ٍٍڈپریشن اور خودکشی کا رجحان



امید اور مایوسی۔ اگر کوئی مجھ سے ان الفاظ کا مفہو م پوچھے، تو میں کہو ں گی۔ ایک زندگی اور ایک موت۔ ممکن ہے کئی لوگ میرے اس بیان سے متفق نہ ہوں، انہیں یہ جملے بہت سخت لگیں، لیکن اگر گہرا ئی سے جائزہ لیا جائے تو شاید حقیقت بہت مختلف نہ ہو۔ گزشتہ دنوں ایک چودہ سالہ لڑکے کی خودکشی کی افسوس ناک خبر پڑھنے کو ملی۔ اتنی کم عمری میں کوئی بچہ کیسے اس طرف مائل ہو سکتا ہے، یہ واقعی ایک فکر انگیز معاملہ ہے۔ والدین کو دور حاضر کے حالات و واقعات کے پیش نظر بچوں کے رویئے پر نگاہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں شرح خودکشی میں گزشتہ چند سالوں کے دوران تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔ پسند کی شادی نہ ہونا، امتحان میں ناکامی، محبت کا حاصل نہ ہو پا نا، بچوں کی ضروریات پورا کرنے میں ناکامی، ازدواجی رنجشیں، غربت و بے روزگاری اور مالی پریشانیاں، جنسی زیادتی، عدم برداشت، فرسودہ او ر جاہلانہ روایات کے خلاف غم و غصہ اور بے بسی وغیرہ اس کی نمایاں وجوہات ہیں۔ مغربی ممالک اور تیسری دنیا میں خودکشی کی وجوہات ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ مغربی ممالک میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی، مشینی زندگی، جذبات و احساسات سے عاری رویے، لادینیت وغیرہ کی بنا پر لوگوں میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت میں ا نتہائی درجے کی غربت اور جہیز کا نہ ہونا، نوجوان لڑکیوں اور دیگر افراد کو خودکشی پر مجبور کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والی معروف شخصیات میں امریکی اداکارائیں مارلن منرو اور برٹنی مرفی، شاعر شکیب جلالی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے چاکلیٹی فلمی ہیرو وحید مراد کی موت کو بھی بعض اخبارات و رسائل نے خودکشی سے تعبیر کیا جب وہ پروڈیوسرز اور پرستاروں کی بے اعتنائی، اور ازدواجی رنجشوں میں گرفتار، کسمپرسی اور تنہائی کے عالم میں ایک رو ز اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ بعض رپورٹس کے مطابق، ان کے منہ سے ایک پان برآمد ہوا اور غالباً وہی ان کی موت کا سبب تھا۔ ذرا سوچئے اگر یہ حقیقت ہے کہ وحید مراد جیسا دلوں پر راج کرنے والا ہیرو اقدام خود کشی پر مجبور ہو سکتا ہے تو پھر عام آدمی کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔

چند سال پیشتر امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے فہیم اور فیضان کی بیواؤں نے بھی خودکشی کو زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔ امریکی ڈالرز اور گرین کارڈ کی پیشکش کے باوجود انہیں زندگی اپنی جانب مائل نہ کر سکی۔ ان خواتین کی خودکشی کو ذرائع ابلاغ نے نمایاں کوریج دی۔ فہیم اور فیضان کے قتل کے بعد ان کی بیواؤں کی موت اور وہ بھی ا س طرح۔ ہر مکتب فکر کے دانشوروں نے اس واقعے اور اس کی وجوہات کی مذمت کی، لیکن ان سب کے باوجود مر نے والوں کو تو واپس نہیں لایا جا سکا۔

آخر وہ کون سی ایسی ذہنی کیفیت ہے جو ا نسان کو اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کر لینے پر مجبور کر د ے؟ یہ کیفیت ہے شدید ڈپریشن اور مایوسی۔ جب کوئی راستہ نظر نہ آتا ہو، جب سب دروازے بند ہو چکے ہوں، جب اپنوں نے بیگانگی اختیار کر لی ہو۔ یا جب زندگی سے دل اچاٹ ہو چکا ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورتیں صرف خودکشی کرنے والے کو نظر آتی ہیں یا فی الحقیقت ایسا ہوتا ہے؟ دراصل، خودکشی کر نے والے کے ذہن پر مایوسی اور تاریکی اس قدر چھائی ہوتی ہے کہ کوئی معمولی سی روشنی بھی اس تک نہیں پہنچ پاتی۔

یہ انتہائی منفی رویہ ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی ہمارے معاشرے میں فروغ پا رہا ہے حالانکہ اسلام نے واضح طور پر خودکشی کو حرام قرار دیا اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی تلقین کی ہے، پھر کیوں ہمارے اردگرد ایسے واقعات پیش آ تے ہیں؟ میرے خیال میں اس کی ایک اہم وجہ ذرائع ابلاغ پر ایسے واقعات کی مسلسل اور نمایاں تشہیر بھی ہے، جیسے چند سال قبل ایک رکشے والے نے اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے خودکشی کر لی تو کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور رکشے والے نے بھی اسی نوعیت کا اقدام کرتے ہوئے اپنے خاندان اور خود کو ہلاک کر لیا۔ اسی طرح گورنر ہاؤس، عدالتوں اور پریس کلب کے سامنے مختلف لوگو ں کی خودسوزی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

دراصل ہمارے ہاں حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان سے فرار ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ خودکشی کو مسائل کا ایک آسان حل سمجھ لیا گیا ہے جبکہ یہ صرف دنیاوی حالات سے فرار ہے۔ خودکشی کرنے والے کو مسلم ہونے کی صورت میں تاقیامت عذاب قبر جھیلنا ہو گا۔ تو پھر کون ایسا شخص ہو گا جو چار روزہ زندگی کی مشکلات سے گھبرا کر قیامت تک کا عذاب مول لینے پر راضی ہو جا ئے؟ آزمائشوں سے نہ گھبرانے او ر صبر کی تلقین اسی لئے کی گئی ہے کہ اللہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا لیکن عدم تحمل کے طرز عمل نے ہماری ذہنی اور اعصابی قوتیں سلب کر لی ہیں۔ ہم جلد ہمت ہار دیتے ہیں۔ مصائب و آلام کو دائمی سمجھ کر زندگی ہی کا خاتمہ کر لینے کا سوچنے لگتے ہیں۔ بقول ساحر لدھیانوی ؎

ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

اس رویے کی حوصلہ شکنی اشد ضروری ہے۔ سو عزیزو! مسائل کا رونا رونے کی بجائے ا ن کے حل کی طرف قدم بڑھائیے، امید کا دامن مضبوطی سے تھام لیجیے۔ آپ کی ذات سے اور کئی زندگیاں وابستہ ہوں گی لہٰذا اپنی اور دوسروں کی زندگی سے محبت کیجئے۔ یہی طریقہ ہے خودکشی کو شکست دینے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments