کرونا سے مرنا نہیں۔ ۔ ۔ لڑنا تھا


نعرے لگائے گئے کہ ”کرونے سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے“ اور ہم اتنے پیار سے لڑے کہ اب صرف مرنا ہے۔ سال 2019 ء کے اختتام پر چائنہ سے شروع ہونے والی اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور جو ڈر اور خوف عوام کے دلوں میں تھا وہ وزیر اعظم کے بیان کے بعد اور لاک ڈاؤن کھلنے کے ساتھ ہی عوام نے دلوں سے نکال دیا اور زیادہ کیس بھی لاک ڈاؤن کھلنے اور عید کی خریداری کے بعد مثبت ہوئے اس وائرس سے بچنے کا واحد حل بھی احتیاط ہی تھی جو ہم سے نہ ہو سکی کیونکہ ہم نے ڈرنا تو ویسے بھی نہیں تھا۔

پاکستان میں روزانہ اوسطاً اب پانچ ہزار کیس سامنے آ رہے ہیں ابھی اموات کی شرح باقی دنیا سے کم ہے لیکن بڑھنے کا خدشہ ہے اور ہمارا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بخار، نزلہ کھانسی اور گلہ خراب ہونا اس وائرس کی ابتدائی علامات ہیں اور یہ علامات ظاہر ہونے پر کرونا ٹیسٹ کروایا جائے اور خود کو دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ کر لیا جائے تا کہ اس وائرس سے مزید جانوں کو خطرہ لاحق نہ ہو سکے۔ وزیر اعظم عوام کی رہنمائی کرتے لیکن انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک عام فلو ہے اور عوام نے گھبرانا نہیں ہے۔

ڈر انسان کو واقعی ہی اندر سے کمزور کر دیتا ہے لیکن سازشی عناصر کے میدان میں کود پڑنے سے ہم لڑنے میں کمزور اور ٹاپ متاثرہ ممالک میں شمار ہونے لگے ہیں جن کا صرف یہ کہنا تھا کہ کرونا نہ تو مارتا ہے اور نہ ہی اس وائرس کا کوئی وجود ہے بہت کم لوگ اس حقیقت کو ماننے کو تیار ہیں بلکہ یہ سننے کو مل رہا ہے کہ باہر سے ڈالر آنے کا نیا کھیل حکومت نے خود رچا رکھا ہے اور ڈاکٹرز زہریلی دوا دے کر مریضوں کی جان لے رہے ہیں۔ ہم انھیں قاتل قرار دیتے رہے ہیں جو ہماری خاطر اپنی قیمتی جانوں کے نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے صرف اس وبا کے نام پر سیاست کی اور نہ ماننے کی رٹ لگا رکھی ہے اور کرونا اپنے وار جاری رکھے ہوئے ہے اور اندر ہی اندر سے ہمیں کمزور کرتا جا رہا ہے۔ اگر یہ وائرس کچھ نہیں ہے تو اپنوں کو مرتا دیکھ کر کیوں اپنوں سے دور بھاگ رہے ہو۔ ہر وہ شخص اس ساری صورت حال کا ذمہ دار ہے جس نے افواہوں کو جنم دیا اور آگے بڑھایا۔ اگر یہ امریکہ کی سازش تھی تو آج کیوں امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔

اتنی اموات ہونے کے باوجود لوگ اب بھی کرونا کا مذاق اڑا رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے والے شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہے ہے اور سننے کو ملتا ہے کہ یہ موت سے ڈر اور بھاگ رہا ہے۔ موت برحق ہے اور موت کا مزہ سب کو چکھنا ہے لیکن موت کو خود گلے لگانا کہاں کی بہادری ہے۔ کچھ دن پہلے تک تو لوگ طنزاً اور مذاقاً ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے کہ تمھارے کسی جاننے والے یا کسی قریبی رشتہ دار پر کرونا وائرس حملہ آور ہوا ہے لیکن اب کچھ حقیقت سامنے آنے کے بعد بھی عوام یقین نہیں کر رہی۔ اب حقیقتاً یہ پھیل چکا ہے اور اس کا واحد حل بھی احتیاط ہی ہے۔

آج ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ ہر امیر غریب کو یہ وائرس موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے اور تدفین بھی ایک جیسی ہو رہے ہے وہ پیسہ جس پر غرور تھا وہ آج کسی کام نہیں آ رہا گناہوں سے توبہ کر لینی چاہیے۔ توبہ کی مہلت ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا احسان ہے۔ ہم نے یہ شیش محل چھوڑ کر مٹی میں چلے جانا ہے اور ہم سب مسافر ہیں کوئی آج چلا گیا تو کسی نے کل جانا ہے۔

عوام سے خیر کیسا گلہ، جو لوگ اس وائرس کے بارے آگاہی دے رہے ہیں وہی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا نہیں کر رہے۔ اب اس وبا سے اگر لڑنا ہے یا اپنوں کو بچانا ہے تو پھر سے مکمل لاک ڈاؤن کرنا ہو گا کیونکہ عید کے بعد ہر دوسرا شخص اس وائرس کی لپیٹ میں ہے اور یہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر لاک ڈاؤن نہیں بھی ہوتا تو احتیاط آپ کے ہاتھ میں ہے خدارا ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں اور ماسک کا استعمال کریں آنکھ ناک کو چھونے سے پرہیز کریں اور ہاتھوں کو بار بار دھوئیں تا کہ آپ اس وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments