گلگت بلتستان پولیس کا دو ’انڈین جاسوس‘ پکڑنے کا دعویٰ


گزشتہ روز گلگت بلتستان کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دو انڈین جاسوسوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے بی بی سی سے کو بتایا ہے کہ مذکورہ دونوں جاسوسوں کو گلگت بلتستان کے علاقے استور، جہاں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی لائن آف کنٹرول کا علاقہ آتا ہے، اس مقام سے لائن آف کنٹرول کو کراس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے چند دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے نام نور احمد وانی اور فیروز احمد لون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد کو بارڈر کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ ’جب ان کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس وقت انھوں نے ہمارے سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا تھا کہ وہ مال مویشی کی حفاظت کرتے ہوئے غلطی سے لائن آف کنٹرول کراس کرچکے ہیں۔ یہ ہی ان دونوں کی غلطی تھی کیونکہ اس لائن آف کنٹرول کے علاقے میں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں افراد جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں کے عوام اور نوجوان انڈیا کے حامی ہیں وہاں پر انڈیا کے خلاف کوئی بھی تحریک یا احتجاج موجود نہیں ہے۔

فیض اللہ فراق نے دعویٰ کیا ہے کہ ان دونوں کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے گریز سے ہے جہاں پر گلگت بلتستان کے لوگوں کی طرح گلگتی زبان بولی جاتی ہے۔

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ دونوں جاسوسوں سے جو تفتیش ہوئی ہے، اس میں انھوں نے ہمارے تحقیقاتی اداروں کو بتایا ہے کہ ان دونوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را نے زبردستی پاکستان کے علاقے میں داخل کیا ہے۔

’ان کو کہا گیا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے ساتھ رابطے کریں اور پاکستان فوج سے کہیں کہ وہ انڈیا کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ رابطے پیدا کر کے پاکستانی فوج اور پھر گلگت بلتستان کے حوالے سے معلومات را سے شیئر کریں۔‘ فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ ان دونوں نے ہمارے تحقیقاتی اداروں کو بتایا ہے کہ ہمیں را نے کشمیری مجاہدین بننے کی تربیت فراہم کی تھی اور یہ کہا تھا کہ ہمیں پاکستان فوج اور احکام سے مل کر کشمیری مجاہدین بننے کا روپ دھارنا ہے۔

گلگت پولیس نے اپنے دعویٰ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے دونوں مبینہ جاسوسوں کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ جہاں پر فیروز احمد لون کا کہنا تھا کہ وہ ایک مزدور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں بھارتی احکام نے ایک اور شخص رؤف سے ملاقات کروائی تھی اور کہا تھا کہ یہ شخص ہمارے مدد کرے گا۔ اس نے ہماری ملاقات انڈین خفیہ ایجنسی را کے افسران سے کروائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انڈین خفیہ ایجنسی نے دھمکیاں دیں کہ اگر ہم ان لوگوں کے لیے کام نہیں کریں تو ہمیں اور ہمارے خاندان کو جان سے مار دیا جائے گا اور اگر ان کے لیے کام کریں گے تو ہماری اور ہمارے خاندان کو پیسے فراہم کیے جائیں گے۔

’جب ہم کام کے لیے تیار ہوئے تو ہمیں ایک لاکھ روپیہ دیا گیا اور کہا کہ مشن مکمل ہونے کے بعد مزید دس لاکھ دیا جائے گا۔‘

پاکستان حکام کی جانب سے جاسوس قرار دیے جانے والے دوسرے مشتبہ جاسوس نور احمد وانی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت پاکستان سے گزارش کی ہے کہ ہمیں رہا کیا جائے۔

گلگت پولیس کے مطابق دونوں پر سیکورٹی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں سے انڈین کرنسی، موبائل، بھارتی شہریت اور طالب علمی کے کارڈ اور کچھ ایسے آلات بر آمد ہوئے ہیں جو جاسوسی کے کام آسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp