ہما دلاور کے دس سوال


ہما دلاور کے ڈاکٹر سہیل سے دس سوال

سوال نمبر 1۔ دانائی کیا ہے؟
سوال نمبر2۔ دانائی کا منبع کہاں ہے؟
سوال نمبر 3۔ زندگی گزارنے کے لئے دانائی کتنی اہم ہے؟
سوال نمبر 4۔ کیا دانائی سیکھی یا سکھائی جا سکتی ہے؟ یا
سوال نمبر 5۔ کیا دانائی کوئی خزانہ ہے جسے تلاش اور حاصل کیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر6۔ کیادانائی اور علم کا کوئی رشتہ ہے؟ اور اگر ہے تو کیا رشتہ ہے؟
سوال نمبر 7۔ کیا دانائی انسان کو خوشی دیتی ہے؟ یا دکھ کا باعث بنتی ہے؟ اگر ہاں تو کیوں اور کیسے؟
سوال نمبر 8۔ کیا دانائی انسان کو بہتر انسان بناتی ہے؟ اگر ہاں تو کس لحاظ سے؟
سوال نمبر9۔ کیا دانائی کسی مطلق سچائی تک رسائی ہے؟
اگر ہاں تو سوال نمبر 10۔ جب کسی مطلق سچائی کا وجود ہی نہیں تو دانائی تک رسائی کیوں کر ممکن ہے؟

***    ***

محترمہ ہما دلاور صاحبہ!

آپ نے دانائی کے موضوع پر مجھ سے بہت سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے ہیں۔ وہ سوال بظاہر سادہ لیکن درپردہ گمبھیر ہیں۔ اگر میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب لکھنا شروع کروں تو ایک مکمل کتاب بن سکتی ہے۔ اس لیے میں ان سوالات کے مختصر جواب دوں گا تا کہ آپ مزید سوال پوچھ سکیں اور سوال و جواب کا یہ سلسلہ دراز ہو سکے۔

آپ کا پہلا سوال ہے۔ ۔ ۔ دانائی کیا ہے؟
میں نے چند سال پیشتر اس سوال کا ایک جملے میں جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ جواب انگریزی میں تھا
WISDOM IS THE INNER LIGHT THAT HELPS US SEE IN THE DARK
دانائی وہ داخلی روشنی ہے جو زندگی کی تاریکی میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

اگر کوئی شخص دانا انسان بننا چاہتا ہے تو اسے زندگی کے بارے میں غور و خوض کرنا ہوگا اور اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترنا ہوگا۔ میرا ایک شعر ہے

میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں
اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کر لیں گے وہ اتنے بڑے دانشور بن جائیں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ علم کے اندر تکبر بھی چھپا بیٹھا ہوتا ہے اس لیے بہت سے بی اے ایم اے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والے انسان متکبر ہو جاتے ہیں۔ اس تکبر کا دف درویشی مارتی ہے۔ جو عالم و فاضل درویشی اختیار کرتا ہے وہ دانا بن جاتا ہے۔

جب کوئی عالم دولت اور شہرت کے پیچھے پیچھے بھاگتا ہے تو وہ جلد یا بدیر کف افسو ملتا ہے۔ دانا انسان دولت و شہرت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ دولت و شہرت خود اسے ڈھونڈتے اور تلاش کرتے رہتے ہیں۔

دانا درویش درحقیقت دولت اور شہرت کی بجائے سچ کی تلاش میں ہوتا ہے لیکن دانا انسان کا سچ مولوی کے سچ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ مولوی اپنے سچ کو ازلی و ابدی و حتمی سچ سمجھتا ہے جب کہ دانا انسان جانتا ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔

دانا انسان خاموشی اور تنہائی کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تنہائی خاموشی اور دانائی پرانی اور پکی سہیلیاں ہیں۔ اسی لیے دانا انسان اگر سائنسدان ہے تو لیباٹری میں تنہا ہوتا ہے ’شاعر ہے تو لمبی سیر کے لیے تنہا نکل جاتا ہے اوراگر وہ سنت‘ سادھو یا صوفی ہے تو وہ کسی ویران جنگل کی کسی جھونپڑی میں تنہا چلہ کاٹتا اور مراقبہ کرتا ہے۔ اسے زندگی کی بصیرتوں تک پہنچنے کے لیے یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ہم دانا انسانوں کی سوانح عمریاں پڑھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا سفر روایت سے بغاوت اور پھر بغاوت سے دانائی کا سفر ہوتا ہے۔

جب دانا انسان روایت سے بغاوت کرتے ہیں تو انہیں اپنے خواب ’اپنے آدرش اور اپنے سچ کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض کو شہر بدر کر دیا جاتا ہے اور بعض کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

اگر میں پوری انسانی تاریخ میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں دانا ہستیوں میں سے صرف ایک دانا انسان کی زندگی کی مثال دینا چاہوں تو میرے ذہن میں سقراط کا نام آتا ہے۔ سقراط کو اپنے سچ کے لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کیونکہ ان پر دو الزام تھے۔

چونکہ سقراط نوجوانوں کو سوال کرنے کی ترغیب دیتے تھے اس لیے ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

سقراط پر دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ یونان کے خداؤں کو نہیں مانتے۔
دانائی کسی انسان کو بہت دکھی کر سکتی ہے۔ چینی کہتے ہیں
WISDOM COMES FROM BREAKDOWN OF IDEALS

دانا انسان کو نوجوانی میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ جن روایات کے سائے میں پلا بڑھا ہے وہ روایات غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں اس لیے وہ ان روایات کو چیلنج کرتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے

اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا
دانائی کا سفر مثالیت پسندی سے حقیقت پسندی کا سفر ہے۔

دانا انسان پہلے زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھتا ہے اور پھر بڑی خوش اسلوبی سے زندگی کی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتا ہے۔

دانائی کی ایک مثال حضرت سلمان کا واقعہ ہے۔ ان کی عدالت میں دو عورتیں ایک بچے کو لے کر آئیں۔ وہ حضرت سلمان سے انصاف چاہتی تھیں لیکن دونوں کا دعوہ تھا کہ وہ اس بچے کی اصلی ماں ہیں۔

حضرت سلمان نے دونوں عورتوں کی بپتا سنی پھر اپنے وزیر کو حکم دیا کہ ایک تلوارلے کر آئے اس بچے کے دو ٹکڑے کرے اور دونوں عورتوں کو آدھا آدھا بچہ دے دے۔ حضرت سلمان کا حکم سنتے ہی ایک عورت نے کہا کہ بچے کو نہ کاٹیں دوسری عورت کو دے دیں۔ حضرت سلمان نے کہا وہی عورت اس بچے کی اصل ماں ہے۔

حضرت سلمان کا وہ فیصلہ ان کے علم اور منطق سے زیادہ ان کی دانائی کا آئینہ دار تھا جو بظاہر جارحانہ لیکن درپردہ منصفانہ تھا۔ دانا انسان زندگی کے تضادات کے درپردہ چھپے سچ تک اپنی داخلی روشنی کی رہنمائی میں پہنچ جاتا ہے۔

زندگی کے بارے میں سوچنا غور و خوض کرنا اور سچ تک پہنچنا دانائی کی نشانی ہے اس لیے سقراط نے فرمایا تھا

UNEXAMINED LIFE IS NOT WORTH LIVING

دانائی کی ایک قسم انفرادی دانائی ہے لیکن اس کی دوسری قسم اجتماعی دانائی ہے جسے میں COLLECTIVE WISDOMکا نام دیتا ہوں۔ ڈاکٹر بلند اقبال اور میں نے پچھلے سال جو کینیڈا ون ٹی وی کے لیے پینتیس پروگرام ریکارڈ کروائے تھے ہم نے ان کا نام IN SEARCH OF WISDOM۔ ۔ ۔ دانائی کی تلاش۔ ۔ ۔ رکھا تھا۔ (یہ پروگرام اب یوٹیوب پر بھی دستیاب ہیں ) ان پروگراموں میں ہم نے انسانی تاریخ کی چار روایتوں پر اپنی توجہ مرکوز کی تھی۔ ان چار روایتوں میں

ایران کے زرتشت کی مذہبی روایت
ہندوستان کے بدھا کی روحانی روایت
چین کے کنفیوشس کی انسان دوستی کی روایت اور

یونانن کے سقراط۔ ارسطو۔ ۔ ۔ اور افلاطون کی فلسفیانہ روایت شامل تھی جس کی کوکھ سے جدید سائنس نے جنم لیا۔

پچھلی چند صدیوں سے جوں جوں انسان کا اجتماعی شعور ترقی کر رہا ہے اس میں دانائی کا اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک وہ زمانہ تھا جب کرہ ارض پر کئی طرح کے انسان بستے تھے جو HOMOکہلاتے تھے۔ ان تمام انسانوں کی قسموں میں سے جو انسان زندہ رہے وہ HOMO SAPIENS کہلاتے ہیں اسیلیے یووال ہراری نے اپنی مقبول عام کتاب کا نام SAPIENSرکھا کیونکہ اس لفظ کا مطلب دانائی ہے۔

ہم اپنی دانائی کی وجہ سے زندہ بھی رہے اور ارتقا کا سفر بھی طے کرتے رہے۔
ہما دلاور صاحبہ۔ آپ کے گمبھیر سوالوں کا اختصار سے جواب دینے کی معذرت۔
آپ کا ادبی ہمسفر
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments