اپنے شاعر چچا عارف عبدالمتین کی یاد میں


یہ میری خوش بختی ہے کہ عارفؔ عبدالمتین میرے چچا تھے۔ وہ نہ صرف اردو اور پنجابی کے شاعر تھے بلکہ ایک نقاد اور دانشور بھی تھے۔ میں نے ان سے اور ان کی شاعری سے ادب اور زندگی کے بہت سے راز جانے۔ انہوں نے میری ادبی اور نظریاتی شخصیت کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

مجھے نوجوانی کا وہ دور یاد ہے جب میں اپنے والدین اور اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ پشاور میں اور میرے چچا جان اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ لاہور میں رہتے تھے۔ میرے والد کی لائبریری میں چچا جان کی شاعری کے مجموعے موجود تھے۔ میں عارف چچا جان کی شاعری بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ ان کی شاعری پڑھنے سے میرے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوا کہ وہ ایک ترقی پسند باغی شاعر ہیں۔ مجھے ان کا ایک شعر اور ایک قطعہ آج بھی یاد ہیں۔ شعر ہے

 چلی جو بار حوادث تو دل نے تن کے کہا
یہ شاخ ٹوٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی
اور قطعہ ہے
تم دربار کے پروردہ ہو ہم پیکار کے رسیا ہیں
تم کیا جانو سر کٹوانا ہم کیا جانیں سر کا خم
زہر کو امرت لکھ نہ سکیں گے ہاتھ قلم ہر چند کرو
اپنا فن ہے حسن صداقت فن کی امانت اپنا قلم

میں اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ ہر دو سال کے بعد اپنی نانی اماں سے ملنے مزنگ روڈ لاہور اور پھر اپنے چچا جان سے تبادلہ خیال کرنے چشتیہ ہائی سکول پرانی انارکلی جاتا جہاں وہ ایک ٹیچر کے طور پر کام بھی کرتے تھے اور اسی سکول میں رہائش پذیر بھی تھے۔

ہماری ملاقات چونکہ مختصر ہوتی اس لیے میں دو سال وہ سوال سوچتا رہتا جو میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا۔ مجھے دو سوال آج تک یاد ہیں۔ پہلا سوال تھا۔ ۔ ۔ چچا جان لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ جرمن فلاسفر شوپنہار کہا کرتا تھا

when the horrors of living outweigh the horrors of dying people commit suicide.
جب زندگی کا دکھ موت کے دکھ سے بڑھ جائے تو انسان خودکشی کرلیتے ہیں

دوسرا سوال تھا۔ ۔ ۔ چچا جان عیسائی کہتے ہیں عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے۔ آپ کا اس کا بارے میں کیا خیال ہے؟ پہلے تو وہ مسکرائے پھر کہنے لگے ’سہیل بیٹا سب انسان خدا کے بچے ہیں اس حوالے سے عیسیٰ بھی خدا کے بیٹے تھے۔‘

عارف چچا جان بڑے سے بڑے اور مشکل سے مشکل سوال کا بے ساختہ اور جامع جواب دیتے تھے۔

جب میں عارف چچا جان کے ساتھ مکالمہ کر رہا ہوتا تو میرا کزن نوروز عارف ’جو مجھ سے کئی سال چھوٹا تھا‘ ہمارے قریب آ کر بیٹھ جاتا اور ہماری باتیں بڑے غور سے سنتا۔ ایک دن نوروز عارف نے کہا ’سہیل بھائی آپ دو گھنٹوں میں ڈیڈی سے وہ سب کچھ سیکھ جاتے ہیں جو ہم دو سال میں نہیں سیکھ پاتے۔‘

عارف چچا کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ انہوں نے اپنے شعری مجموعے کا انتساب اپنے بیٹے نوروز عارف کے نام اس شعر کے ساتھ کیا تھا

تو نے بخشی ہے زندگی مجھ کو
تجھ کو بیٹا کہوں کہ اپنا خدا

عارف چچا جان کے شاعری کے مجموعوں میں اپنے بچوں اور بیگم شہناز کے بارے میں کئی نظمیں ہیں۔ نوروز عارف کے بارے میں ایک نظم کا عنوان۔ ننھا گلچیں۔ ۔ ۔ اور اپنی بیگم کے نام نظم کا عنوان۔ ۔ ۔ ادھوری رفاقت۔ ۔ ۔ ہے۔

بعض دفعہ جب میں عارف چچا جان سے ملنے جاتا تو وہ کسی مشاعرے یا ادبی محفل کی صدارت کرنے جا رہے ہوتے۔ ایک دن چشتیہ ہائی سکول کے گیٹ پر مل گئے۔ انہوں نے معذرت کی اور اپنا ایک شعر سنایا

جب کبھی آتے ہیں میرے پاس آپ
میں نکل جاتا ہوں خود کو ڈھونڈنے
ان کی یاد میں اب میں نے یہ شعر کینیڈا میں اپنی آنسرنگ مشین پر لگایا ہوا ہے۔

ایک زمانے میں عارف عبالمتین وزیر آغا کے ساتھ مل کر ادبی مجلہ ’اوراق‘ نکالا کرتے تھے۔ جب میں ان سے امرتسر کے بارے میں پوچھتا تو وہ اپنے ہمسائے سعادت حسن منٹو اور اساتذہ فیض احمد فیض اوراختر حسین رائے پوری کے واقعات سناتے۔

جب میری عمر بیس برس تھی تو وہ لاہور سے پشاور ہم سے ملنے آئے اور مجھے ایک شام پشاور صدر کے گرینز ہوٹل میں لے گئے جس نے لاہور کے پاک ٹی ہاؤس اور شیزان رستورانٹ کی یاد تازہ کر دی۔ پہلے چائے اور کریم رول آرڈر کیے اور پھر مجھ سے میرے ادبی اور نظریاتی سفر کے بارے میں پوچھنے لگے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں شاعری بھی کرتا ہوں افسانے بھی لکھتا ہوں اور میں نے خدا کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔

وہ میری باتیں بڑے تحمل اور بردباری سے سنتے رہے پھر کہنے لگے

’سہیل بیٹا ہر قوم میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ پہلا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتے ہیں اور دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو روایت کی شاہراہ کو چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی پر چل نکلتے ہیں۔ آپ کا تعلق روایتی اکثریت کی بجائے تخلیقی اقلیت سے ہے۔ لیکن اس اقلیت کو اپنے خوابوں اور آدرشوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے غیر روایتی نظریات کے بارے میں خاموش رہیں اور ڈاکٹر بن کر کسی ایسے آزاد منش مغربی ملک چلے جائیں جہاں آپ اپنے ضمیر کی روشنی میں زندگی گزار سکیں‘

میں نے عارف چچا جان کے مشورے پر عمل کیا اور ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک انسان دوست اور ماہر نفسیات بننے کے خواب لیے پہلے ایران اور پھر کینیڈا چلا آیا۔

کینیڈا پہنچ کر میں نے اپنا ادبی سفر جاری رکھا اور ٹورانٹو آنے کے بعد جب میں نے 1986 سے 1990 کے چار سالوں میں چار کتابیں چھپوائیں تو میرے ادبی دوست بہت پریشان ہوئے۔ انہیں خطرہ لاحق ہوا کہ میں بہت جلد رائٹرز بلاک کا شکار ہو جاؤں گا اور ساری عمر مزید کچھ لکھ نہ پاؤں گا۔

میں عارف چچا جان سے مشورہ کرنے نیویارک گیا جہاں وہ اپنے بیٹے نوروز عارف سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں نے کون سی چارکتابیں چھپوائی ہیں میں نے کہا

تلاش۔ ۔ ۔ شاعری کا مجموعہ
زندگی میں خلا۔ ۔ ۔ افسانوں کا مجموعہ
سوغات۔ ۔ ۔ عالمی ادب کے تراجم
انفرادی اور معاشرتی نفسیات۔ ۔ ۔ مقالے

چچا جان نے میری ادبی کہانی اور نفسیاتی مسئلے کی تفاصیل سننے کے بعد مشفقانہ انداز میں کہا ’سہیل بیٹا۔ ادیب بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے جو تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں اور اسی دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ایسے ادیب اور شاعر جلد تھک جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ ان ادیبوں کا ہے جو زندگی کے حقائق سے جڑے ہوتے ہیں وہ مرتے دم تک لکھتے رہتے ہیں۔ آپ کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے اس لیے آپ بالکل بے فکر ہیں۔ آپ زندگی میں بہت سی کتابیں لکھیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ نے چار سال میں چار شعری مجموعے نہیں چھپوائے بلکہ وہ چار اصناف سخن کی پہلی پہلی کتاب ہے‘

عارف چچا جان سے بات کر کے مجھے کافی حوصلہ ملا۔ چند سال بعد مجھے یہی خیال ورجینیا وولف کے شوہر لینرڈ وولف کی سوانح عمری میں ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ورجینیا وولف جب ڈیپریشن کا شکار ہوتی تھیں تب بھی وہ تھوڑی دیر کے لیے محفلوں میں شریک ہوتی تھیں تا کہ اپنے اگلے ناول کا ہوم ورک کر سکیں۔

عارف چچا جان کے ساتھ ادب اور شاعری کے رازوں کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ ایک دن کہنے لگے کہ غزل کا اکثر اوقات ایک شعر ہی جینون ہوتا ہے باقی اشعار بھرتی کے ہوتے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ انہوں نے فردیات کا ایک مجموعہ۔ ۔ ۔ موج در موج۔ ۔ ۔ شائع کیا ہے جس میں پانچ سو کے قریب فردیات ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر ان فردیات کو غزل کا حصہ نہیں بنایا۔ اس مجموعے کی چند فردیات حاضر خدمت ہیں

اپنی پہچان کرنے نکلا تھا
ایک عالم سے روشناس ہوا
میں تمہیں ڈھونڈنے نہ نکلوں گا
سوچ کر مجھ سے تم جدا ہونا
لوٹ آئی ہو چشم نم لے کر
خوش نہ آئی ہوا زمانے کی
عارف چچا جان کا تخلیقی اور نظریاتی سفر روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی کا سفر تھا۔

ان کی غزلوں کے آخری مجموعے کا نام۔ ۔ ۔ حرف دعا۔ ۔ ۔ ہے جس کا مزاج ان کے پہلے مجموعے۔ ۔ ۔ دیدہ و دل۔ ۔ ۔ سے بہت مختلف ہے۔ لکھتے ہیں

میں حرف دعا کا سلسلہ ہوں
عالم کی نجات چاہتا ہوں
مقتول کی مغفرت کا طالب
قاتل کی طرف سے خوں بہا ہوں

زندگی کی آخری دنوں میں کہنے لگے ’سہیل بیٹا بعض دفعہ شعر کا صرف ایک مصرعہ جینون ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ بھی بھرتی کا ہوتا ہے۔‘ اس حوالے سے انہوں نے اپنی یک مصرعی نظموں کا مجموعہ۔ ۔ ۔ دھوپ کی چادر۔ ۔ ۔ چھپوایا۔ جس میں پانچ سو کے قریب یک مصرعی نظمیں ہیں اور ہر نظم کا اپنا جداگانہ عنوان ہے۔ ایک مثال حاضر ہے

عنوان۔ ۔ ۔ کتبہ
نظم۔ ۔ ۔ زیر زمیں گیاہو وہ اپنے سراغ میں

عارف چچا جان نہ صرف مجھ سے محبت اور شفقت سے بلکہ بڑے احترام سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی کتاب کا تحفہ دیتے ہوئے لکھا

’نہایت پیار کے جلو میں
عزیز مکرم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کی نذر
۔ جن کی بے کنار بصیرت اور بے پایاں جذباتی رفعت کا
میرے دل میں بڑا احترام ہے۔ ۔ ۔ عارف عبدالمتین ’

میں جو بچوں اور نوجوانوں سے احترام سے پیش آتا ہوں اور نئے شاعروں اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں یہ سبق میں نے عارف چچا جان سے ہی سیکھا تھا۔ یہ وہ قرض ہے جو میں لوٹانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

جب نوروز عارف کا بیٹا سروش ’جو نیویارک میں ایکٹنگ سیکھ رہا ہے‘ مجھ سے ملنے مونٹریال آیا اور اپنے دادا جان کے بارے میں سوال پوچھنے لگا تو میں نے اسے عارف چچا جان کی دانائی کی باتیں اور حکایتیں سنائیں اور کہا کہ میں ان کا بھتیجا تھا اور تم میرے بھتیجے ہو اور ایک دن تم یہ باتیں اور حکایتیں اپنے بھتیجے تک پہنچاؤ گے کیونکہ یہ دانائی کی وراثت ہمیں اگلی نسلوں تک منتقل کرتے رہنا چاہیے۔

عارف چچا کی شخصیت اور مزاج میں فیض احمد فیض کی شخصیت کی طرح نرمی اور دھیما پن تھا۔ آخری ملاقات کے موقع پر کہنے لگے ’اب رخصت ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ مجھے موت کی چاپ سنائی دیتی ہے۔‘

یہ میری خوش قسمتی کہ میں نے زندگی کی چند شامیں اپنے شاعر چچا جان عارف عبدالمتین کی صحبت میں گزاریں اور وہ چند دن میرے پاس کینیڈا آ کر درویش کی کٹیا میں رہے۔ ان کی یادوں کی خوشبو ان کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے برسوں بعد بھی میرے قلب اور ذہن کو معطر رکھتی ہے۔

اکثر اوقات میں رات بارہ بجے نیند کی وادی میں اتر جاتا ہوں لیکن آج عارف چچا جان کی یاد میں یہ کالم لکھتے لکھتے رات کے دو بج گئے ہیں۔ رخصت ہونے سے پہلے آپ کو عارفؔ عبدالمتین کا ایک اور شعر سناتا جاؤں

اپنی کہتے رہو ’میری سنتے رہو‘ داستاں داستاں سے ملاتے رہو
جونہی جلتے رہیں ’درد کے قمقمے‘ رات جب تک رہے درمیاں دوستو

Arif Abdul Mateen ( Seated 2nd from Right)
ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments