پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ


کرونا کی عالمی وبائی پھوٹ کے بعد سے لے کر آج تک زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کی طرح انسانی نفسیات بھی اس وبا کے زیر تسلط ہیں۔ بھارت میں گائے کا پیشاب پینے سے لے کر پاکستان میں چھتوں پر بے وقت اذانیں دینے تک اور افریقہ میں قبرستانوں کے اندر چیخ چیخ کر رونے سے لے کر امریکی چرچ کے زنگ آلود تالے کو رو رو کر کھولنے تک سب کچھ ہوا لیکن یہ سب کر کے کوئی بھی وائرس سے نمٹنے کے لئے ویکسین نہیں بنا پایا۔ اب چونکہ اس بیماری کا موجب ایک مخصوص وائرس ہے اور وائرس سے جان چھڑانے کے لئے ویکسین بنانے کی ضرورت ہے جس پر ہمارے سائنسدان پوری آب و تاب کے ساتھ لگے ہوئے ہیں لیکن جب تک ویکسین تیار نہیں ہوتی تب تک ہم اپنے اطمینان کے لئے دعا اور احتیاط کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرنے کے باوجود ہم بطور معاشرہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس صورتحال سے نکلنا خالص ہمارے احتیاط کے رحم و کرم پر ہے۔

کرونا کی وبا عالمی ہے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ وبا ایک بڑے حد تک انسان کے نفسیات پر سوار ہو چکی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اور خطرے سے خالی اس لیے نہیں ہے کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عقائد کی اہمیت کسی بھی چیز سے زیادہ اور نازک ہو، اور عام لوگوں کے خیال میں ایسے مذہبی شخصیات جو حقیقت میں مذہب کو اپنی جاگیر سمجھتے ہو، کا قد کافی بڑا اور مقدس ہو، وہاں نفسیاتی تسلط کے پیدا کردہ توہمات سائنس کے راستے میں آسانی سے رکاوٹ بننے کی صلاحیتوں سے لیس ہوتے ہیں۔

مذہب کو اپنی جاگیر سمجھنے والے وقتاً فوقتاً اس کے خودساختہ تشریحات گھڑتے رہتے ہیں۔ ایسے تشریحات عموماً جاہلیت کے نتائج ہوتے ہیں اور کبھی کبھار پری۔ پلانڈ، یعنی کسی سیاسی یا کاروباری مقصد کے حصول کے لئے ایک عام شہری کے ذہن میں اپنے عمل کو مقدس اور تنقید سے بالاتر کرانے کے لئے متعارف کرائے جاتے ہیں۔ ایسے اقدامات کے نتائج عوامی سطح پر توہمات کی شکلوں میں آتے رہتے ہیں۔

جب تک توہمات مذہب کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوتے ہیں تب تک ایک عام انسانی ذہن جو ایک دقیانوسی خیالات کے حامل معاشرے میں پیدا ہو کر جوان ہوا ہو، سے اسے نکالنا بھوکے شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ایسے توہمات سائنس کی راہ کے روڑے بن سکتے ہیں، حال ہی میں شائع ہونے والے ”دی ڈپلومیٹ“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک بڑے پیمانے پر لوگ کرونا کے وجود تک کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بقول سرے سے کوئی بیماری ہے ہی نہیں اور جو ہورہا ہے یہ سب کچھ یہودیوں اور صلیبیوں کی سازش ہے جو ہمیں مسجدوں میں جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ کرونا وبا پھیلی ہوئی ہے لیکن مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ مسلمان دن میں پانچ بار وضو کرتے ہیں جس سے کرونا صاف ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو موت کو اس معنوں میں ایک حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری موت کا دن پہلے سے متعین ہوتاہے، یعنی ہم احتیاط کریں یا نہ کریں، لیکن اگر ہمارا مرنا تقدیر میں اس بیماری سے لکھا ہوا ہے تو ہم ایسا ہی مریں گے۔ ایسے خیالات کو ہمارے یہ سادہ لوح عوام تقدیر پر یقین اور توکل کا نام دیتے ہیں۔

مولانا طارق جمیل کے نام سے کون واقف نہیں، موصوف ملک کے جانے پہچانے داعی اور تبلیغی جماعت کے رہنما ہے۔ کچھ دنوں پہلے موصوف نے بڑی ڈھٹائی سے عورتوں کی بے حیائی کو کرونا وبا کے لئے میڈیا کے سامنے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔

اب یہ حقیقت آج ہو یا کل، لیکن پوری دنیا کو ماننا پڑے گا کہ اس وبا سے دنیا کو سائنس ہی نکالے گی۔ اور جب کرونا کے بعد کی دنیا شروع ہوگی تو امید ہے کہ انسانی ذہنوں کے اوپر سے بہت سے پردے ہٹ چکے ہوگے۔ یہ بات تو واضح ہو ہی جائے گی کہ کم از کم یہ ہمارے مسجدوں کو بند کروانے کے لئے نہ یہودیوں اور صیہونیوں کی سازش تھی، اور نہ ہی یہ عورتوں کی بے حیائی کے باعث پھوٹنے والی وبا تھی۔ یہ حقیقت بھی مان لی جائے گی کہ وائرس کے حملے سے بچنے کے لئے دن میں صرف پانچ دفعہ وضؤ کرنا بھی کافی نہیں تھا۔

کرونا جیسی صورتحال میں توکل پر منحصر ہونا عین خودکشی ہے۔ کیونکہ نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو گے، اس لیے تقدیر اور توکل کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر مبالغوں کی قید سے آزاد ہونے کی بڑی امید ہے۔ اب نگاہیں منتظر ہیں کہ کب سائنس کرونا کو شکست دے کر زندگی کو بحال کرے گی، اور توہمات کے بنائے گئے پردے کسی حد تک ہٹ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments