کرونا پر 13 ویڈیوز۔ ۔ چودھویں بنانے سے کس نے روکا؟


اپریل کے دوسرے عشرے میں مائنڈ میٹرز یوٹیوب چینل پر کرونا لاک ڈاؤن سپیشل کے نام سے ویڈیوز بنانا شروع کیں، گو کہ اس چینل کا بنیادی مقصد ملک میں سائنسی رجحان کو فروغ دینا ہے اس لیے علم کائنات، نفسیات، بچوں کی نفسیات، فزکس اور بائیالوجی وغیرہ اس کے مخصوص موضوعات ہیں لیکن کرونا وبا کے حوالے سے سائنسی نکتہ نظر سے بات کرنا بھی ضروری تھی۔ ان ویڈیوز کا مقصد وطن عزیز میں آگہی مہم تھی۔ آنے والے خطرے سے انتباہ کرنا تھا۔ حفاظتی اقدامات کی تشہیر مقصود تھی۔ اور اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے منہ کی کھانی پڑی۔

کیسے؟ اس پر بات کرتے ہیں لیکن پہلے یہ دیکھئے کہ اپریل میں بنائی گئی ان ویڈوز کا موضوع کیا تھا۔ ۔ ۔ کرونا: کس قدر تباہی پھیلا سکتا ہے؟ کرونا سے بچنے کے صرف دو طریقے! کرونا لاک ڈاؤن میں ذہنی دباؤ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کرونا میں پرائمری کے بچوں کے لیے مفید ویب سائٹس کون سی ہیں؟ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران مڈل ہائی اور انٹرمیڈیٹ کے بچوں کے لیے مفید ویب سائیٹ کون سی ہیں؟ وہ لوگ جو زمانہ ہوا تعلیم چھوڑ چکے اور نوکری کے چکروں میں سب بھول گئے ان کے لیے مفید ویب سائٹس کون سی ہیں؟ کرونا امریکہ میں کتنی تباہی مچا سکتا ہے؟ کرونا کتنی بڑی تباہی اور یہ مصیبت کب ختم ہو گی؟ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران غصے پر قابو پانے کے لیے ایک کھیل۔ کرونا لاک ڈاؤن میں گھریلو تشدد کا خطرہ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کرونا، وبا کے دنوں میں محبت کتنی کرنی ہے؟ کرونا۔ خوشی سے خوفزدہ ہونا چھوڑ دیں۔ کرونا لاک ڈاؤن: ذہنی دباؤ پر قابو پانے کے لیے 10 تجاویز۔ فیس بک پر یہ سوال مت پوچھیں کہ آپ یا آپ کے کسی جاننے والے کو کرونا تو نہیں ہے؟ آپ کے اس سوال کے جواب کا کیا ریاضیاتی امکان ہے کہ آپ کے کسی جاننے والے کو کرونا ہو۔

تو یہ تو تھے ان ویڈیوز کے موضوعات۔ ان میں خطرے کی نشاندہی جذبات کے زیر اثر نہیں بلکہ مکمل طور پر معروضی اور سائنسی طرز فکر کے ساتھ دی گئی۔ ان ویڈیوز پر اس وقت ہی مختلف ردعمل آنا شروع ہو گئے۔ قریبی دوستوں اور پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے منفی ردعمل (جس کو بہر طور وہ مثبت سمجھتے ہوں گے ) نے بھرپور دل شکنی کا کردار ادا کیا۔ رہی سہی کسر اس بات نے نکال دی کہ لوگ بالکل بھی ایسی ویڈیوز نہیں دیکھنا چاہ رہے تھے جوان پر کسی طرز کی ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیں۔ لوگ بحیثیت مجموعی ایسی باتیں سننا چاہ رہے تھے جن میں وہ مظلوم سمجھے جائیں۔ اس لیے ایسی ویڈیوز جن میں کرونا کو بین الاقوامی سازش قرار دیا جائے یا پاکستان میں کرونا کو شکست ہو گئی وغیرہ کو دیکھنے کے لیے غیرمعمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ ایسی ویڈیوز کے ویوز بلاشبہ لاکھوں میں تھے۔ ایسی ویڈیوز جن میں سائنسی انداز سے بات کی جائے ان کو چند سو لوگ دیکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں کیوں لوگوں کو خوفزدہ کر رہا ہوں؟ کیوں سراسیمگی پھیلانے میں پیش پیش ہوں۔

اور میرا جواب ہمیشہ ایک ہی رہا کہ۔ ۔ ۔
مجھے بتائیے کہ اگر میں شہر کی جانب ایک سیلاب آتا دیکھوں تو آپ میرے اخلاص سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ کیا مجھے اس کی خبر کرنی چاہیے چاہے آپ پریشان ہی کیوں نہ ہوں۔ یا چپ سادھ لینی چاہیے یا بار بار آپ کو یقین دہانی کروانی چاہیے کہ کوئی سیلاب وغیرہ نہیں آ رہا۔ بالکل اطمینان رکھیں اور اپنے کاروبار و گھریلو امور جاری رکھیں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اپنے گھروں کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کا درد لینے کی کسی طور ضرورت نہیں۔ ناچیے۔ گائیے۔ ۔ ۔ اور نہائیے۔ جیسا کے آپ کو ڈفلی بجانے والے کہہ رہے ہیں۔

میں نے اس دوران انسانوں کے خوف کو طبعی حالت میں دیکھا۔ ایسا تھا جیسے ہاتھ بڑھا کر ان خوفوں کو چھوا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی انا نے خوف سے نمٹنے کے لیے خواہش کو بطور نفسیاتی مدافعتی نظام بنا لیا تھا۔ خواہش یہ ہے کہ سب جھوٹ ہو۔ ۔ ۔ تو جس نے کرونا کو جھوٹ کہا لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔ خواہش تھی کہ کرونا سازش ہو اور ہم مظلوم ہوں تو جس ڈفلی بجانے والے کند ذہن نے کہا کرونا سازش ہے تو لوگ اس کے پیچھے چل دیے۔ کسی نے کہا کہ ڈاکٹر زہر کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں تو لوگوں نے اس بات کو فوراً تسلیم کیا کیونکہ اس میں بچاؤ کا امکان زیادہ تھا (لاشعوری سوچ: کہ ہم بیمار وغیرہ ہوئے تو ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے ہمیں زہر کا انجکشن نہیں لگے اور یوں ہم نہیں مر سکیں گے )

مصیبت یہ تھی کہ میرے جیسوں کی لڑائی صرف مین سٹریم و ڈیجیٹل میڈیا کے ’فنکاروں‘ سے ہی نہیں تھی جو موقع غنیمت جانتے ہوئے وہ جاہلانہ بات کرتے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں یوں لوگوں کا بیڑا تو غرق ہو جاتا ہے لیکن ’فنکاروں‘ کی تجوری بھر جاتی ہے۔ ۔ ۔ ہماری لڑائی صرف ان ’فنکاروں‘ سے ہی نہیں بلکہ حکومت سے بھی تھی۔ حکومت کی باگ جس کے ہاتھ میں ہے وہ مکمل طور پر عقل و دانش اور سائنس کے مخالف لشکر کا سربراہ ہے۔ ایک ایسا شخص جو اس عمر میں پہنچ کر بھی جذباتی تحریک کے طابع ہے۔ ہماری لڑائی ان حکومتی وزراء سے تھی جو سیاسی دانش سے تو بے بہرہ ہیں ہی ان کی سائنس کے حوالے سے قابلیت موجودہ میٹرک کے سلیبس جتنی بھی نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت وہ ممالک ہیں جو آسانی سے کرونا پر قابو پا سکتے تھے لیکن انہیں دو ممالک کے عوام و حکومتی رویوں اور مجموعی عقلی سطح کی زبوں حالی کے پیش نظر عرض کیا تھا کہ یہ ممالک دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ میں جس قدر چیخ سکتا تھا چیخا تھا کہ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ لمحہ گیا تو آپ کے ہاتھ سے سب کچھ گیا۔ دنیا میں آگ، آبادی اور وبا کے پھیلاؤ کی رفتار ریاضی کے ایکسپونینشل گروتھ کی مدد سے کی جاتی ہے اور یہ گروتھ بھیانک ہوتی ہے۔ ویڈیوز میں مائیکرو سافٹ ایکسل پر ورک شیٹس پر فارمولے لگا کر سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی گروتھ کس طور ہو گی اور کس طرح معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ یہاں تک عرض کیا تھا کہ اگر آپ نے میری بات نہیں ماننی تو نہ مانیں۔ لیکن ان تمام لوگوں کو پہچان لیں اور ان کے نام ازبر کر لیں جو آپ کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ میں آج (اپریل) آپ کو کہہ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کے دشمن ہیں۔ کاش یہ وبا آپ کو دوست دشمن دیکھنے کی تمیز ہی دے دے۔

اب حکومت کا موقف ہے کہ لوگ خود حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ ۔ ۔ جن لوگوں (عوام) کو آپ نے گزشتہ 72 برسوں سے اپنے گھٹیا مفادات کے حصول کی غرض سے ارادتا جاہل رکھا وہ آپ کے خیال زرخیز کے مطابق ان حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں گے؟

اس معاملے کو پیش نظر رکھیں تو سائنسی طرز فکر کیا کہے گا۔ ۔ ۔ ”کیونکہ عوام کو 72 سال جاہل رکھا گیا ہے اور ایک مہینے میں تو ان کی اعلٰی تعلیم و تربیت کا بندوبست نہیں ہو سکتا اس لے زبردستی حفاظتی اقدامات پر عمل یقینی بنایا جائے ( جس طرح بچہ اپنی ’جاہلیت‘ کی بنا پر جب انگارے کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے تو کسی بھی زبردستی والے اقدام سے اس کو اس عمل سے روکا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ہائے یہ ’جاہلیت‘ بچے کو تو کس قدر جچتی ہے لیکن قوموں کی جاہلیت قدرت کی نظر میں ناقابل تلافی جرم ٹھہرتا ہے۔ جرم کی سزا کا میکنزم مختلف ہوتا ہے ہمیں اب جرم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہونا چاہیے ) تو خیر آج کل یہ لطیفہ چل رہا ہے کہ بقراط عوام سقراط رہنما کے کہنے پر اپنی حفاظت کو خود یقینی بنائیں۔

پس نوشت: ( مئی کے پہلے ہفتے تک ویڈیوز بنائیں۔ پھر مایوس ہو کر عید پر گاؤں آ گیا۔ نقار خانے کو چھوڑ کر طوطی آج کل گردونواح میں فطرت کی جلوہ گری کی مدح میں مصروف ہے )

کرونا پر ویڈیوز کا لنک:

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments