کیا امریکہ روبہ زوال ہے؟


جب سے امریکہ میں جارج فلائیڈ کے قتل کیواقعہ کے بعد وہاں پولیس کے ماورائے عدالت قتل اور اس کے اختیارات کا ناجائز استعمال اور رنگدار خصوصاً کالے افراد کے ساتھ متعصبانہ سلوک کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہوئی ہے اور وہاں مظاہرے شروع ہوئے ہیں جنہوں نے بہت جلد یورپ کو اپنے زیر اثر لے لیا بلکہ اسٹریلیا میں بھی وہاں لوگ اسٹریلیا کے مقامی لوگوں کے خلاف متعصبانہ سلوک کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان تمام مظاہروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ لوگ نہیں کر رہے جو اس کا شکار ہیں بلکہ بہت بڑی تعداد میں وہاں کی سفید فام آبادی اس میں شامل ہے۔

امریکہ میں یہ مظاہرے بہت بڑی تعداد میں پر تشدد ہو گئے جن میں املاک کو آگ لگائی گئی بہت ساری کاروں کو زیر آتش کیا گیا اس کے علاوہ دکانوں کو لوٹا بھی گیا یاد رہے کہ امریکہ میں بیروزگاروں کی سرکاری تعداد 3 کروڑ 80 لاکھ ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور 2018 ئکے ریکارڈ کے مطابق 553,000 لوگوں کے پاس سر چھپانے کو کوئی جگہ نہیں ہے اس افراتفری میں ان لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور بہت ساری دکانوں کو لوٹا بھی گیا جس کو جواز بنا کر حکومت نے کوئی درجن بھر ریاستوں میں کرفیو نافذ کر دیا اورنیشنل گارڈز کو متعین کر دیا جبکہ وہاں کی ریاستوں کے گورنروں پر دباؤ ڈالا کہ ان ریاستوں کو فوج کے حوالے کر دیا جائے جب کہ اس معاملے میں وہاں کے گورنروں نے اپنا موقف اپنا یا اور اس دباؤ کو رد کر دیا۔

جہاں ہنگامہ آرائی ہوئی ان میں واشنگٹن بھی شامل تھا جہاں لوگوں نے وہائٹ ہاؤس کے لان میں احتجاج کیا اور ایک ویڈیو جو بہت وائرل ہوئی جس میں جب پولیس والے احتجاج کرنے والے ایک سیاہ فام لڑکے کی طرف بڑھتے ہیں تو ایک سفید فام لڑکی اس سیاہ فام لڑکے اور پولیس کے بیچ میں آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے اس قسم کے واقعات ہوئے لیکن بلا تفریق رنگ و نسل لوگ سراپائے احتجاج رہے اور ایسا ہی پورے یورپ اور اسٹریلیا میں بھی دیکھنے میں آیا ہے جب کہ زیادہ تر ان ممالک میں آج کل دائیں بازو کی نسل پرست حکومتیں اقتدار میں ہیں لیکن وہاں کا معاشرہ بلا امتیاز رنگ و نسل اتنا آپس میں جڑ چکا ہے کہ یہ ممالک اب ایک قوم بن چکے ہیں جہاں ایک کا دکھ پوری قوم کا دکھ ہے اور جہاں معاشرے کے بیانیے نے حکومتی موقف کو دباؤ میں کیا ہے اور اگر اس کو میں اپنے ملک کے پیرائے میں دیکھوں تو جب ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اپنے لوگوں کے قتل پر سخت سردیوں میں دفنانے کے بجائے سڑکوں پر میتیں رکھ کر انصاف کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو وہاں صرف وہی ہوتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا اسی طرح گمشدہ افراد کے لیے بھی صرف ان کے رشتہ دار یا زیادہ سے زیادہ ان کے علاقے کے لوگ ہوتے ہیں جب کہ زیادہ تر لوگ صرف ریاستی بیانیہ ہی دہرا رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب را کے ایجنٹ ہیں اور کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا اور ایسا ہی ہمیں سابقہ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ بھی نظر آتا ہے۔

ہم لوگ ریاستی بیانیہ کو بغیر سوچے سمجھے اس پر ایمان لے آتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکہ میں لوگ اپنی عقل سے سوچتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوکر ایک قوم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں حد تو یہ ہے کہ جب ہندوستان میں مودی حکومت مسلمانوں کے خلاف قانون بناتی ہے تو جوہر لال یونیورسٹی کے طلباء بلا امتیاز اس کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں اور دلی کو بند کر دیتے ہیں جبکہ ہم بحیثیت عوام ایسی جڑت کا مظاہرہ نہیں کرتے اسی لیے جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو پھر زیادہ ہی اکیلا محسوس کرتے ہیں اور دیگر تمام کو اپنا دشمن گردانتے ہیں اس لیے ہم بہتر سال کے بعد بھی آج تک ایک قوم نہیں بن سکے ہیں۔

بہرحال ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ امریکہ کے ان واقعات کے بعد پاکستان بھرمیں ہمارے شو بز دانشوران اور سیاسی بزرجمہروں نے اس کے اور یورپ کے ٹوٹنے کی نوید سنانی شروع کر دی ایک سینئر اور انتہائی جذباتی تجزیہ نگار (جب کے تجزیہ کے لئے سب سے پہلی شرط غیر جذباتی اور مزاج کا ٹھنڈا ہونا ہی ہے ) نے تو اپنے ماہرانہ تجزیہ میں بتایا کہ امریکہ اور فرانس کی تو اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ ریٹائرڈ جنرل گل حمید کی وہ والی ویڈیو جس میں وہ امریکہ کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں وہ وائرل ہو گئی۔ اگر ہم اس پر غور کریں اور تھوڑا سا ماضی میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا لوگوں کہ احتجاجات کرنے سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں یا مضبوط ہوتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم موجودہ حالات کو بہتر طور پر پرکھ سکیں گے۔

امریکہ میں 1861۔ 1865 میں ایک زبردست سول وار ہوئی تھی جس کے بعد امریکہ بتدریج ایک سوپر پاور کے طور پر سامنے آیا۔ اسی طرح یورپ نے بھی اپنے آپ کو چرچ اور مطلق العنان بادشاہت سے اسی طرح ہی پیچھا چھڑایا تھا نہیں تو ایک وقت تھا کہ عرب اور ترک یورپ کو اپنا زیرنگیں رکھتے تھے۔ روس کو 1917 ء سے پہلے یورپ کا بیمار کہا جاتا تھا وہاں کی عوام نے جب لینن کے زیرقیادت انقلاب کیا تو روس بہت مضبوط ہو کر سوویت یونین بنا اور وہ روس جو پہلی جنگ عظیم میں شکست کھاتا ہوا ملک تھا پھر اس پر جب اسی دور میں چودہ ممالک نے اس پر چڑھائی کی تو اس نے فتح حاصل کی اور اپنے ملک کا شاندار دفاع کیا جو کہ بقول لینن کہ اس لیے ممکن ہوا کہ اب اس کی پشت پر عوام کی طاقت تھی۔

یاد رہے کہ یہی وہ سوویت یونین تھا جو ایک وقت میں دنیا کی سوپر پاور تھا۔ چین تو دنیا بھر میں ایک افیمی قوم مشہور تھی اور آج اگر جو چین دنیا کے افق پر چمک رہا ہے یہ ممکن ہی نہیں تھا اگر ماؤزے تنگ کی قیادت میں چینی عوام ایک جنگ لڑ کر اس وقت کے حاکموں سے اپنا ملک آزاد نہ کروا لیتی۔ ایران میں جب شاہ کے خلاف عوام کھڑی ہوئی اور گلی کوچوں میں لڑ کر شاہ کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ لیکن کیا یہ شاہ کے دور میں ممکن تھا جس طرح آج ایران اس خطے میں امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔

ا ن تمام مندرجہ بالا مثالوں میں ہم نظریاتی طور پر تو اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک ہمیشہ وہاں کے لوگوں کا نام ہے جبکہ ان کی مرضی اور منشاء ہی حکومت اور قانون کا نام ہے۔ جب امریکہ میں مظاہرین یہ کہتے ہیں کہ پولیس کے فنڈ بند کیے جائیں تو اس کے ساتھ ہی ایک اس سے بھی بڑھ کر ریڈیکل نعرہ سامنے آتا ہے کہ پولیس کا ہی خاتمہ کر دیا جائے جس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ فنڈز کا خاتمہ نہیں بلکہ فنڈز بڑھائے جائیں کیونکہ یہ قانون قائم کرنے والے ہیں۔

جب کہ خود امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روزانہ دو افراد ماؤرائے عدالت پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جب کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے یہ اوسط چار سے پانچ افراد کی ہے۔ بات تو پھر یہ ہے کہ کیا قانون عوام کا ہے اگر ہے تو پھر جب وہ کہیں تو اس کا خاتمہ ہو اور جیسا کہیں ویسا بن بھی جائے نہ کہ قانون ان پر مسلط کیا جائے اور جہاں تک بات ہے کہ پولیس ہی کا خاتمہ کر دیا جائے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ محلے کی سطح پر لوگوں کی ایسی جمہوری کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنے اپنے علاقے میں امن و عامہ کی ذمہ دار ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو دور میں ایک دفعہ پنجاب میں پولیس کی ہڑتال ہوئی تھی تو اس وقت محلے کی سطح پر پی پی پی کے ورکروں نے اپنے اپنے علاقے کا امن و عامہ کا نظم و نسق سنبھال لیا تھا اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے دن تک پنجاب میں کسی بھی قسم کی کوئی واردات نہیں ہوئی تھی۔

ہمارے ہاں اکثر یہ جملہ کہا جاتا ہے کہ فلاں ملک کی عوام بہت غریب ہے مگر ملک بہت ترقی یافتہ ہے تو عرض ہے کہ اگر ملک عوام کا نام نہیں ہے تو کیا سڑکوں اور عمارات کا نام ہے یا بیوروکریسی، فوج اور بڑے کاروباری لوگوں کا نام ہے۔ فرض کریں آج اگر دنیا سے تمام امیر لوگ اور اشرافیہ ختم ہو جائے تو کل کیا کاروبار حیات ختم ہو جائے گا لیکن اگر دنیا سے مزدور، کوڑا اٹھانے والے، ڈرائیور، معلم، دفاتر میں کام کرنے والے اور عام مگر کام کرنے والے محنت کش نہ رہیں تو کیا ہوگا۔

مندرجہ بالا پہلی صورت میں کام کرنے والے کاروبار حیات کو رکنے نہیں دئیں گے جیسا کہ اگر مالک موجود نہ ہو تو ورکر فیکٹری چلا سکتے ہیں لیکن اگر ورکر نہ ہوں تو مالک فیکٹری نہیں چلا سکتا لیکن دوسری صورت میں یقیناً کاروبار حیات رک جائے گا کیونکہ فیکٹری کا مالک اور اس کی بالائی ٹیم اس معاملے میں بالکل نا اہل ہوتی ہے اور اسی لیے پاکستان میں جبکہ کرونا اپنے عروج پر ابھی نہیں پہنچا تھا حکومت نے لاک ڈاؤن کھول دیا تھا کہ چاہے یہ محنت کش مر ہی کیوں نہ جائیں فیکٹریوں کے ایکسپورٹ کے آرڈر ملیں ہیں اس میں کہیں مل مالکان کو نقصان نہ ہو جبکہ اس میں تمام مینجمنٹ کی بالائی پرت تو اپنے ڈس انفیکٹیڈ دفاتر میں بیٹھی ہے اور غریب مزدور اسی خطرناک ماحول میں کام کر رہا ہے جس کہ باعث کرونا پھر یک دم پھیلا۔

یاد رہے 1967۔ 68 ء کی وہ عوامی تحریک ہی تھی جس کے باعث پاکستان میں جو عوام کو تھوڑی بہت مراعات ملیں کیونکہ مانگنے سے صرف خیرات ہی ملتی ہے اور حقوق تو حاصل کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ عوام ہی ہیں جن کی بدولت ملک قائم بھی رہ سکتے ہیں اور چل بھی سکتے ہیں اور جب اس میں ان کی مرضی اور منشاء شامل ہو جائیں تو یہ ناقابل تسخیر بھی ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments