مقبوضہ کشمیر سے متعلق انڈیا کے غیر قانونی اقدامات


کانگریس سے تعلق رکھنے والے غلام بنی آزاد ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور 2005 سے 2008 تک تقریباً پونے تین سال مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈہ سے ہے۔ انڈیا کی مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور متنازعہ ریاست جمو ں و کشمیر کو انڈیا میں مدغم کرنے کے بعد غلام بنی آزاد نے انڈیا کے ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے اس موضوع پہ سوالات کے جواب دیے۔

غلام بنی آزاد نے جموں و کشمیر کے بارے میں انڈین حکومت کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے انڈین پارلیمنٹ میں ریاست کشمیر کو ہتھیانے والے عمل کو خلاف ضابطہ ثابت کرتے ہوئے انڈیا کے اس تمام عمل کو ہی غیر قانونی ثابت کر دیا۔ غلام بنی آزاد نے دوسری اہم بات یہ کہی کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے 22 اضلاع میں سے 21 اضلاع کے لوگ ا نڈیا کے اس اقدام کے خلاف ہیں۔ غلام بنی آزاد کی مدلل گفتگو سے نا صرف جموں وکشمیر سے متعلق انڈیا کے دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں بلکہ یہ دلائل عالمی سطح پر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

غلام بنی آزاد نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا سے توقع کی موت واقع ہو چکی ہے۔ کشمیری ایک چلتی پھرتی ”ڈیڈ باڈی“ ہیں جب تک زندہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے دو ٹکڑے کرنے، سٹیٹ کو ڈاؤن گریڈ کرنے، سٹیٹ کو یونین ٹیریٹوری بنانے کے خلاف جموں کشمیر کے 22 میں سے 21 اضلاع متحد ہیں، ماسوائے لیہہ، کیونکہ لیہہ والوں کی کافی عرصے سے ڈیمانڈ ہے یونین ٹیریٹوری میں شامل کیے جانے کی، لیکن لیہہ کا دوسرا ضلع کرگل جس کی 52 فیصد آبادی ہے، لیہہ کی 48 فیصد آبادی ہے، اس طرح جموں و کشمیر، لداخ کے 22 اضلاع میں سے 21 اضلاع کے عوام چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا عیسائی ہو، وہ جموں کا ہو کٹھوعہ کا ہو، ڈوڈہ کا ہو، ویلی کا ہو، پیر پنجال کا ہو، جنوبی کشمیر کا ہو، شمالی کشمیر کا ہو، کرگل کا ہو، ان میں سے کوئی بھی سٹیٹ کو ہندوستانی ریاست کا حصہ بنانے کے حق میں نہیں ہے۔

انڈیا اپنی پوری فوج لگا کر کہتا ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے؟ ہندوستان کشمیر میں سب کو قید کر کے کہتا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے، یہ دنیا کا کون سا نیا طریقہ ہے؟ غلام بنی آزاد نے بتایا کہ کارپوریشن کے الیکشن میں بارہمولہ سے بی جے پی کے سات افراد تین سے سات ووٹ لے کر کارپوریشن کے ممبر بن گئے، اس الیکشن کو انڈیا کہتا ہے کہ منصفانہ الیکشن ہوئے اور لوگوں نے ووٹ دیے۔

غلام بنی آزاد نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بل منظور کرنے کا ایک طریقہ کا ر ہوتا ہے، کوئی بھی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے ایک ہفتے پہلے بزنس ایڈوائیزری کمیٹی طے کرتی ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں آئے گا اور اس کے وقت کا تعین کرتی ہے، کمیٹی کی منظوری کے بعد وہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے دو دن پہلے ایوان کے فلور پہ رکھنا ہوتا ہے تا کہ دو دن میں ممبران اس میں ترامیم دے دیں، یہی ہندوستانی پارلیمنٹ کا طریقہ کا رہے، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا بل ہے جو اس طرح پیش کر کے منظور کرا لیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments