کرونا نر ہے یا مادہ


کسی بھی تحریر و تقریر میں ذکر کیا گیا واقعہ جتنا اہم ہوتا ہے، اتنی ہی اہمیت اس میں استعمال کیے گئے الفاظ کی بھی ہوتی ہے۔ یعنی تحریر و تقریر کی خوبصورتی الفاظ کے انتخاب اور اس کے بعد صحیح اور برمحل استعمال میں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تحریر و تقریر تو بہت شاندار ہوتی ہے لیکن دو چار الفاظ اس کا مزا کرکرا کردیتے ہیں۔ نادانی یا نادانستگی میں ہم الفاظ کو صحیح طور ادا نہیں کر پاتے۔ کبھی مذکر و مؤنث کی چھوٹی سی غلطی تحریر و تقریر کو پھیکا کر دیتی ہے تو کبھی ”کا، کے، کی، ہے، ہیں“ وغیرہ کا غلط استعمال تحریر و تقریر کو اڑان بھرنے سے روک لیتا ہے۔ جیسا کہ ایک بار خان عبدالولی خان سے کسی صحافی نے اصلاح کی غرض سے کہا کہ جناب آپ نے اپنی تقریر میں ”قوم“ کو مذکر استعمال کیا ہے حالانکہ یہ مؤنث ہے۔ خان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھئی آپ کی قوم مؤنث ہوگی ”ہمارا“ قوم تو مذکر ہے۔

اردو زبان و ادب میں مذکر اور مؤنث کے حوالے سے عوام اور بلبل ہمیشہ زیر بحث رہے ہیں کہ عوام اور بلبل نر ہیں کہ مادہ، لیکن یہ علمی مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ ان کو نر یا مادہ ثابت کرنے کے لئے ہر صاحب علم دلائل کے انبار لگا دیتا ہے مگر اس کے باوجود یہ سوال ہر دور میں پوری قوت کے ساتھ اپنی جگہ پر سدا موجود رہتا ہے۔ کسی کے پاس عوام ہوتی ہے تو کسی کے پاس عوام ہوتا ہے اور اسی طرح کسی کے پاس بلبل ناچتی ہے تو کہیں بلبل ناچ رہا ہوتا ہے۔

تذکیر اور تانیث کا کوئی واضح اصول نہ ہونے کی ہی وجہ ہے کہ اردو کے ہزاروں ادیب اور شاعر لاکھ سر مارنے پر بھی آج تک بلبل جیسے حقیر و فقیر پرندے کی جنس طے نہیں کرپائے ہیں۔ بلبل کی جنس پر اب تک اتنے ادبی جھگڑے اور فساد برپا ہو چکے ہیں کہ کچھ مت پوچھئے۔ شاعروں نے اپنی اپنی ضرورت، ذوق اور ذائقے کی مناسبت سے اسے مذکر اور مؤنث دونوں طرح باندھا ہے۔

اسکے علاوہ عام زندگی میں ہم نر اور مادہ کی جو تقسیم دیکھتے ہیں وہ محض جانداروں تک محدود ہے یعنی ہمیں معلوم ہے کہ بکری مادہ ہے جبکہ شیر نر ہے۔ البتہ اگر نر اور مادہ کی اس تقسیم کو بے جان چیزوں پر لاگو کر دیا جائے تو کیسے پتا چلے گا کے ”پلنگ“ مذکر ہے یا مؤنث اور ”میز“ ہوتی ہے یا ہوتا ہے۔ بچپن میں ہمیں یہ اصول تو معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونے والے مذکر اسماء کو مؤنث بنانا ہو توان کی آخری الف کو چھوٹی ”ی“ میں بدل دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم مرغا، مرغی، بکرا، بکری، گدھا، گدھی یا گھوڑا، گھوڑی کے سلسلے میں کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب چڑا، چڑی اور کتا، کتی تک بات پہنچتی تو کسی بزرگ کا غضبناک چہرہ دیکھنا پڑتا اور تذکیر و تانیث کے وہ معصوم سے اصول جو ہم نے لاشعوری طور پر اپنا رکھے تھے، دھواں بن کر اڑ جاتے۔ اس بات کا منطقی جواب کوئی نہیں دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کتی کو کتیا کہنا کیوں ضروری ہے۔

گھر اور محلے سے نکل کر سکول میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تذکیر و تانیث کی دنیا تو پوری اندھیر نگری ہے اور وہاں نر مادہ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً کوا، الو، ہد ہد، خرگوش، لنگور، گدھ، کچھوا، مچھر اور جھینگر کے بارے میں پتہ چلا کہ ان بے چاروں کی مؤنث شکل موجود ہی نہیں ہے۔ دل میں بار بار خیال آتا کہ محترم خرگوش کے گھر میں کوئی بیگم خرگوش بھی تو ہو گی، لنگور کی بیوی، گدھ کی ماں، کچھوے کہ بہن۔

کیا یہ سب ہستیاں وجود ہی نہیں رکھتیں؟ اور اگر ہیں تو ان کے لئے الفاظ کیوں موجود نہیں۔ اس بے انصافی اور زیادتی پر ایک بار بہت گڑگڑا کر اپنے استاد سے سوال کیا تو وہ بھنا کر بولے ’بے انصافی تو دونوں طرف سے ہے۔ مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے کبھی؟ وہ بھی تو وجود رکھتا ہے۔ بچپن ہی سے گھریلو ادبی ماحول کی وجہ سے ہم ٹھہرے ادبی ڈھیٹ ایک بار پھر استاد صاحب سے پوچھ لیا کہ ”استاد صاحب! طوطا مذکر ہے یا مونث؟“ اس کی سزا یہ ملی کہ استادصاحب نے زور سے گھور کر دیکھا اور بنچ پر کھڑا کر دیا۔ جب پیریڈ ختم ہوا تو پاس آئے اور میرا کان مسلتے ہوئے بولے بر خوردار! طوطا اگر بول رہا ہو تو مذکر ہے اور بول رہی ہو تو مونث! سمجھے؟ اب بیٹھ جاؤ اور گرامر یاد کرو۔

بہرحال، لاک ڈاؤن اور کرونا کے دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ کورونا وائرس نزلہ، زکام اور فلو کی طرح کی ایک بیماری ہے اس سے گھبرانا نہیں، لڑنا ہے۔ یہ سن کر دل مطمئن ہوا کہ کرونا مذکر وبا ہے مؤنث نہیں۔ چند دن پہلے وزیر اعظم نے پھر قوم سے ایک زوردار خطاب میں اس بات کا سنسنی خیز انکشاف کیا کہ ”کرونا کسی کو نہیں چھوڑے گی“ اس کو مذاق نہ سمجھا جائے۔ یعنی وزیر اعظم عمران خان کے بقول کرونا کسی کو نہیں چھوڑے گی سے مراد یہ ہے کہ کرونا جنس کے لحاظ سے نر نہیں بلکہ مادہ ہے۔

اب اردو زبان و ادب میں عوام اور بلبل کے بعد ایک تیسرا علمی مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ کرونا ”نر“ ہے یا ”مادہ“ اور عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جب سے وزیراعظم نے فرمایا کہ ”کرونا کسی کو نہیں چھوڑے گی“ تو اس وقت سے پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز اور اموات کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے مگر پھر یہ سوچ کر کچھ تسلی ہو رہی کہ اچھا ہوا کہ انگور کو بیٹا نہ ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کورونا پاکستان سے ”کب جائے گی “ یا ”جائے گا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments