خانصاحب پروفیسر قاضی فضل حق: کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے


رصغیر پاک و ہند کے ممتاز ماہر لسانیات، نامور محقق، مؤرخ اور بلند پایہ ادیب خانصاحب پروفیسر قاضی فضل حق کا شمار فارسی، عربی، اردو اور پنجابی زبانوں کے اکابر اساتذہ میں ہوتا ہے ان کا تعلق خطۂ یونان کی شہرت رکھنے والی سرزمین گجرات سے تھا۔ حکومت پنجاب کی ایک پرانی سول لسٹ کے مطابق تحصیل گجرات کے تھانہ کڑیانوالہ کے گاؤں حاجی والہ میں اگست 1887ء کو قاضی محمد دین کے ہاں پیدا ہوئے۔ قاضی محمد دین آبائی زمین کی کاشتکاری کے ساتھ ساتھ خاندانی روایت کے مطابق دینی و دنیاوی علوم کی تدریس بھی فی سبیل اللہ کرتے تھے۔

قاضی فضل حق کے آبا و اجداد مغلیہ عہد سے قاضی، امام، استاد، فقہیہ، مفتی، عارف و طبیب چلے آرہے تھے۔ خانصاحب کے اسلاف میں چھٹی پشت میں مشہور بزرگ حافظ جان محمد حاجی والہ میں گزرے ہیں وہ اورنگزیب عالمگیر کے معاصر تھے انہوں نے نوے ( 90 ) سال کی عمر میں محمد شاہی عہد میں 1200 ہ میں وفات پائی۔ و ہ پنجابی اور اردو کے مسلمہ شاعر تھے۔ حافظ برخواردار نے قصہ یوسف زلیخا اور میاں محمد بخش نے سیف الملوک و بدیع الجمال میں قدیم شعراء کے ضمنی ذکر میں جان محمد کا تذکرہ کیا ہے۔

قاضی فضل حق کے پڑدادا حافظ غلام احمد اور دادا قاضی علی احمد بھی اپنے عہد کے مشہور علماء کے طور پر جانے جاتے تھے۔ خانصاحب نے ابتدائی تعلیم حاجی والہ، پھانبڑہ، دہدرا، چک میراں، ملکی، اعوان شریف اور نواحی دیہات میں مقیم اپنے بزرگوں سے حاصل کی۔ پرائمری تعلیم کے بعد مڈل جلالپورجٹاں کے مشن سکول سے پاس کیا بعد ازاں میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے اسی سکول سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے والد اپنے ہونہار بیٹے کو پٹواری بنانا چاہتے تھے مگر ان کے سکول کے استاد مولوی نیک عالم نے ان کی ذہانت و محنت دیکھ کر انہیں مزید تعلیم کے لیے لاہور جانے کا مشورہ دیا۔

قاضی صاحب کی اپنی خواہش بھی یہی تھی چنانچہ وہ پڑھنے کے لیے لاہور چلے گئے اور وہاں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ میٹرک میں امتیازی نمبروں کے سبب انہیں وظیفہ بھی مل گیا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد اسی کالج سے انہوں نے دسمبر 1909 ء میں پنجاب یونیورسٹی کا بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1912 ء میں جامعہ پنجاب سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز اسی جامعہ سے فارسی میں منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ ایم اے عربی میں نمایاں حیثیت میں کامیابی پر انہیں میکلوڈ عریبک ریسرچ سکالر شپ ملا اور 1912 ء میں عربی زبان و ادب پر تحقیق کے لیے بحیثیت ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے۔

وہاں اس وقت جرمنی کے مشہور محقق Dr. Juseph Horovitz موجود تھے ان کی نگرانی میں عربی زبان و ادب پر تحقیق کی۔ اس دوران آپ نے عربی، عبرانی اور آسوری ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس حوالے سے مغربی علماء و فضلاء کی دانش و تحقیق سے مستفید ہونے کے لیے جرمن اور فرانسیسی زبانوں کو سیکھ کر عبور حاصل کیا۔ اس دور میں عریبک سوسائٹی علی گڑھ سے منسلک صدر الدین اور محمد اکبر عادل سے بھی مراسم قائم ہوئے دونوں بعد میں کالج کے پرنسپل بھی بنے۔

جولائی 1913 ء میں انہوں نے پراونشل ایجوکیشنل سروسز یعنی (P۔ E۔ S) کا امتحان پاس کیا اور پھر گورنمنٹ کالج راجشاہی (بنگال) میں عربی، فارسی اور اردو کے لیکچرر تعینات ہو گئے۔ اسی دور میں قاضی صاحب رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کے ممبر منتخب ہوئے اور سوسائٹی کی طرف سے انہیں M۔ R۔ A۔ S (London) کا اعزاز دیا گیا۔ انہی دنوں آپ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے رکن بھی بن گئے۔ بنگال میں قیام کے دوران ان کے خاص حلقہ احباب میں سر بذل الرحمن، سابق ڈائریکٹر پبلک انسٹرکٹر آسام محمد عطاء الرحمن، سابق صدر شعبۂ فارسی ناگپور یونیورسٹی، ایم اے غنی اور ٹی اے عالم شامل تھے قاضی صاحب کے پوتے رجل حق محمود کے مطابق اس دوستی کی ایک وجہ علم و ادب کے مشترکہ مشاغل تھے تو دوسری وجہ ٹینس کا کھیل بھی تھا جس کے قاضی فضل حق اچھے کھلاڑی تھے۔ راجشاہی کالج کے قیام میں ہی انہوں نے بنگال میں قلمی کتابیں فروخت کرنے والوں سے عربی، فارسی، اردو، پنجابی کے بہت سے نایاب اور قیمتی قلمی نسخے خریدے تھے۔

اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی کے جز وقتی استاد ہوا کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے شروع میں ہی کالج کے پرنسپل J۔ Stephenson نے باقاعدہ لیکچرر کی کمی کا احساس کرتے ہوئے دسمبر 1914 ء میں قاضی فضل حق کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی کا پہلا مستقل لیکچرر تعینات کیا۔ اس طرح وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی، عربی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ و ہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی کے پہلے باقاعدہ صدر شعبہ بھی ہوئے اور 25 سال تک صدر شعبۂ فارسی رہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کی تنخواہ کا ایک خاص گریڈ تھا جس کے مطابق صرف آپ کو تنخواہ ملی اور قاضی صاحب کے بعد یہ گریڈ ختم کر دیا گیا۔ پروفیسر قاضی فضل حق کالج سے مختلف انتظامی حیثیتوں سے بھی وابستہ رہے، ایک مرتبہ انہیں غیر مقامی کالج میں بطور پرنسپل بھی تعینات کیا گیا مگر انہوں نے بطور استاد کام کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے یہ پیش کش ٹھکرا دی، لاہور آنے کے بعد قاضی صاحب پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے رکن منتخب ہوئے۔

سوسائٹی کے ایک اجلاس میں پنڈت ہری کشن کول نے ایک مضمون ”نادر شاہ کی وار“ پڑھا جسے سن کر قاضی کو ”چٹھیاں دی وار“ مرتب کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے دور دراز دیہاتوں کا سفر کر کے اسے جمع کرنے کی سعی کی۔ اسی تلاش میں انہیں اپنے چچا قاضی نور الدین مرحوم کے کتب خانے سے شکستہ حالت میں وار کا ایک قلمی نسخہ مل گیا جس کے متن پر عالمانہ عرق ریزی کے بعد اس حوالے سے ایک انگریزی مضمون ”چٹھیاں دی پوڑی“ کے نام سے لکھا اور اسے 14 دسمبر 1916 ء کو پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی لاہور کے اجلاس میں پڑھ کر اس وار کا اہل علم سے پہلی بار بھرپور تعارف کروایا۔

1917 ء میں قاضی فضل حق وائسرائے ہند کے مامور کرنے پر ریاست بیکانیر بطور شاہی مہمان گئے۔ ریاست بیکانیر کے مہاراجے کی جانشینی کا مسئلہ در پیش تھا اس سلسلے میں مہاراجہ کے باپ کی وصیت قدیم فارسی اور شکستہ خط میں تھی اور برصغیر کے بڑے بڑے عالم اسے نہ پڑھ سکے تھے۔ پروفیسر قاضی فضل حق نے کمال مہارت سے یہ فریضہ بخوبی سر انجام دیا تو مہاراجہ نے ان کی بڑی قدر کی۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت کے ساتھ ہی کچھ عرصہ بعد قاضی صاحب پنجاب یونیورسٹی میں بھی لیکچر دینے لگے۔ یہ تعلق 1919 سے قبل ہی قائم ہو گیا جو ان کی وفات تک قائم رہا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فیلو تھے اور مختلف بورڈز اور فیکلٹیز کے ممبر تھے۔ ان کا پنجاب یونیورسٹی سے تعلق مختلف تعلیمی اور انتظامی حیثیتوں سے رہا۔ وہ اس جامعہ سے میٹرک، بی اے (آنرز) اور ایم اے کے ممتحن کی حیثیت سے بھی وابستہ رہے۔ قاضی صاحب بطور ممتحن بہار، بنگال، آسام، دہلی، علی گڑھ، الہٰ آباد، میسور اور حیدر آباد دکن کی یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی کام کرتے رہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کی تبحر علمی کے چرچے تھے اور ہر کوئی انہیں محبت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا مگر ان کے خاص دوستوں میں پرنسپل پروفیسر گیرٹ، بعد میں پرنسپل بننے والے ڈاکٹر ڈنی کلف، اس وقت کے صدر شعبۂ عربی ڈاکٹر صدر الدین، صدر شعبۂ ہندی و سنسکرت پروفیسر گلبہار سنگھ، پروفیسر قاضی اسلم، پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس) اور شعبۂ فارسی کے استاد صوفی تبسم شامل تھے۔ قاضی صاحب نصابی و تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بہت متحرک رہے۔

وہ کالج کی پرشین سوسائٹی کے صدر تھے۔ وہ علمی و ادبی سرگرمیوں کی سوسائٹی بزم سخن کے بھی سربراہ تھے۔ گورنمنٹ کالج کے مجلہ ”راوی“ سے بھی ان کا گہرا تعلق رہا۔ وہ ’راوی‘ کے نگران بھی رہے۔ اپریل 1932 ء کے ’راوی‘ کا شمارہ جو ن م راشد کی زیر ادارت شائع ہوا تھا، اس شمارے کو خانصاحب پروفیسر قاضی فضل حق کے نام سے معنون کیا گیا۔ بعد میں ”راوی“ کے ایک شمارے میں قاضی صاحب کے لیے خاص گوشہ بھی شائع ہوا۔ ’راوی‘ کا پنجابی حصہ گورمکھی میں شائع ہوتا تھا، اس کا فارسی رسم الخط میں پنجابی حصہ یعنی شاہ مکھی میں یہ حصہ قاضی صاحب کی کوششوں سے شروع ہوا۔

محترم قاضی صاحب پنجابی سوسائٹی اور اس کی سرگرمیوں میں بھی فعال تھے اور مسلمان طالبعلموں کو پنجابی کی طرف راغب کرنے میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت ہوتی تھی اور مسلمانوں کو صرف چالیس فیصد نشستیں ملتی تھیں۔ کالج میں مسلمان طلباء کے مفادات کے تحفظ کے لیے پروفیسر قاضی فضل حق کی کاوش سے ”مسلم مجلس“ کا قیام عمل میں آیا۔ قاضی صاحب فلاحی کاموں میں بھی خاصی دلچسپی لیتے تھے اور سینٹ جان ایمبولینس سوسائٹی پنجاب برانچ کے عہدیدار تھے ان کی رفاعی خدمات کی وجہ سے گورنر پنجاب نے انہیں کئی اسناد اور اعزازات سے بھی نوازا۔ گورنمنٹ کالج میں بھی ایمبولینس کلب کے نام سے رفاعی سوسائٹی تھی۔ 1930 کے بعد جی سی کے ایمبولینس کلب کے انتظامات کی ذمہ داری بھی قاضی فضل حق کو سونپ دی گئی اور وہ اپنی وفات تک یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔

1925 ء کے آغاز میں ڈاکٹر شانتی سروپ بھٹناگرڈی کی دعوت پر قاضی فضل حق نے سائنسی علوم کی ترویج کے لیے ”سوسائٹی فار پروموٹنگ سائنٹفک نالج (S۔ P۔ S) کی رکنیت لے لی۔ اس سوسائٹی کے زیر اہتمام اپریل 1925 میں ڈاکٹر شانتی سروپ کی ادارت میں اردو مجلہ“ روشنی ”شروع ہوا تو پروفیسر قاضی فضل حق اس کے اعزازی جوائنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ پروفیسر قاضی صاحب انڈین اورینٹل کانفرنس کے رکن اور اس کی مجالس کے سرگرم ممبر ہوتے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پنجابی زبان و ادب سے متعلق جتنے اجلاس ہوئے قاضی صاحب ان کے منتظم تھے۔ علامہ محمد اقبال کی صدارت میں قائم ہونے والے ادارہئی معارف اسلامیہ کے بانی اراکین میں بھی قاضی فضل حق شامل تھے۔ اپریل 1933 کے پہلے اجلاس کے انعقاد میں بھی قاضی صاحب پیش پیش تھے۔ شیخ عبدالقادر، علامہ عبداللہ یوسف علی، ڈاکٹر بی اے قریشی، حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر محمد اقبال، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین کے ہمراہ پروفیسر قاضی فضل حق استقبالیہ کمیٹی میں تھے۔

ادارہئی معارف اسلامیہ کے آئندہ اجلاس اپریل 1936 ء میں قاضی صاحب نے“ پنجابی علم و ادب میں مسلمانوں کا حصہ ”کے عنوان سے مقالہ پڑھا اور ثابت کیا کہ پنجابی صرف سکھوں کی زبان نہیں بلکہ شروع سے ہی مسلمانوں نے اس زبان کی خدمت کی ہے۔ پروفیسر قاضی فضل حق انجمن حمایت اسلام سے بحیثیت اعزازی چیئرمین تالیف مطبع کمیٹی بھی کام کرتے رہے۔ انجمن کی اسلامیہ کالج کمیٹی کے ممبر تھے اور انجمن کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ پنجاب ایجوکیشنل کانفرنس، پنجاب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بھی ان کا مختلف انتظامی حیثیتوں میں تعلق رہا۔ وہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے بساط بھر کوشاں رہے۔

ان کی مطبوعات میں درسی کتب بھی شامل ہیں جن میں (1) سرگذشت مرد خسیس (2) سرگذشت حکیم نباتات، (3) چٹھیاں دی وار، (4) جٹ دی کرتوت، (5) فارسی کی پہلی کتاب، (6) فارسی کی دوسری کتاب (7) فارسی کی تیسری کتاب، (8) پرشین میٹریکولیشن گرائمر، (9) سفینۂ ادب، ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان کے درجنوں تحقیقی مقالے ادبی جرائد میں شائع ہوئے۔ فارسی کے علاوہ انہیں اردو اور پنجابی ادبیات سے بھی گہرا شغف تھا اور وہ ان زبانوں کے ادب کے حوالے سے تا دم مرگ مصروف تحقیق رہے۔

ان کی تحریروں کو ان کے بیٹے بذل حق محمود اور پوتے رجل حق محمود نے بڑی تندہی سے جمع کر کے شائع کروایا۔ قاضی فضل کی کتب میں (1) مقالات پروفیسر خانصاحب قاضی فضل حق، (2) سخنواران برصغیر، (3) پنجابی علم و ادب میں مسلمانوں کا حصہ (4) سخنوران ایران، (5) سخن وران ایران نو، (6) شعراء مثنوی سرا، (7) روح نوین (8) ہیست رومان کو چک (9) نوفرہنگ شائع ہو کر نقادان اور قارئین سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔

پروفیسر قاضی فضل حق کی تعلیمی، علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات اس قدر نمایاں تھیں کہ حکومت ہند کو بھی اس طرف توجہ دینا پڑی چنانچہ یکم جنوری 1933 ء کو ہندوستان کی مرکزی حکومت نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں قاضی صاحب کو ”خان صاحب“ کا خطاب دیا۔ اس اعزاز پر ممتاز شاعر حفیظ ہوشیارپوری نے اردو اور فارسی میں قطعات تاریخ کہے تھے۔ مثلاً اردو قطعہ یوں تھا کہ

خوشا فضل حق ہو گئے خانصاحب
خدا نے کی ہے ان پہ نظر عنایت
حفیظ انتہائے طرب سے کہو تم
جہاں میں ہوئے ہیں مشرف بہ عزت

اس موقع پر تمام ہندوستان سے ان کے دوستوں، مداحوں اور معززین نے انہیں مبارکباد کے سینکڑوں خطوط لکھے۔ جبکہ لاہور کی میونسپل کمیٹی نے گورنمنٹ کالج لاہور کے نزدیک جس سڑک پر ان کا مکان تھا اس کا نام ”حق سٹریٹ“ رکھ دیا۔

پروفیسر خانصاحب قاضی فضل حق زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ صرف 52 برس کی عمر میں علیل ہوئے اور مختصر علالت کے بعد ہی 30 جولائی 1939 یعنی 12 جمادی الثانی 1358 ہ بروز اتوار لاہور میں انتقال کر گئے۔ مرنے سے قبل ہی انہوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ انہیں بعد از وفات ان کے آبائی گاؤں موضع حاجی والہ (نزد کڑیانوالہ ضلع گجرات) میں والد قاضی محمد دین کے پہلو میں سپرد خاک کیا جائے۔ چنانچہ علم و ادب کی دنیا کا درخشندہ ستارہ، پاک و ہند میں اپنے علمی مرتبے کو منوا کر حاجی والہ ضلع گجرات میں آسودۂ خاک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments