بلوچستان کی آواز سنیے


ایک متحرک اور مستقبل کے بارے میں پر جوش یقین رکھنے والا سماج لازمی طور پر چند بنیادی انسانی اوصاف یعنی تحفظ ذات اور جمہوری اقدار پر مبنی اختلاف و اتفاق رائے کے حق پر یقین رکھنے سے ہی قائم ہوتا ہے۔ بلا شبہ جمہوری رجحانات راسخ العقیدہ نہیں ہوتے۔ یہ محض آزادی اظہار کے حصول کے مطالبے تک محدود سوال نہیں بلکہ وسیع تر معنوں اور معاشرتی تعامل میں انسان دوستی اور اپنی رائے قائم کرنے اسے ظاہر کرنے کے ساتھ دوسروں کے حق اختلاف کو قبول کرنے، آزادانہ طور پر اس کا اظہار کرنے یا ان پر عمل کرنے کی بلا خوف دستیابی یقینی بنانے کا نام ہے۔ ان مجموعی اقدار نیز جمہوریت پر غیر متزلزل یقین کو پختہ تر بنانے کا فریضہ انجام دینے والی دستاویز عمرانی معاہدہ۔ دستور یا ملکی آئین کہلاتا ہے جسے لازمی طور پر ایک جمہوری ریاست اختیار کرتی ہے۔

دستور ہی جدید شہری سماج میں مملکت کو ریاست اور رعایا کو شہری کا ارفع درجہ عطا کرتا ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد افتخار سے یہ باہمی تعلق ایثار وقربانی اور تحفظ کی سہ نکاتی سیاسی ثقافت مرتب کرتا ہے جو مستحکم ہو تو عوام آسودہ اقوام مطمئن اور ریاست ناقابل شکست ہوجاتی ہے۔ یہ رشتہ کسی قسم کے تغیر، حادثات اور مشکلات کے باوجود قابل عمل اور ناقابل تنسیخ ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی تفریق، تساہل، غفلت یا لاپرواہی اگر اس یقین کو متزلزل کرے جس کا عہد و پیمان ریاست اورشہری کے درمیان دستور یا آئین کی صورت ایک معاھدے کے طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے تو شہری اور ریاست کے درمیان بیگانگی در آتی ہے تب مملکت کا شیرازہ خطرات کی زد میں آ جاتا ہے بلکہ تاریغ کے اوراق میں ایسی صورتحال میں کئی ریاستوں کے جغرافیے بکھر جانے کی مثالیں موجود ہیں جیسے کہ سوویت یونین کا بکھراﺅ، ہندوستان کی تقسیم، مشرقی تیمور، سوڈان کی تقسیم اور 1971ء میں پاکستان کے دو نیم ہوجانے کا سانحہ۔۔۔

پاکستان سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک وفاقی جمہوری ریاست کے طور پر قائم ہوا۔ اسے آغاز ہی سے خطرات نے گھیر لیا۔ بیرونی اور اندرونی خطرات کی اس کہانی کے نتیجے میں ملک سیکورٹی سیٹ بن گیا۔ بلا شبہ ہمارے ملک کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اپنی علاقائی سالمیت و وحدت برقرار رکھنے میں چیلنجز درپیش تھے۔ جنہیں پائیدار انداز میں کم از کم سطح پر لانے کی کوشش کرنے کی بجائے مقامی علاقائی اور عالمی سیاسی تنازعات کے ساتھ جوڑ کر حل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی نتیجہ مسلسل عدم استحکام کے علاوہ داخلی سیاسی بحران میں روز افزوں گہرائی اور اضافے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے بلوچستان تاریخی طور پر پاکستان کا جس طرح جغرافیائی حصہ بنا وہ اس وقت موضوع بحث نہیں لیکن یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ مذکورہ عمل تاحال غیر متنازعہ قرار نہیں پا سکا۔ چنانچہ ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سوال سر اٹھاتا رہا ہے اور حالیہ دو دہائیوں سے اسی پس منظر میں بلوچستان میں شدید عوامی بے چینی موجود ہے جسے سرکاری حلقوں میں بدامنی بھی کہا جاتا ہے اس دوران ہزاروں افراد اپنا گھر بار جان ومال اس آگ میں گنوا چکے ہیں۔ متحارب فریقین کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور انسانی المیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ دراز ہو رہا ہے جس سے بلوچستان کا چپہ چپہ لہولہان ہے۔ انسانی خون کی اس ارزانی کی کئی جہتیں ہیں۔ نسل انسانی کا بہتا خون، جمہوریت انسان دوستی اور ریاستی آئین کی روح کے سراسر منافی عمل ہے۔ خون کی اس بہتی ندی میں ملک کی ایک اہم وفاقی اکائی کے عوام ملک سے بیگانگی کا شکار ہورہے ہیں جس کا نتیجہ کسی بھی طور پر بہتر شکل میں سامنے آنا مشکل ہے۔

یہ درست ہے کہ ان حالات میں متحارب فریقین کا لڑائی میں ہونے والا انسانی جانوں کا اتلاف شدید طور پر قابل مذمت ہے تاہم لواحقین کے لئے اس صدمے کو وقت کا مرھم مندمل کردیتا ہے۔ مگر بد ترین واقعات جن کی شدت اور دکھ کی گہرائی و صدمےکو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے وہ لوگوں کی گمشدگیاں ہیں اس گھرانے کے غم کا اندوہ ہر وہ انسان محسوس کر سکتا ہے جو خود کسی گھرانے کا چشم وچراغ ہو۔ کیا گذرتی ہے اس ماں باپ، بہن، بیوی، اولاد یا بھائیوں پر جن کا بیٹا، باپ، بھائی یا خاوند اچانک لاپتہ کردیا جاتا ہے حالیہ مہینوں میں واقعات کی تعداد اور انداز میں کار فرما تسلسل کو ملحوظ رکھیں تو یقینا ” لاپتہ ” ہوجانے کی “لفظی ترکیب ” بے معنی ہوچکی ہے کہ اب سب کو کھو جانے والوں کا “پتہ” معلوم ہوتا ہے۔

بلوچستان میں اس دہائی میں کوشش بسیار سے زندگی کی رمق لوٹی تھی۔ ویرانوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کے سلسلے اور گمشدگیوں میں کمی آئی تھی۔ جس پر وسیع عوامی حلقوں میں یک گونہ اطمینان کا اظہار بھی ہوا تھا۔ بازاروں کی رونق بحال ہوئی تھی۔ شاہراہوں پر سفر کا رکا ہوا سلسلہ از سر نو چلنے لگا تھا۔ خوف اور عدم تحفظ کی فضاءمیں کمی آئی اور فضا میں پھیلی بارود کی بد بو مانند پڑنے لگی تھی مگر شومئی ٍ قسمت دنیا میں کرونا کی بھیانک وباء نے زندگی ویران کی تو بلوچستان میں کرونا کی وبا دوہرے عذاب میں بدلتی چلی گئی۔

اس عرصہ میں اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے اندرونی علاقوں، بالخصوص بلوچ دیہات و بستیوں میں تلاشی لینے کا سرکاری سلسلہ شدت اختیار کرگیا بعض واقعات کے متعلق خلق خدا نے جو کہانیاں چادر وچار دیواری کے بے حرمتی کے متعلق بیان کی ہیں وہ اہل بلوچستان تک تو پہنچی ہیں. مگر میڈیا اور اقتدار کی راہداریوں میں سنائی نہیں دیں کہ وہ بہت دلخراش ہیں حتیٰ کہ انہیں بیان کرنا بھی ناممکن ہے۔ کسی خوف کی یا ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے سماجی رویے اخلاقی ضوابط اور اسلامی تعلیمات کے تقاضوں کی بنا پر۔

کیچ میں ڈنگ کے ایک گھر میں مسلح افراد کا گھر میں گھس کر گودی ملک ناز بلوچ کو شہید کرنا اور کم عمر معصوم برمش بلوچ کو زد کوب کرنا۔ پھر گودی حسیبہ قمبرانی کی بلکتی ہوئی صدائے احتجاج۔ مکران میں ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا انجام اور رد عمل، خاران میں محنت کشوں پر بلاوجہ فائرنگ سے ہلاکتیں، ممتاز سیاسی رہنما ساتھی ادریس خٹک کی گمشدگی۔۔۔ کس سے کہوں کہ ارمان لانی کے قاتل کو قانون کے کٹہرے میں لایئے۔

قریب آ اے مہ شب غم، نظر یہ کھلتا نہیں کچھ اس دم

کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بجھ گئے

بلوچستان لہو لہو کیوں ہے؟ کیا بلوچستان آئین پاکستان سے ماورا امنگوں کا طلب ہے؟ قطعی نہیں۔۔۔ بلکہ بلوچستان کی سیاست جمہوری ہو یا مسلح اپنی اصل میں آئین پاکستان سے ریاست کے انحراف کے خلاف جہد کے مترادف رہی ہے۔ بلوچستان آئین کے مطابق وفاق پاکستان کی ایک اکائی کی حیثیت سے اپنے فطری آئینی اور سیاسی استحقاق کا طالب ہے۔ بلوچستان میں گمشدگیوں پر بھی کسی جانب سے بھی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا. ھم صرف آئین و قانون کی پاسداری چاھتے ہیں۔ لاپتہ افراد نے اگر قانون شکنی کی ہے انہیں قانونی طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے جرم ثابت ہو تو قرار واقعی سزا دی جائے۔ بیگناہ ہوں تو قید و بند رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی اور ملکی قانون کی توہین ہے۔ بلوچستان آئین پاکستان کی دفعات 9۔ 10۔ 10A۔ 14۔ 15۔ 17۔ 19۔ 25۔ 28 پر حرفناٰ معناً عملدرآمد کا مطالبہ کررہا ہے۔ ریاست اپنی قبول شدہ آئینی ذمہ داریاں / فرائض پورے کرے پھر ہم سے وہ آئین کی دفعہ 5 کی بابت سوال کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ ورنہ نفرت اور بیگانگی کے بطن سے ہر روز المیے ہی جنم لیں گے۔ ھم یہ بھی نہیں چاھتے اور نہ ہی غلبہ ظلمت کو قبول کرتے ہیں۔ کوئی ہے جو بلوچستان کے کوہ و بیابانوں کی ان صداؤں کو سنے. سمجھے اور تدارک کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments