اگر مجھے کورونا ہوا تو۔ ۔ ۔


میں نے اپنی کمزوری کو ہمیشہ طاقت بنانے کی مشق کی ہے۔ مگر جب خطرہ جاں ہو تو پھر خدانخواستہ بھی کہتا ہوں، اول تو زندگی پیاری ہے، دوم کچھ لوگوں کی زندگی سے میں وابستہ ہوں۔ یہ سوچ زندگی کی لالچ بڑھا دیتی ہے۔ ورنہ ایسے معاشرے میں کیا جینا اور کیا مرنا جہاں دنیا کی دہائیاں بھی بے اثر جارہی ہیں۔ جہاں زندگی دم توڑ رہی ہے، جہاں مسیحا لقمہ اجل بن رہے ہیں، جہاں معصوموں کے ہاتھ سے کھلونے گر کے چکنا چور ہو رہے ہیں۔

وہاں میری دکان کا شٹر ڈاؤن تھا اور اندر کاروبار تھا، وہ کاروبار کہ جس کے لیے جینا شرط تھی، وہیں یہ شرط ہم ہار رہے تھے۔ ہم کسی کی نہیں مان رہے، ہم دلیری اور حماقت کی لکیر پہ لہراتے چل رہے ہیں، کبھی ایک طرف جھولتے ہیں، کبھی دوسری طرف۔ انجام کیا ہو گا، یہ تقدیر کی کتاب میں بند ہے۔ میری احتیاط اب مجھے کارگر نظر نہیں آرہی، میں جسے حصار سمجھتا تھا وہ تو آگ کے بگولے تھے، ذرا سی پھونک پہ بھڑک اٹھیں گے جلا کے خاکستر کر دیں گے۔

مگر خیر جو ہونا ہے، اس کا سامنا تو کرنا ہو گا، تکلیفیں اور زحمتیں بعض اوقات نہیں اکثر اوقات ہم دوسروں کی وجہ سے جھیلتے ہیں۔ فروری کی پہلی پوسٹ، جو چین میں کورونا کے آنے پہ کی تھی، اس سے لے کر آج اس لمحے تک میں نے جتنی لالچ اپنی زندگی کے لیے کی اتنی ہی کوشش دوسروں کے جینے کے لیے بھی کی۔ میں جس قدر مقتدر تھا اتنا ہی حصہ ڈال سکتا تھا۔ سند یافتہ سماج میں الفاظ اتنے موثر نہیں ہوتے یا پھر میرے موضوعات بے محل اور بے وزن تھے کہ جو ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

میں الزام تراشی کو اور انگشت درازی کو ہمیشہ توہین سے تعبیر کرتا ہوں۔ مگر بلاشبہ میرے وطنوں نے بہت باریک بینی اور باقاعدگی سے اس وائرس کو پھیلایا ہے۔ میری زندگی کو وائرس سے نہیں بلکہ ان مہربانوں سے خطرہ ہے جو وائرس کو پھیلانے کا موجب ہیں۔ اس الزام سے انہیں میں بری کر بھی دوں تو کسی اعلی اور حتمی عدالت میں مجھے موقع ملا تو ان کے خلاف، ان کی ہی اولاد کے لیے لاپرواہی برتنے کا مدعی میں بنوں گا۔ کیونکہ اس نسل کو جینے کا حق تھا وہ شعوری تبدیلی کی امید رہے ہوں گے ۔

برصغیر میں لوگوں کے ساتھ کئی المیئے رہے ہیں، اکثر محصور ہو کے مرتے رہے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی مثال ہی لے لیجیے مملکت میں سیاسی طاقت کھونے کے بعد، فن و ادب کے میدان میں ڈیرہ ڈال لیا۔ جناب ابرہیم زوق نے شاہ کے ادبی ذوق کو خوب تقویت بخشی مگر وہ نورتن موجود نہیں تھے جو اکبر کے ہاں تھے۔ ورنہ کچھ خبر گیری ضرور رکھتے اور کہتے کہ بادشاہ سلامت آپ جو گہوارہ حکومت جھول رہے ہیں، اس کا جھولا اتنا خطرناک ہے کہ اڑا کے رنگون لے جائے گا۔

بہت ہمدرد اور نفیس مزاج انسان تھے مگر وقت کی چال سے بے خبر وظیفے کی بڑی قیمت چکا رہے تھے۔ مہارانہ پرتاب، بادشاہ اکبر اور شیوا جی کی اولادیں انگریز کے خلاف ایک ہو گئی تھیں۔ بہادر شاہ کو جنگ آزادی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سبھی سپاہی بلا امتیاز مذہب و نسل بنگال، لکھنؤ اور میرٹھ میں انگریزوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا کارتوس ہرگز نہ چلائیں گے کہ جس میں غلیظ جانور کی چربی ہو۔

بغاوتیں تھیں اور سپاہی ہندوستان کے دفاع کے لیے ٹولیوں میں اکٹھا ہو رہے تھے۔ مگر بادشاہ سلامت کی دہلی انہی کے ہاتھوں تاراج ہو رہی تھی کیونکہ وہ اس کام یعنی امور سلطنت کو صرف ہوتا دیکھ رہے تھے۔ مخبری بھی کی تو اپنے ہی ہم مذہب حکیم احسن اللہ نے کہ جہاں پناہ ہمایوں کے مقبرے کے آس پاس قبروں کی اوٹ میں بیٹھے ہیں۔ بس پھر اولاد گنوائی، حق حکمرانی گنوایا، توہین برداشت کی، تذلیل کروائی اور تمام سامان درد لے کر باقی کی اچھائیوں کو سمیٹے آخری پانچ سال رنگون گزارے۔

ہر دور کی اپنی جنگ ہے، ہر زمانے کی اپنی دہلی اور ہر وقت کا اپنا لال قلعہ ہوتا ہے۔

موجودہ عہد بیماریوں سے جنگ کا عہد تھا، ڈینگی سے لوگ مرتے دیکھے اور اب اس کورونا کا چرچا ہے۔ مگر ہم کبھی کسی جنگ کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ صرف اتنا سنتے ہیں کہ پھیل رہا ہے، دیکھو وہ پھیل رہا ہے، یہ اور پھیلے گا۔ ایسی بشارتوں میں جینے کی لذتیں سونگھنے اور چکھنے کی حس جانے سے قبل ہی ہوا ہو جاتی ہیں۔ زندگی کے ارمان جو کبھی لطیف کروٹیں لے کر نئی امنگیں جگاتے تھے، آج وہ من کے اندر بے سدھ پڑے ہیں۔ مگر میں قدرت کا شکر ضرور ادا کروں گا کہ میں مکمل شانت ہوں، کوئی ذہنی دباؤ نہیں، مجھے ان دنوں بہت سے اچھے لوگوں سے آشنائی ہوئی، مجھے درد رکھنے والے لوگوں کی رفاقت نصیب ہوئی، خیالات کا تبادلہ ہوا۔

بہت اچھے ڈاکٹر ملے جنہوں نے مجھے ایسے عالم میں مفید مشورے دیے۔ میں نے اپنی بڑی بیٹی کے اس احساس کو مزید مضبوط کیا کہ وہ پوری گواہی دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قدرت نے اسے مکمل انسان بنایا ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتی ہے، اس کے اندر برے بھلے کی تمیز کرنے کی قابلیت ابھر رہی ہے۔ وہ مجھ سے بے تکلف ہے مگر بدتمیز نہیں۔ ۔ ۔ اسے اعتماد ملا ہے، اس وقت جب ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے، تب وہ ایک بھرپور کرکٹر بن رہی ہے۔ اب تک کرکٹ اس کا جنون ہے، میں نے اس سے التجا کی ہے کہ کبھی اپنے اندر سے دغا نہ کرنا، ساری زندگی تمہاری ذات اس حق تلفی کا گلہ کرتی رہے گی۔

میں نے کبھی کامیابی کو مادیت کے روپ میں نہیں دیکھا، میرے نزدیک اگر آپ اپنے موقف کو سمجھتے ہیں اور اس پہ تبادلہ خیال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو آپ ایک کامیاب آدمی ہیں۔ زندگی کبھی اکیلے نہیں جی جا سکتی بلکہ یہ ہمیشہ ایک متحرک اور ترقی پسند سماج میں جیتی ہے، ورنہ اسے مردہ ہی کہا جائے گا۔ میرے پاس کچھ اختیار تھے یعنی میں آبادی سے دور اپنی آبائی زمین میں جا بستا اور شاید کچھ عرصہ مزید اس وبا سے بچ جاتا مگر میں خود غرضی کی اس حد تک جانے سے پہلے، خود کو خدا حافظ کہنا بہتر سمجھوں گا۔

میرے آس پاس بہت قلیل تعداد میں بہت خاص لوگ ہیں، جنہیں میں خود سے علیحدہ مان نہیں سکتا۔ وہ باری باری اس بھٹی کا ایندھن بنیں گے۔ عین اس وقت میرے گھر کے بالکل پاس کچھ لوگوں کی آوازیں آ رہی ہیں، تعمیراتی صنعت نے سب کچھ کھول دیا ہے۔ میرے ہمسائے میں بھی تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔ چھت کے اوپر چھت ڈل رہا ہے، جس کی ضرورت گھر والوں نے انہی دنوں محسوس کرنی تھی۔ کئی افراد کام میں جتے ہیں اور کورونا ان کو Zombies زومیبیز بنا رہا ہے شاید۔ ۔ ۔ ہمارے ارد گرد بہت سے زومبیز گھوم رہے ہوں گے ، جن سے بچنا محال ہے۔ اب یہ حقیقت دماغ میں بٹھانی پڑے گی۔

یہاں زندگی کے تیور ویسے بھی نرالے ہیں، وبا سے بچ کر کسی اور مخلوق کے ہاتھوں رگڑے جائیں گے، ہمارے ہاں موت کو جائز بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ ابھی کیا ہونا باقی تھا، کیا کچھ ملال رہ جائے گا۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ زندگی کی ساعتیں ابھی باقی ہیں، کورونا کتنے فاصلے پہ ہے اس کے تعین کے لیے ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں۔ البتہ ہم اکیسویں صدی میں جینے کے دعویدار ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ ہم شاندار ماضی رکھتے تھے اور ایک تابناک مستقبل منتظر ہے۔ کون کون زندگی کی جیت ہار میں رہ جائے گا آگے کی کہانی وہی لوگ مکمل کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments