عشقِ سوختہ ساماں کی لاحاصلی


میں آپ کو اپنا نام نہیں بتاﺅں گی۔ گواہی کے دوران کوئی سی سی ٹی وی کیمرے سے سوال جواب نہیں کرتا۔ میرا بیانیہ بھی کیمرے جیسا سادہ ہے۔ مجھے یوں بھی (Proxy Fame)سے کوئی دل چسپی نہیں۔ آپ اس داستان کو بھی چاہیں تو سچا قصہ سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا کے مشہور مصور پکاسو کہا کرتے تھے کہ” جو تخیل میں سماجائے، وہ سچ ہے“۔

چلیں، قصہ بیان کرتے ہیں۔ میری اس غیر مسلم دوست کو ہم سب میرو کہتے ہیں۔ ہم دونوں ہم عمر ہیں۔ تکمیل تعلیم تک دونوں ہم مکتب بھی رہیں۔ دو گلیوں کا فرق زیادہ نہ مانیں تو ہم پڑوسی بھی کہے جا سکتے ہیں۔

میری شادی کے دن میرو رخصتی کے وقت سب سے زیادہ روئی تھی۔ میری ماں سے بھی زیادہ۔

میرو اور مواقع پر بھی بہت روئی تھی۔ یہ سب مگر آگے۔ میرو کے یہ ہی آنسو تھے جن کے صدقے یہ شادی جلد ختم ہوگئی۔ میرا کزن، میرا شوہر بوبی بھی کچھ بہت معاملہ فہم نہ تھا۔ میں بھی خاصی خود سر ہوں۔ اس شاد ی کی ناکامی میں ہم دونوں ہی برابر کے مجرم ہیں۔ اماں کو اپنے دکھ بتائے تو انہوں نے بوبی کے ابو، اپنے اکلوتے بھائی اور میرے ماموں کوبتایا۔ چند ہی دنوں میں معاملہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہے بغیر خاموشی سے ختم ہوگیا۔ میری تین سال پرانی شادی کے ٹوٹنے پر میرو اداس بھی تھی مگر ایک طرح سے خوش بھی کہ میں لوٹ آئی ہوں۔

میرو نے شادی نہیں کی۔ اسے بابر تنولی پسندتھا۔ وہ اسے بیب ٹی کہتی تھی۔ ارے ہاں میں یہ بتانا بھول گئی کہ اس قصے میں جو بھی نام ہیں ان میں سے کوئی بھی حقیقی نہیں۔

بیب ٹی سے میرو کے عشق کی ابتدا نویں جماعت سے ہوئی۔ ہم دونوں تازہ تازہ جوان ہوئی تھیں۔ بہت کچھ کرگزرنے کو جی کرتا تھا۔ بیب ٹی کی ڈیوٹی ہمارے ٹونی اسکول پردوپہر میں موبائیل پر لگی تھی۔ ان دنوں اداکار ڈان جانسن کی کرائم ڈرامہ سیریز ”میامی۔ وائس“ پی ٹی وی پر بہت ہٹ تھی۔ ہیرو کی تقلید میں بیب ٹی موبائیل ڈیوٹی پر وردی نہیں پہنتا تھا۔ کاندھوں کے دونوں طرف اسٹریپ والے ہولسٹرز میں ایک کی بجائے دو پستول لگاتا تھا۔ اس کے ماموں سندھ میں کسی اہم عہدے پر تھے سو ان کی طاقت اور اس کی اپنی شخصیت کا سحر۔ بات بنی رہتی تھی۔

میرو کی کار جو ہمیں اسکول لینے آئی تھی اس کے ڈرائیور کا اسکول کے باہر ویگن والے سے گاڑی آگے پیچھے کرنے میں جھگڑا ہو گیا۔ ویگن والا سریا نکال لایا۔ بیب ٹی جانے کہاں سے آیا۔ ویگن ڈرائیور کو کیا مارا کہ وہ نیچے زمین پر پڑا معافیاں مانگ رہا تھا۔ میرو اور بیب ٹی نے غالباً اسی دوران دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ بابر تنولی (اے ایس آئی) نے اپنا رے بن کا آئینہ لینس والا چشمہ اتار کر انگریزی میں کہاASI Baber Tanoli. Always here for you۔ میرو نے بھی اپنا ایسے ہی رنگ برے لینس والا Oversize چشمہ اتار کر اسے دیکھا اور شکریہ ادا کیا۔ انہیں لمحات میں چپ چاپ کوئی واردات ہوئی جس کا مجھے پتہ نہ چلا۔ میں اس دنگے فساد سے بد مزہ ہوگئی تھی۔

میرو بھی واپسی پر کار میں چپ رہی۔ مجھے لگا دو اور دو چار کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا نہیں۔ اس نے بتایا نہیں۔ اگلے دن کار میں اسکول جاتے ہوئے کہنے لگی” وہ بابر تنولی ملے گا تو ہم کہیں گے ہم نے اس کا نام بیب ٹی رکھا ہے۔ میں نے کہا وہ پوچھے گا کہ یہ اجازت دو اسکول گرلز کو کس نے دی ہے۔ جس پر میرو کہنے لگی ”دل نے“۔ میں نے اسے نوعمری کی بے وقوفی سمجھ کر ٹال دیا۔ ہمارے درمیاں ایسے بے معنی مکالمات کی بھرمار رہتی تھی۔

میرا سب سے بڑا بھائی مقابلے کا امتحان دے کر اکیڈیمی لاہور جا چکا تھا۔ اس سے پوچھ کر ہم نے اس کی کتابیں اور نوٹس بیب ٹی کو دے دیے۔ اسے مقابلے کا امتحان دینے کا مشورہ میرو نے دیا تھا۔ دونوں گھنٹوں فون پر باتیں کرتے۔ میرو اور بیب ٹی کا یہ پہلا پہلا پیار تھا۔ اس کی حشر سامانیاں، اللہ کی پناہ۔

میرو دیکھنے میں کیسی تھی۔ آپ نے امریکن پینٹر آنجہانی اسٹیو ہینکس کے پورٹریٹ دیکھے ہیں۔ ویسا ہی دور افتادہ، کھویا کھویا شانت، پر اعتماد وجود۔ چہرہ جیسے تصور بھی تصویر بھی۔ چہرہ اک خواب بھی، چہرہ تعبیر بھی۔ دراز قد، بدن پلا ہوا ورک آﺅٹ کی وجہ سے پراندے کی طرح گندھا ہوا۔ گفتگو شائستہ، انداز محبوبانہ۔

میں چاہتی تو اپنی شادی اور ا س سے جڑی طلاق کا قصہ اب بیان کرسکتی تھی مگر میں نے سوچا کہ اس بیانیے میں خود کو جتنی جلدی میں علیحدہ کر لوں، بہتر ہو گا۔

 سسرال والے گھر سے میری فون پر میرو سے گھنٹوں بات ہوتی تھی۔ لینڈ لائن کا زمانہ تھا۔ ملاقات جب میں امی کی طرف جاتی اس وقت ہوتی تھی۔ میرے سسرال والے سول لائنز سے دور نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے۔ میرو اکیلی تھی۔ بیب ٹی امتحان میں پاس ہوکر پولیس گروپ میں آگیا تھا۔ تربیت کے لیے لاہور جا چکا تھا۔

میرو کا گھرانہ ایسا تھا جہاں فیصلوں میں جلد بازی کو برا سمجھا جاتا تھا۔ پرانے اربن لوگ تھے۔ دنیا دیکھے ہوئے۔ میرو نے جب ہلکے ہلکے لہجے میں ماں کو بتایا کہ بیب ٹی اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ماں نے کوائف پوچھے۔ اس میں وقت کی پہلی گنجائش یہ کہہ کر ڈھونڈ نکالی کہ ابھی وہ پولیس اکیڈیمی میں زیر تربیت ہے۔ واپسی پر دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا۔ تم بھی بائیس برس کی ہو۔ میری مثال بھی دی کہ جلد بازی کی شادی کا کیا انجام ہوا۔ کزن کے ہوتے ہوئے بھی شادی نہیں چل پائی۔ زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے۔ جلدبازی سے بگاڑ آتا ہے۔ تمہارے اس رشتے میں اتنے مختلف نوعیت کے مشکل معاملات ہیں کہ اس پر قابو پانا آسان نہ ہوگا۔ ہم ایک بہت غیر دوستانہ ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔

دوسری جانب بیب ٹی نے میرو کو بتایا شادی کے سلسلے میں اس پر بہت دباﺅ ہے۔ جب وہ کراچی میں تھا تو رشتہ داروں کے ریڈار پر نہ تھا۔ اب نوکری اچھی ہے تو سب ہی رشتہ دار میرے والدین کے پیچھے پڑے ہیں۔ امی کو میں نے لوپ میں لے لیا ہے۔ ایک بہن کی وجہ سے کچھ دباﺅ بڑھا ہے۔ یو۔ نو۔ وٹہ۔ سٹہ۔ میرو کو یہ مال کے بدلے مال والی شادی کا کچھ پتہ نہ تھا۔ بیب ٹی کی بہن ہنزہ حسین تھی لہذا جب نان۔ وٹہ۔ سٹہ والا رشتہ بھی آگیا تووہ اپنے گھر کی ہو گئی

اکیڈیمی سے فارغ ہوتے ہی بیب ٹی سیدھا اپنی امی کو ساتھ لے کر کراچی آیا۔ میرو کی امی نے مناسب جانا کہ رشتہ لانے والوں سے ملاقات میرے فلیٹ پر ہو۔ میرا خیال تھا کہ بات چیت ہوگی مگر وہ انکار کا پروانہ لے کر آئیں۔ پانچ منٹ بعد قدرے ناشائستہ عجلت سے وہ ہم سب کو ہکا بکا چھوڑ کر چلدیں۔ مجھے بیب ٹی اور میرو کی بے بسی یاد آتی ہے تو لگتا ہے ناک میں صحرا کی گرم ریت بھر گئی ہے۔ میرو تین دن گھر نہ گئی میرے پاس ٹھہری رہی۔ کپڑے بھی میرے ہی پہنتی تھی۔ باپ کے دفتر کی طرف سے آنے والے کاغذات گلی میں پھینک دیے جو گندے بھی ہوگئے۔

بیب ٹی واپس جانے سے پہلے آیا۔ کمرے میں بیٹھ کر دونوں نے بہت باتیں کیں وہ میرو نے مجھے بعد میں بتائیں۔ میرو کا ارادہ خودکشی کا تھا۔ اس ارادے سے باز رکھنے لیے ماں اسے لے کر خالہ کے پاس ممبئی چلی گئی۔ بیب ٹی کی شادی اپنی طرف کے کسی ملک کی بیٹی سے ہوگئی۔ میرو کو میں نے نہیں بتایا۔ مجھے لگا کہ اسے یہ سب پتہ تھا۔ اس کا اپنا بھی حلقہ احباب تھا۔ میرے بڑے بھیا سے بھی اس کی گپ شپ تھی۔

میرو کو ایک پارٹی میں ہمارے اسکول کے ساتھی عارف سلیمان نے بہت کہا کہ وہ اس سے شادی کر لے۔ میرو اس کا ٹین ایج کرش تھی۔ اس نے میرے سامنے میرو کو سمجھایا کہ سوائے مذہب کے ان دونوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ رہن سہن، پکوان۔ لباس، بولی۔ دونوں نے جب بھی ساتھ کاروبار کیا بہت مال بنایا۔ ممکن ہے یہ شبھ سمبندھ شادی کے بعد اور بھی رنگ دکھائے۔ شادی کا سوال نہ میرو نے دھیان سے سنا نہ اس کا سلیقے سے جواب دیا۔

دن گزرے تو پتہ چلا کہ بیب ٹی نے پہلی بیوی کو چھوڑ دیا ہے۔ میرو سے بات ہوئی تو کہنے لگا اسے سندھ میں ایس پی کی پوسٹنگ مل رہی ہے۔ میرو شادی پر رضامند ہو تو وہ رشتہ لے کر آ سکتا ہے۔ میرو نے باپ سے بات کی تو over my dead- body  جیسا بھیانک جواب ملا۔ میرو نے جواب سنا تو مجبور ہوکر باپ کے مرنے کی دعا مانگی۔

سال بھر کے اندر بیب ٹی نے دوبارہ وہاں اپنی کسی بیچ میٹ سے شادی کرلی ہے۔ میرو اس اطلاع پر بہت اداس تھی۔ بہت دنوں تک ملک سے غائب رہی۔ واپس آئی تو کہنے لگی جانے اور کتنی مرتبہ مجھے بیٹ ٹی کو کھونا پڑے گا۔ میں تھک گئی ہوں۔

 میرو کے ابو کا انتقال ہسپتال میں ہوا تو میرو کی ماں کا ہاتھ تھام کر وچن لیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں بیب ٹی داماد بن کر گھر میں قدم نہیں رکھے گا۔ مرنے پر میرو جو فیصلہ کرے، اس کی مرضی۔ آنٹی بھی بہت ماہ زندہ نہ رہیں۔ بیماری کے دوران میرو نے صرف اتنا پوچھا Can I marry him Mom? ڈوبتی نحیف سانس اور مدھم کان کے پاس کی گئی سرگوشی میں میرو کو یہ جواب ملاNot till I can breath. Let me be true to my love, my husband. He won’t enter in this house ,as our son in law.۔ یہ گھاﺅ بھی میرو کو گہرا لگا۔ ناشتے پر کہنے لگی میری ماں جیسے لوگ اپنی محبت میں کتنے سچے ہوتے ہیں۔ میں بے بیب ٹی کی محبت کو نہ نبھا پائی۔ میرو یوں تو بہت مضبوط عورت تھی مگر اب خود ہی اپنی بات پر رونے لگ جاتی تھی۔ بیب ٹی کے حوالے سے اس پر ایک ا حساس جرم ہر وقت طاری رہتا تھا

رمضان کے آغاز میں میرو کی والدہ دنیا کو چھوڑ گئیں۔ میرو کو حوصلہ نہ ہوا کہ دم توڑتی ماں سے اپنے محبت کی سودے بازی کرے۔ اس نے انہیں کچھ نہیں کہا مگر آخری لمحات میں میرو کو بیب ٹی سے شادی کی اجازت دینے میں ان کے ہاں مادرانہ فیاضی نہ تھی۔ اکھڑتی سانسوں کو سمیٹ کر کہنے لگیں تمہاری زندگی تمہارے فیصلے I am for Donny .If not than Arif is still like us۔ مجھے یہ بہت بے رحم اعلامیہ لگا۔

ڈونی ممبئی میں تھا۔ ان کی طرف کا ایک مرد۔ جانے کیسا تھا۔ میرو نے کبھی نہیں بتایا۔ عارف بھی طلاق یافتہ تھا۔ بشکک کرغزستان کی کوئی عورت گھر میں ڈال کر بیٹھا تھا۔

ایک بہت راز کی بات بتادوں بیب ٹی نے اپنی دوسری بیگم کو ان دنوں چھوڑ دیا تھا جب آنٹی بیمار تھیں۔ مجھے بتایا کہ بیگم نمبر دو کا اپنا کوئی بچپن کا عشق تھا۔ مذاق کرنے لگا کہ بچپن کا عشق، پچپن تک نہ چلے تو وہ سچا عشق نہیں۔ میں پنتالیس کا اور میری میرو پینتیس کی ہے۔ ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی میری دوست۔

وہ لاہور میں خفیہ پولیس کی پوسٹنگ پر تھا۔ میرو کو والدہ کی تعزیت کا فون کیا تو چاہت کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ فلائیٹس بند تھیں۔ طے ہوا کہ جہاز چلنا شروع ہوں گے تو پہلی فلائیٹ لے کر آئے گا۔ شادی کورٹ میں کر لیں گے۔ میرو اپنے دین پر رہے گی بیب ٹی اپنے پر۔

جب پہلی فلائیٹ اڑان بھرنے کو ہوئی تو بیب ٹی نے آنے کا علان کیا۔ کئی دن پہلے سے ہی میرو نے اس کا کمرہ خاص طور پر سیٹ کیا۔ ایک اسٹڈی میں لیپ ٹاپ۔ شیشم کی لکڑی کا فرش، اے سی۔ لیزی بوائے، سب ساز و سامان نیا تھا۔ طے ہوا کہ شادی میں صرف چھ سات پرانے دوست مدعو ہوں گے۔ سچے عاشق عارف سلیمان نے رات کو اپنے ہاں ڈنر رکھا تھا۔ اس کی بھابھی کا بیوٹی سیلون ہے، میرو کو گھر پر دلہن بنانے کا سب اہتمام تھا۔

جس دن بیب ٹی نے آنا تھا میرو سے میں نے کہا بطور دلہن وہ اکیلی ایرپورٹ نہ جائے۔ یہ بد شگونی ہے۔ مانی نہیں۔ کہنے لگی کہ تیرا بیٹا چھوٹا ہے میرے ساتھ چلنا ٹھیک نہیں ہے۔ ائیر پورٹ کووڈ انیس کی وجہ سے پبلک مقام ہے۔ عارف نے میرے کہنے پر اس کو لے جانے کی حامی بھری۔ میرو کہنے لگی ٹھکرایا ہوا عاشق سارا راستہ مجھے طعنے مارے گا۔

میں نے جب جہاز گرنے کی خبر ٹی وی پر دیکھی تو تو مجھے یقین تھا کہ بیب ٹی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے طیارہ گرنے کی اصل تصویر دو بجے کے بعد سے کچھ کچھ واضح ہونا شروع ہوئی

میرو دوسرے کمرے میں بے ہوش پڑی تھی۔ عارف ہی میرو کو نیم بے ہوش حالت میں ائر پورٹ سے لے کر آیا تھا۔ وہاں لاﺅنج میں موجود لوگوں کی مرضی تھی کہ میرو کو کوڈ مریض بناکر آئی سو لیشن میں لے جائیں۔ عارف کا ڈاکٹر دوست پہنچ گیا تھا۔ میرو کی مرضی تھی کہ اسے جائے حادثہ پر لے جائیں۔ شاید بے ٹی ز ندہ ہو۔

آنٹی کو موت کو ایک ماہ ہونے کو آیا ہے مجھے لگتا ہے انہوں نے اپنا وعدہ اپنے محبوب شوہر سے خوب نبھایا ہے۔ بیب ٹی گھر میں بطور داماد داخل نہیں ہونے دیا۔ میرو جاگے گی تو مجھے کہے گی۔ لوگ اپنی محبت میں کتنے سچے ہوتے ہیں۔ میں بے بیب ٹی کی محبت کو نہ نبھا پائی۔ جانے اور کتنی مرتبہ مجھے بیٹ ٹی کو کھونا پڑے گا۔ میں تھک گئی ہوں۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments