کیچ سے آہٹ کی پکار


کیچ محبتوں کی دھرتی، پنو ہوت کی سر زمین جہاں سسی کی محبوب پیدا ہوئے۔ سسی اور پنو کی محبت بارہویں صدی میں پروان چڑھتی ہے۔ بچھڑنے کے بعد ایک دوسرے کی تلاش میں کیچ اور بھنبھور کے درمیان بیلہ کے مقام پر دونوں کی محبت زمین کی آغوش میں جا کر ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتی ہے۔ کیچ تب سے درد کی پکار کو سمجھتا ہے جب پنو کا عشق اس کو مجبور کرتا ہے اور وہ سسی سسی پکارتے ہوا نکلتا ہے۔ کیچ درد اوراندوہ ناکی سے کب چلائے گی یہ پتہ نہیں کیونکہ یہ درد اس کی وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔ جب تک ریاست اس کے ساتھ سوتیلے بیٹے کا سلوک ختم نہیں کرتا ہے۔

اب آتے ہیں کہ ہم نے مضمون کے عنوان میں آہٹ کا انتخاب کیوں کیا۔ آہٹ ترجمہ ہے برمش کا۔ اور برمش ایک چار سال کی بچی ہے جوغیرفطری موت سے لڑی ہے۔ اور ابھی بھی اپنی یاdداشت سے لڑ رہی ہو گی کہ اس کی ماں زندہ ہے یا مرگئی ہے۔ یہ عید کی خوشیوں کی دن ہیں۔ عید کے دنوں کی ایک رات وہ اپنی امی ملک ناز کساتھ سورہی تھی کہ تین چور نقب لگانے ان کے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ جب اس کی امی مزاحمت کرتی ہے، ان سے لڑتی ہے، اور مدد کیلے اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کو پکارتی ہے تو چور بوکھلاہٹ کا شکارہوکر اس پرگولی چلاتے ہیں۔ ملک ناز، (برمش کی امی) اسی دوران فوت ہوجاتی ہے اور برمش زخمی ہوجاتی ہے۔ ہمسائے ہمت کر کے ایک چور کو پکڑ لیتے ہیں اور دیگر دو بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بعد میں باقی دو اور ان کا سرغنہ بھی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ پولیس نے ان کے خلاف پرچہ بھی کاٹ لیا ہے۔

اس وقت یہ ننی سی آہٹ ایک بلند آواز کی پکار بن گئی ہے اور ان کے نام کا دوسرا ترجمہ جنبش ہے۔ اور حقیقت میں اس نے تمام بلوچوں اور انسان دوست لوگوں کو جنبش دی ہوئی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم، دیگر روایتی میڈیا اورلوگوں کی سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا میڈیم اس وقت لوگ سراپا احتجاج ہیں ننی سی برمش کو انصاف دلانے کے لیے۔

لوگ ملک ناز کی بہادری کا چرچا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر وہ مزاحمت نہیں کرتی تو شاید چور پکڑ میں نہیں آتے اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرکے ان تمام بلوچ بہادر عورتوں کو صحیح ثابت کیا ہے جو جنگوں میں مردوں کی ساتھ شامل ہوکرجنگ لڑتی تھیں۔ آج ہر کوئی یہ کہتے ہوئے فکر محسوس کرتا ہے کہ ملک ناز مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کی جائیں گی۔

احتجاجی جلسوں میں جب مھربان غیربلوچ اسٹیج پر آ کر تقریر کرتے ہیں تو وہ برمش کی صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ زبان کا مسئلہ ہے کیونکہ بلوچی زبان میں یہ آواز ہے اور دوسروں میں نہیں ہے جو ”بر“ اور ”مش“ کو ایسے جوڑتا ہے کہ بیچ میں ایک خاموشی نہیں آتی ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بڑی بات یہ ہے دوسرے انسان دوست بھی اس مسئلہ پر برمش کی آواز بنتے ہیں۔

لیکن مین اسٹریم میڈیا اتنا نالایق ہو سکتا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ تصویر برمش کی ہے اور اسٹوری کسی اور بچی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے یا ان کے پاس وسائل ختم ہوگئے ہیں کہ کوئی راولپنڈی جاکر ایک تصویر اصل معصوم بچی کی اتارے جن کی وہ اسٹوری کر رہے ہیں۔

کیچ کی پکار کب ان ایونوں اور ہماری میڈیا تک پہنچ جائے گی جہاں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جائے گی۔ یا یوں ہی کیچ پکارتا رہے گا۔ اور نا انصافیوں کا شکار رہے گا اور یوں ہی میڈیا لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments