پندرہ منٹ حضور، صرف پندرہ منٹ!


میراقصور کیا ہے حضور؟ دوسرے پروگراموں کے مقابلے میں اخراجات زیادہ کراتی ہوں اور نہ ہی وقت زیادہ مانگتی ہوں۔ ریڈیو پاکستان کے انہی سٹوڈیوز میں کبھی میرا دورانیہ اوسطاً ڈیڑھ سے دو گھنٹے روزانہ ہوا کرتا تھاجو 2003ء تک گھٹتے گھٹتے پندرہ منٹ تک آ چکا تھا اور وہ بھی باقاعدہ نہیں۔ جب بھی قومی نشریاتی رابطے پر کسی پروگرام یا کسی مذہبی تہوار کے لئے شیڈول سے وقت منہا کرنا مقصود ہوتا، تو نخل دار پر مجھ غریب ہی کا بار آتا اور یوں مہینے میں تیس پروگراموں کے بجائے بمشکل بیس بائیس پرو گرام ہی ممکن ہو پاتے۔

غور فرمائیے حضور، پندرہ منٹ کے پروگرام پر خرچ ہی کتنا آتا ہے؟ صرف تین یا چار سازندے اور مرکزی فنکار کا اس کی کیٹگری کے مطابق اعزازیہ! مان لیا کہ کلاسیکی موسیقی کے پروگرام کے لئے اشتہار نہیں ملتے مگر حضور یہ خواص کا فن ہے، عوام کا نہیں۔ اس کی سرپرستی اور ترویج و ترقی ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے نہ کہ تندہی سے سیکھنے اور خون جگر جلا کر مسلسل ریاض کرنے والے فنکاروں کی! صدیوں پہلے شاعری کے فن پر بات کرتے ہوئے امیر خسرو فرما گئے ہیں :

سبزہ نشود مگر ز باران
شعر از کرم کرم گزاران
(جس طرح بارش کے بغیر سبزہ نہیں اگتا، اسی طرح شاعری کا فن بھی سرپرستی کے بغیر نشوونما نہیں پاتا)

حضور مجھے یہ دوہرانے کی ضرورت نہیں کہ کلاسیکی موسیقی فنون لطیفہ کی ان عمدہ ترین شکلوں میں سے ایک ہے جسے سننے اور کم از کم تحسین یا نقد و نظر کے لئے بھی اس فن کی مبادیات سے آگاہی ضروری ہے۔ بہ الفاظ دیگر جہاں اسے گانے یا بجانے کے لئے سیکھنا ضروری ہے وہاں اسے ”سننا“ بھی سیکھنا پڑتا ہے! غالباً اسی لئے ”گویے“ کے ساتھ ساتھ ”سنویے“ کی اصطلاح بھی موجود ہے جب کہ دیگر فنون لطیفہ میں شاذ ہی ایسی صورت ہو۔ سیکڑوں یا درجنوں سامعین میں ”سنویے“ چند ایک ہی ہوتے ہیں۔

پی ٹی وی کا تو ذکر ہی کیا کہ جسے 1960ء کی دہائی میں ایک الیکشن مہم کو بڑھاوا دینے کی خاطر شروع کیا گیا لیکن خدا لگتی کہوں تو اپنے قیام کی پہلی چار دہائیوں میں یہاں سے بھی ”راگ رنگ“ کے نام سے ماہانہ ایک پروگرام سہی، کلاسیکی موسیقی ضرور پیش ہوتی رہی۔ رفتہ رفتہ یہ دورانیہ تیس منٹ تک آیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ صد حیف کہ پچھلے پندرہ برسوں کے دوران سرکاری اور پرائیویٹ چینلوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کے باوجود کسی چینل پر بھی کلاسیکی موسیقی کے لئے چند منٹ مہیا نہ ہو سکے۔ لیکن حضور، ریڈیو تو یہ وضعداری کافی دیر تک نبھاتا رہا مگر اب تقریباً گزشتہ ایک دہائی سے داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی یہ شمع بھی خموش ہے!

سرکاری سرپرستی میں چلنے والی آرٹس کونسلوں کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ انہیں چلانے والے ارباب بست و کشاد کے لئے مصوری، ڈرامہ، لوک موسیقی، فلم اور دیگر فنون پہلی جب کہ کلاسیکی موسیقی ہمیشہ سے آخری ترجیح رہی ہے۔ اگر کبھی کسی کلاسیکی فنکار نے حکومتی حلقوں میں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پران اداروں میں کسی پروگرام کا انعقاد ممکن بنا لیا تو یہ ایک طرح سے انفرادی سطح پر اس کی مالی معاونت ہوئی مگر ادارہ جاتی سطح پرا ن اداروں کی جانب سے شاذ ہی کوئی اقدام نظر آیا ہے۔

کچھ کیجئے حضور، کچھ تو کیجئے! کلاسیکی موسیقی گانے اور بجانے والے ملک میں رہ ہی کتنے گئے ہیں اور یہ بھی یقین کر لیجیے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے اکا دکا پروگراموں سے ان کا گھر نہیں چلتا۔ یہ پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ محض ان کے اظہار فن کے لئے ایک مناسب پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں جہاں ایک طرف اساتذہ فن محدود وقت میں اپنی ریاضت کا نچوڑ پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف نوآموز فنکار، مطلوبہ کڑے معیار پر پورا اترنے اور موقع مل پانے کی صورت میں، اپنا آموختہ حتی المقدور بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں زیادہ ترویج فن کی ہوتی ہے نہ کہ فنکار کی کیونکہ کلاسیکی موسیقی سے وابستہ فنکار، چاہے گھرانہ دار ہو یا غیر گھرانہ دار، حقیقی معنوں میں اس فن پر مر مٹا ہوتا ہے۔ پروگرام نہ بھی ملے تو وہ اپنے دل کی لگن کے باعث کمال فن کی جستجو میں ریاض جاری رکھے گا۔ لیکن کب تلک حضور، آخر کب تلک؟

پنجابی محاورے کے مطابق اب بھی گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔ انھیں سمیٹنے کی تدبیر کیجئے اور دوبارہ جھولی میں بھر لیجیے۔ یقین کیجئے حضور، یہ بیر نہیں بیش قیمت نگینے ہیں جو کسی ملک کے ثقافتی افق پر جگمگاتے ہیں تو ان سے پھوٹنے والی شعاعیں دنیا کو آپ کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments