رند مشرب رقاصہ اور عورت کا اظہار


کاشف گرامی نے دبے لہجے میں کہا، ”یہ ماضی کی اداکارہ مہرین کی بیٹی ہے۔ مہرین جو ’اَنا‘ کی ہیروئن تھی۔ وہ دیکھیے، وہ بیٹھی ہے لیکن آپ پہچان نہیں پائیں گے“۔
وہ دھان پان سی لڑکی جو میرے بچپن میں ٹی وی سیریز ’انا‘ کے ٹائٹل رول میں جلوہ گر ہوئی تھی، اب بالکل نہیں پہچانی جا رہی تھی. جوانی انعام ہے تو بڑھاپا ضرور فطرت کا انتقام ہو گا۔ حِسین لوگوں کو بوڑھا نہیں ہونا چاہیے، یا بوڑھوں کو حسین رہنا چاہیے. کراچی آرٹس کونسل کے اوپن ایئر میں موجود بہت سے شرکا، غل نما موسیقی سے لا تعلق، ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے۔ لیکن اس بچی کے رقص نے قریب قریب سبھی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ مہرین الہی کی بیٹی اپنے چہرے مہرے سے بارہ تیرہ برس کی لگتی تھی، لیکن بعض جسمانی علامتیں چغلی کھاتی تھیں کِہ وہ بچی بائیس تئیس سال کی ہو سکتی ہے۔ میرے لیے ہی نہیں، شاید وہاں موجود کسی کے لیے بھی اُس کی عمر کا تعین کرنا آسان نہ رہا ہو گا۔ اُس کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی کہا جا سکتا تھا کِہ وہ بچی ’اسپیشل چائلڈ‘ ہے۔

رقص کرتے اُس کے قدم ایسے نپے تلے پڑتے تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا، بچی نے رقص کی بنیادی اسباق لے رکھے ہیں۔ جس مست عالم میں وہ ناچ رہی تھی، وہ بے نیازی کسی مجنون کا نصیب ہوتی ہے یا اپنے ظرف سے بڑھ کے جام لنڈھانے والے کی بے بسی کا مظہر۔ میرے لیے اسے ناچتے دیکھنا ایک دِل چسپ تجربہ تھا۔ لہذا میں سب سے بے پروا ہو کے اُس کے ’اسٹیپ‘، اُس کے چہرے کے پل پل بدلتے تاثرات نوٹ کرنے لگا۔ پر نہ میں اُس لمحے پیے ہوئے تھا اور نا مجنون بننا ہر کس و نا کس کے اختیار میں ہوتا ہے، سو اس بچی کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا، کسی کی نگاہیں میرے چہرے پر جمی ہوئی ہیں۔ نگاہوں کی حدت میرے داہنے ہاتھ سے آ رہی تھی اور مجھے معلوم تھا، وہاں کاشف گرامی کے پیچھے کون بیٹھا ہے۔ اس معاملے میں عورتیں مرد سے حساس ہوتی ہیں۔ وہ جان لیتی ہیں، کون ان کی طرف متوجہ ہے کون نہیں. کسی کا قول ہے، ’عورت کے لیے مرد کو دھوکا دینا آسان ہے، کیوں کہ مرد اپنی ذات میں کھویا رہتا ہے، جب کِہ عورت جس سے جڑی ہو، اس کے معمولات میں ذرا سی تبدیلی بھی اُسے ہشیار کر دیتی ہے۔ حیف! مرد اپنی ہی محبت میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے دھوکے میں ہوتا ہے جو خود کی محبت میں گرفتار ہو۔ جب کِہ عورت جس سے محبت کرتی ہے، اُس کی ذات کو اپنی ذات میں سمو لیتی ہے اور یوں اپنے آپ (محبوب) میں ہونے والی تبدیلیاں نوٹ کر لیتی ہے۔

میں کچے پکے فسانے تو گھڑ لیتا ہوں لیکن سچ کہوں تو میں حقیقت پسند آدمی ہوں۔ کھلی آنکھوں میں ہزار سپنے ہوں مگر کسی کو اپنی طرف متوجہ پا کے، اُس کا ایک ہی مطلب نہیں لیتا کِہ دیکھنے والی مجھ پر مر مِٹی ہے۔ مجھے خیال آیا، مجھے فسانوں کی تلاش رہتی ہے تو میرا یہ دِل خود سے جھوٹا اک فَسانہ بنا رہا ہے. ذہن نے کہا، فَسانہ تو ترے سامنے محوِ رقص ہے، ادھر دھیان دے۔ ناچتی بچی نے میرا یوں غور سے اپنی طرف تکنا محسوس کر لیا تھا (کیا ذہنی طور پہ پس ماندہ عورت کی حسیات بھی، ایک صحت مند مرد کی حسیات سے مضبوط ہوتی ہیں؟)۔

جھومتے ہوئے پہلے پہل اُس نے اَن جان بن کے کنکھیوں سے مجھے دیکھا کِہ میں کیوں اس میں گم سم ہوں۔ پھر میری آنکھوں میں باپ کی سی شفقت دیکھ ہی کر مسکرائی ہو گی، ورنہ کیا وجہ تھی کِہ مسکراتی!؟ بیچ بیچ میں وہ سرشاری سے یوں ہنستی تھی، جس سے اُس کی ذہنی پس ماندگی کا پتا چلتا تھا۔ میں نے خود کو بڑی مشکل سے روک رکھا تھا کِہ سر گھما کے اپنے داہنی طرف نہیں دیکھنا، جہاں بیٹھی وہ، مجھے اسی محویت سے دیکھ رہی (ہو گی) تھی، جس توجہ سے میں بچی کا رقص دیکھ رہا تھا (مرد اپنی ذات سے باہر کچھ نہیں دیکھتا، یا مرد جان بوجھ کر اَن جان بننے پر قادر ہے؟)۔

گانا ختم ہوتا تو بچی ٹھیر جاتی۔ اگلے گانے پر وہ پھر سے رِدھم کا ساتھ دینے لگتی۔ بچی کو احساس ہو چکا تھا کِہ مجمِع میں کوئی اُس میں سب سے زیادہ دِل چسپی لے رہا ہے، تو وہ میں ہی ہوں۔ گانا ختم ہوا تو سب نے تالیاں بجا کے بھرپور داد دی۔ وہ دیوانی اس بار سیدھا میری جانب لپکی اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دِیا۔ میں نے اُس کا ہاتھ تھام کے کمر کو خم دیتے، اپنا سر جھکایا کِہ مجھے اس دَم، داد دینے کا یہی انداز سجھائی دِیا۔ ایسے میں میرے داہنی اَور سے ایک تیز شعلہ سا لپکتا آیا اور میرے گال سے آ چپکا۔ انوراگی نینوں نے عقیدت کا اظہار کیا ہو گا۔ یہ سوچ کے میرے رُخسار دَہک کے لال رنگ ہو گئے۔

میرے داہنے ہاتھ پر بیٹھا کاشف، کسی کام سے اُٹھ کر گیا تو اُس سَمت سے آنے والی آنچ اور بھی تیز ہو گئی۔ گویا ’مَفل‘ ہٹ گیا تھا۔ ”آپ یہاں پاس ہو جائیے“۔ شیریں لہجے میں بلاوا تھا۔ میں سَرک تو گیا مگر فاصلہ مٹانے کی جرات مجھ میں نہ ہوئی۔ ناچ گانے کا یہ تماشا اس کے بعد بھی کم و بیش پندرہ بیس منٹ چلتا رہا۔ مجھے فکر ہوئی کِہ بچی ناچ ناچ کے تھک نہ گئی ہو لیکن بظاہر اس کی ماں کو ایسی کوئی فکر نہ تھی۔ نہ جانے یک دَم مجھے کیا ہوا کِہ محفل سے اُٹھ کے باہر کی راہ لی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

”ہیلو“۔
”ہائے“۔
”کل ’اُردو میلے‘ کا لاسٹ ڈے تھا۔ آپ آرٹس کونسل نہیں آئے“؟
”مصروف تھا۔ نہیں آ سکا“۔
”اُس دن کس سے ملاقات ہوئی جو حیرت انگیز بھی تھا“؟
”رقص کرتی وہ ابنارمل بچی“۔
”مجھ سے زیادہ حیرت انگیز“؟
”آپ حیران کن تو نہیں نِکلیں. ہاں! آپ کی آنکھیں اندر اُترتی محسوس ہوئیں“۔
”ایک اور خاتون مجھے ملیں تھیں وہاں۔ مجھے تنہا دیکھ کر آئیں اور کچھ بات شروع کی۔ کچھ دیر میں نمبر بھی لیا اور کہا کِہ میں اکیلی ہوں، کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گی؟ ایسے میں آپ دکھائی دیے اور میں نے ان سے کہا، بی بی میں اِن کے ساتھ ہوں۔ لہذا آپ کے ساتھ جانے سے انکاری ہوں“۔
”یہ خاتون مجھے کیوں نہ ملیں“؟
”چھوڑیے. آپ کی شخصیت زیادہ کرشمہ ساز تھی۔ بس! کم بخت سیلفی یاد نہ رہی۔ بہت ذہین اور متین شخصیت ہیں آپ۔ میں بہت ہی خوش نصیب ہوں کِہ آپ سے ملاقات ہوئی۔ چاہے چند لمحے ہی سہی۔ بہت کم مرد وجیہ ہونے کے ساتھ ذہین بھی ہوتے ہیں“۔
”بس کر دیں۔ مجھے بد ہضمی ہو جائے گی۔ بے وقوف بننے کا احساس ہو رہا ہے“۔
”آپ کی روشن جبین آپ کو اپالو تو ثابت کرتی ہے، بے وقوف ہرگز نہیں۔ شاعری کی صورت گری ہو تو آپ ہی سامنے آئیں گے۔ میرے آئینہ خانے میں ایک ہی صورت ہے، اس لیے اپنے حصے کے آسماں کی بات کر رہی ہوں“۔
”اگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی، تو کہتا یہ کسی مرد کی فیک آئی ڈی ہے، جو ماموں بنا رہا ہے۔ آپ ماموں بنا رہی ہیں؟ یا فلرٹ کر رہی ہیں؟ یا سچ میں محبت کا اظہار“؟
”فلرٹ؟ وہ کیا ہوتا ہے“؟
”شکر ہے آپ کو ’ماموں‘ اور ’محبت‘ کا پتا ہے“۔
”محبت کا اچھی طرح پتا ہے لیکن بس اب نہیں ہوتی“۔
”خدا ترا دِل اور پہلو دونوں آباد کرے“۔
”دِل تو میں نے آباد کر لیا ہے اور پہلو آباد کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آپ ہی پہلو بچا رہے ہیں“۔

میں کچے پکے فسانے تو گھڑ لیتا ہوں لیکن سچ کہوں تو ہوں حقیقت پسند آدمی۔ کھلی آنکھوں میں ہزار سپنے ہوں مگر کسی کی ایسی بے تکلفی کا ایک ہی مطلب نہیں لیتا کِہ ایسا کہنے والی مجھ پر مَر مِٹی ہے۔ میرا خیال ہے، مجھے فَسانوں کی تلاش رہتی ہے تو میرا یہ دِل خود سے جھوٹے فَسانے گھڑ لیتا ہے۔

اُلجھن: آپ نے یہ جھوٹی سچی پڑھ لی، اب ایک بات تو بتائیے، کیا اظہار میں جرات کا مظاہرہ کرنے والی عورت، ایک بزدِل مرد کے لائق ہوتی ہے؟ نہیں نا؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments