحبہ نے اپنا ماجرا بیان کیا تھا کہ ان کے برطانیہ سے آنے والے بیٹے کا انہوں نے اپنی تسلی کے لیے خود ہی کرونا ٹیسٹ کروا لیا جو مثبت آنے کے بعد کس طرح حکومتی اہلکار دروازے توڑ کر ان کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں زبردستی ہسپتال لے جا کر قرنطینے میں ڈال دیا۔ جبکہ اسی بیٹے کے ساتھ آنے والے دوسرے لڑکوں نے ٹیسٹ نہیں کروایا اور اپنے گھروں میں مزے سے بیٹھے رہے۔

اب عوام کا یہ خوف آسانی سے دور نہیں ہو گا۔ مریض رجسٹر نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی جب ہسپتال میں اس کا علاج نہیں ہے، اور بالکل آخری سٹیج پر ہی ہسپتال مدد کر سکتا ہے، تو ٹیسٹ کروانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ ٹیسٹ کٹس بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ بندے میں علامات موجود ہونے کے باوجود ٹیسٹ نیگٹیو آ جاتا ہے۔ حکومت اگر کم علامات والوں کو ان کے گھروں میں ہی قرنطینہ کی مدت گزارنے دیتی تو بہتر ہوتا۔ برطانیہ میں یہی کیا گیا تھا۔ وہاں صحافی شمع جونیجو اور ان کے دو بچوں کو کرونا ہوا تو حکومت انہیں گھر پر بخار کنٹرول کرنے کے لیے ادویات تو فراہم کرتی رہی مگر ہسپتال لے جانے سے انکاری رہی کہ سانس میں مسئلہ ہو تو پھر سوچیں گے۔ یہی حکمت عملی پاکستان کے لیے مناسب رہتی۔

جب حکومت کو علم ہی نہیں ہو گا کہ کس علاقے میں کرونا کی کتنی شدت ہے، تو کس طرح علاقوں کی سبز، نارنجی اور سرخ رنگوں میں درجہ بندی کر کے ان کا سمارٹ لاک ڈاؤن کیا جانا ممکن ہو گا؟ خوف پھیلنے کے بعد لوگ حکومت پر آسانی سے اعتبار نہیں کریں گے کہ اسے بتائیں کہ ان میں کرونا کی علامات موجود ہیں۔ اس کے لیے اب کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا ہو گا۔

بہتر ہے کہ ایسی موبائل یا ویب ایپلیکیشن بنائی جائیں جس میں لوگ اپنی شناخت چھپا کر اپنے کرونا کے مرض کو علاقے کے نام سمیت رجسٹر کروا سکیں۔ اس سے کم از کم حکومت کو یہ تو علم ہو گا کہ کتنے مریض کرونا کا شکار ہیں اور کس علاقے میں اس کی کتنی شدت ہے۔ اس کے حساب سے وہ اپنی پالیسی بنا سکے گی۔ لیکن ایسا سسٹم بھی ریڈ کراس، ایچ آر سی پی یا ایدھی وغیرہ کے تعاون سے بنانا ہو گا جن پر لوگ اعتبار کر سکیں کہ وہ ان کی شناخت کو واقعی ریکارڈ نہیں کریں گے اور ان کے لیے مصیبت کھڑی نہیں ہو گی۔

اسی بارے میں: میرے بیٹے کے برطانیہ سے آنے کے بعد ہم پر کیا گزری؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments