لفظ بہرحال نہیں مرتے


کسی بھی غور طلب خبر کو پڑھنے کے بعد مجھے لوگوں کی رائے جاننے میں بھی دلچسپی رہتی ہے۔

یہ جاننے کے لیے کہ اس خبر کو دیکھنے کے اور کیا زاویے ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کے بارے میں عمومی معاشرتی رویہ اور فکر کس سمت جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ سے پہلے کچھ صحافی حضرات کا نکتہ نظر ٹی وی یا اخبار کے ذریعہ معلوم ہو جاتا تھا مگر عام آدمی کا زاویہ جاننے کا ذریعہ سوائے بات چیت کے کوئی اور نہیں تھا۔

بے شک یہ قابل قدر بات ہے کہ انٹرنیٹ کی بدولت ہمیں اتنے لوگوں کے ساتھ اپنی اظہار رائے کا موقع ملتا ہے، اور کسی نعمت کی قدر دکھانے کا ایک روپ اس نعمت کا مفید اور درست استعمال بھی ہے۔ ہم جو بھی لکھتے ہیں وہ بہت سے رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے جب لوگ نہ صرف خود مہذب اور کار آمد گفتگو کرتے ہیں بلکہ شائستگی سے غیر اخلاقی اور غیر مہذب گفتگو کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی بدولت تمام دنیا کے معاشروں میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی پرانے اور نئے خیالات کے لوگوں میں کافی تناؤ پایا جاتا ہے۔ تبدیلی ایک مشکل مگر ناگزیر عمل ہے۔ کبھی یہ قطروں کی صورت میں آتی ہے اور کبھی سیلاب۔ موجودہ تیزرفتار زمانے میں اس کی صورت سیلاب سی ہے۔ اور سیلاب بند باندھنے سے کب رکتے ہیں۔ بلندی پہ رہنا اور بہاؤ کی سمت بہنے میں ہی دانشمندی ہے۔ کردار کی مضبوطی اگر وہ بلندی ہے جو سیلاب میں بھی آپ کو باوقار رکھ سکتی ہے، تو اعلی اقدار کی کشتی بھی سیلاب میں آپ کو بہت حد تک محفوظ رکھ سکتی ہے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان اقدار کو آئیڈیالائز کرنے کے بجائے اشخاص کو آئیڈیالائز کرتے ہیں اور یوں جانے، انجانے نہ صرف شخصیت پرستی کی ترویج کرتے ہیں بلکہ جس ماحول میں وہ شخصیت زندہ رہی صرف اس ہی کو ایمان و اقدار کی جائے پناہ تصور کرتے ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جو ارطغرل کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف میدان جنگ جیسے ماحول میں ہی ایمان افروز شجاعت اور سچائی دکھائی جا سکتی ہے۔ ایک دکاندار کا اپنے مال کا نقص بتانا شجاعت و ایمانداری نہیں بے وقوفی ہے۔

اپنے اسلاف کی میدان جنگ سے حاصل مشرک اور بے پردہ جنگی قیدی خاتون یا لونڈی کی عزت تو فخریہ ہے مگر محلے کی بے حجاب یا با حجاب لڑکی کی تذلیل عین غیرت مندی کہ وہ گھر سے نکلی ہی کیوں۔ جہاں اخلاقیات اور تہذیب انسان کے اندر نہ ہوں بلکہ ماحول کے تابع ہو، وہاں ایسی منافقت ناگزیر ہے۔ یہ نتیجہ ہے کردار اور اس کے ماحول سے محبت کا نہ کہ اخلاق اور اقدار سے۔ اسے لیے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ پاکستان سے نکلتے ہی بہت سے لوگوں کی اخلاق اور تہذیب میں بھی بہتری آ جاتی ہے۔

مگر پھر ستم ظریفی یہ کہ چونکہ بچوں کی کردار سازی اعلی اقدار کے بجائے زیادہ تر عقائد اور عبادات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس لئے والدین ماحول کے اثرات سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اور بچنے اور چھپنے میں ہی ایمان کی عافیت سمجھتے ہیں۔ اگر کردار سازی اعلی اخلاق کے اصولوں پر ہو نہ کہ شخصیت پرستی پر تو ہمارے بچوں کے لئے گاندھی بھی قائد اعظم کی طرح قابل عزت ہوں۔

مگر افسوس کہ اپنے اعمال کی پستی اور نا اہلی کی پردہ پوشی کے لیے، یہ جنگجوؤں کو مثالی بنانے والی قوم ماضی میں جانے میں ہی اپنا مستقبل دیکھتی ہے یا ہر دم کسی غزوہ ہند کے انتظار میں رہتی ہے، کیونکہ صرف میدان جنگ میں یا کفار کے مدمقابل ہی ان کے اسلام کا صحیح ظہور ممکن ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ کوئی کردار مثالی کیوں بنتا ہے، کیا سازگار ماحول میں جینے سے یا ہر طرح کے ماحول میں اونچے اقدار کی پاسداری سے۔ اعلی اخلاق سازگار وقت اور ماحول کا محتاج نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے لیے ماضی یا میدان جنگ میں جانا پڑتا ہے۔

قرآن بارہا اعملو الصلحات کا ذکر کرتا ہے یعنی چھوٹی چھوٹی نیکیاں کیونکہ ہر عمل بیج کی مانند ہے، حجم میں چھوٹا مگر اس میں شجر پنہاں ہے۔ اس لئے جو جہاد ہی کی ضد لگا کر بیٹھے ہیں ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ شجاعت، ایمانداری، رحمدلی، سچائی دکھانے کے لئے ان کے اپنے گھر اور محلے سے بڑا اور وسیع و عریض میدان جنگ فی الحال کوئی نہیں۔

بداخلاقی اور غیر مہذب گفتگو اصل میں عدم برداشت کا ایک شاخسانہ ہے۔ یہ چند اشعار برداشت کے رویے کو فروغ دینے کی دعوت ہیں۔

خدا اپنا اپنا
خدا اپنا اپنا
جہاں اپنا اپنا
یقیں اپنا اپنا
گمان اپنا اپنا
سحر زدہ ہوں
کہ عقل زدہ
فہم و نگاہ اپنی اپنی
ظن و قیاس اپنا اپنا
ہے میری ذات ذرہ بے نشاں
پر میں ہوں! کیونکہ میں سوچتا ہوں
جستجوئے حق اپنی اپنی
تلاش وجود اپنا اپنا
کیا ہے میرا مقصود دلیل
وضاحت یا محض مسرت تذلیل
اخلاق و تہذیب اپنی اپنی
دشنام و جدال اپنا اپنا
کون ہے بر حق اور کون ہے نا حق
کون بنے سبھی کا ناصح اب
تفاسیر کتب اپنی اپنی
با اعتبار معلم اپنا اپنا
فانی ہے آدم، پر لافانی ہے حرف حرف کی صدا
پھر چاہو تو لگا جاؤ خاردار زقوم یا صد برگ و بہا
حیات فلاح اپنی اپنی
عذاب ملال اپنا اپنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments