وائٹ ہاؤس کے کتے


بوقت تحریر، امریکہ کے کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے۔ وجہ وہ لاکھوں مظاہرین ہیں، جو جارج فلوئیڈ کے قتل پر سیخ پا ہیں۔ جارج فلوئیڈ کو شک کی بنا پر گرفتار کیا جا رہا تھا۔ شک یہ تھا کہ اس نے دکان دار کو 20 ڈالر کا نقلی نوٹ تھمایا تھا۔ جارج فلوئیڈ کو گرفتاری کے دوران مبینہ مزاحمت کے پیش نظر زمین پر لٹا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھا گیا۔ یہ 8 منٹ 46 سیکنڈ اس کی زندگی کے طویل ترین اور سنگین ترین 8 منٹ 46 سیکنڈ ثابت ہوئے۔

وہ 6 منٹ تک چیختا رہا، میرا سانس رک رہا ہے، میرا دم گھٹ رہا ہے، مگر اس کی ایک نہ سنی گئی۔ اقدام قتل کے مجرم پولیس افسر کے ساتھی بھی کہتے رہے کہ اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے، مگر جارج کی گردن سے گھٹنا نہ ہٹایا گیا۔ جارج بے سدھ ہو گیا، مگر پھر بھی مزید 2 منٹ تک اس کی گردن کو گھٹنے تلے دبائے رکھا گیا۔ با لآخر، جارج مر گیا۔

اس موت کی ویڈیو نے سیاہ فام نسل کے ساتھ ساتھ نہ صرف امریکہ، بلکہ پوری دنیا کی ہر رنگ کی نسل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ظلم کی اس داستان نے افریقی امریکیوں کے سارے زخم ہرے کر دیے ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ کا زمانہ، سول وار کا زمانہ، سیاہ فام افریقی امریکیوں کی نسل کشی کا زمانہ، ایک دفعہ پھر لوٹ آیا لگتا ہے۔ نسل پرستی کے جس افریت کو ابراہم لنکن نے 1863 میں دفن کرنے کی کوشش کی تھی، نسل پرستی کے جس افریت سے 100 سال تک سیاہ فام لڑتے رہے ہیں، جانیں دیتے رہے ہیں، عصمتیں گنواتے رہے ہیں، دنیا محسوس کر رہی ہے کہ وہ افریت پورے جاہ و جلال کے ساتھ زندہ ہو گیا ہے۔ ایک رنج ہے، جس نے ساری دنیا کو جھنجھوڑ دیا ہے۔

ہمارے ہاں تو ساہیوال اور ماڈل ٹاؤن کے بعد ٹویٹر پر ڈھول پیٹنے کے علاوہ کچھ نہ کرنے کا رواج ہے، مگر امریکہ میں، جہاں میڈیا اور سوشل میڈیا ہم سے کہیں زیادہ صاحب شعور اور صاحب طاقت ہے، وہاں لوگ صرف کی بورڈ پر احتجاج کر کے ہیرو گیری نہیں دکھاتے، وہ باہر نکل کر احتجاج کرتے ہیں، اور حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ حکمران ان کے محتاج ہیں۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف بھی رخ ہوا۔

29 مئی کی رات وائٹ ہاؤس کا گھیراؤ ہوا۔ صبح کے وقت ٹرمپ ماسٹر نے ٹویٹر پر پیغام دیاکہ اگر یہ لوگ گیٹ توڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے تو ان پر وحشی کتے اور جدید اصلحے سے حملہ کیا جاتا۔ اور اس بات کو پڑھ کر سب سے پہلا سوال جو ہمارے کنج ذہن میں اٹھا ہے، وہ یہ ہے کہ آخر صدر ٹرمپ کے ہوتے ہوئے، وائٹ ہاؤس میں وحشی کتے رکھنے کی کیا ضرورت؟

ہمارا مطلب ہے کہ جب ایک منتخب صدر موجود ہے، اور عوام احتجاج کے لیے آئے ہیں، تو ان سے گفتگو کر کے، داد رسی کرنے کے بجائے، ان پر کتے چھوڑنے کی دھمکیاں دینے کی آخر کیا منطق ہو سکتی ہے؟ یقیناً صدر ٹرمپ یا تو احتجاج کرنے والوں کو عوام نہیں سمجھتے، یا پھر خود کو عوام کا منتخب نمائندہ ماننے کو تیار نہیں۔ بہر کیف، ٹرمپ کے ہوتے ہوئے، وائٹ ہاؤس میں وحشی کتوں کا رکھنا، ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔

حدیث کہتی ہے کہ مؤمنین ایک جسم کی مانند ہیں۔ جس طرح جسم کا کوئی ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم تڑپتا ہے، کوئی ایک مؤمن تکلیف میں ہو، سارے رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں تو کم سے کم ایسا ہوتا نہیں دیکھا ہے۔ ہاں مگر جارج فلوئڈ کے قتل کے بعد اس کی جھلک ضرور نظر آئی ہے۔

جارج فلوئڈ کا قتل ایک اور بحث کا موجد بھی بن گیا ہے۔ ڈیرک شوان کو قتل کے باعث نوکری سے برخواست کر کے اس پر تھرڈ ڈگری قتل کا مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔ اور عوام کا مطالبہ ہے کہ اس مقدمے کو تھرڈ سے فرسٹ نہیں تو کم سے کم سیکنڈ ڈگری قتل کے مقدمے میں تبدیل کیا جائے۔ فرسٹ ڈگری قتل سے مراد ایسا قتل ہے جس میں قاتل نے پورا پلان تیار کر کے پورے ہوش و حواس میں قتل کیا ہو۔ تھرڈ ڈگری قتل وہ ہے جسے مین سلاٹر بھی کہا جاتا ہے۔

یعنی جھگڑے کے دوران ایک آدمی دوسرے کو قتل کر دے۔ سیکنڈ ڈگری آپ سمجھ جائیے کہ کوئی چیز نہیں ہے بس فرسٹ اور تھرڈ کے بین بین ہے۔ چلیے آسانی کے لیے یوں کہہ لیتے ہیں کہ سیکنڈ ڈگری قتل میں ارادہ قتل ثابت ہوتا ہے، پر پلاننگ موجود نہیں ہوتی۔ کیسی کمال کی قوم ہے۔ کس قدر باریکی سے معاملات کا جائزہ لیتی ہے، پر ملال ہے، پر عزم ہے، اور انصاف کے لیے سڑکوں پر ہے۔

محو حیرت ہوں، ہمارے یہاں بھی تو حکومتیں بے حس اور پولیس والے قاتل ہوا کرتے تھے، اور اب بھی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تو ساہیوال ہے۔ وہاں بھی بچے کراہتے رہ گئے ہوں گے کہ انکل بس کریں، میرے امی ابو کو سانس نہیں آ رہا، دم گھٹ رہا ہے، اور گولیاں مت ماریں۔ یہاں بھی تو ماڈل ٹاؤن ہے۔ یہاں بھی تو حاملہ عورت کا ان جنا بچہ سانس گھٹنے سے مرتا ہے۔ یہاں بھی تو ایک منچلے کو پولیس اتنا مارتی ہے کہ وہ ہنستے روتے پوچھ لیتا ہے، یار ایسا مارنا کہاں سے سیکھا۔

یہاں بھی کمیشن بنتے ہیں، رپورٹیں نہیں آتیں۔ امریکہ کو پہلی بار ٹرمپ ملا ہے، ہمارے تو ہر حکمران میں ٹرمپ والی روح رہی ہے۔ پھر ہمارے ہاں عوام کسی کے نا حق قتل پہ باہر کیوں نہیں آتے؟ ہمارے ہاں اسمبلیوں میں نیب اور کرپشن اور کمیشنوں کے علاوہ عوامی حقوق کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ ہمارے ہاں کیوں مائیں بیٹیاں جب باپ بھائی کی تلاش کے لیے روتی ہیں تو عوام باہر نہیں آتے؟ غربت اور کورونا سے تو امریکہ بھی اس وقت ہماری طرح ہی دوچار ہے۔ پھر کیا ماجرا ہے کہ لوگوں کی لعشیں بھی لواحقین کو نہیں ملتیں اور ہماری نوجوان نسل ٹویٹر سے باہر نہیں نکل پاتی؟

پچھلے کچھ دنوں میں امریکی حکومت، امریکی پولیس، پاکستانی حکومت اور پاکستانی پولیس سے کچھ مختلف نظر نہیں آئی۔ فرق نظر آ رہا ہے تو صرف اور صرف عوامی انسانی ہمدردی اور عوامی انسانی شعور میں۔

ہمیں جارج فلوئڈ کے قتل کا سنگین ترین رنج ہے۔ یقین جانیے، یہ رنج امریکہ میں تو آج پہنچا ہے، ہمارے ہاں تو یہ رنج 70 سال پرانا ہے۔ ہر روز سینکڑوں جارج فلوئڈ کشمیر اور بھارت میں بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کروڑوں لوگ ان کی ویڈیو دیکھتے ہیں، بوٹوں سے، ٹھڈوں سے، ڈنڈوں سے مار مار کر مار دیے جاتے ہیں۔ عصمتیں لوٹ کر نمائشیں کی جاتی ہیں۔ مگر کوئی دادرسی نہیں کرتا۔ اور یہ سارا ظلم اسی نسل پرست سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کا شکار 25 مئی کو جارج فلوئڈ ہوا۔ مگر افسوس، ہمارے ہاں اب غیرت صرف عورتوں پر زدوکوب کے کام آتی ہے، مظلوم کی داد رسی کے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments