سماجی فاصلے کی ہدایت اور بے عملی تصویر


سماجی فاصلے کا جو مذاق ہم لوگ اڑاتے ہیں شاید ہی دنیا میں کوئی قوم ایسا کرتی ہو۔ دنیا میں جن اقوام نے سماجی فاصلے پر عمل کیا تو مثال قائم کر دی اور جن نے مخالفت کی تو کھلے عام اس کا اظہار بھی کیا کہ وہ ایسی کسی حکمت عملی پر نہ تو یقین کرتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل۔ مشایدے میں یہ بھی آیا کہ دنیا کی بیشتر آبادی نے کرونا کی وبا کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی۔ جو باتیں تیسری دنیاء یا غریب ترین ممالک کے گلی محلوں میں زیر بحث ہیں اسی سے ملتی جلتی سوچ امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والی آبادی کے بیشترحصے میں بھی پائی جاتی ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں نے حفاظتی تدابیر سے پہلو تہی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں اب کرونا پر کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ جیسے ملک نے تو کرونا فری ہونے کا دعوی تک کر دیا ہے۔ اچھی بات ہے کسی جگہ تو انسانیت محفوظ ہو گئی ہو۔

مارچ کے مہینے میں کہ جب کرونا ہمارے ملک پر حملہ آوور ہو رہا تھا تو اس قدر خوف و ہراس پیدا کیا گیاکہ ایک ہی دن میں پورے ملک میں سیراسیمگی پھیل گئی۔ شہر اجڑ گیے سڑکیں ویران ہو گئیں۔ سڑکوں پر دوڑتی سرکاری اہلکاروں کی گاڑیوں کے غول دیکھ کر اور خوفناک سائرن سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید دنیا چند دن کی مہمان ہے۔ اس ماحول میں خوف کا شکار لوگوں کو روز کئی بار محسوس ہوتا کہ وہ کرونا کی وبا کا شکار ہو گیے ہیں۔ میں خود بھی ایک رات تقریباً ایک گھنٹے تک موت و حیات کی کشمکش میں رہا۔ سوچا کہ وصیت لکھ دوں لیکن ہمت نہیں کر سکا اس لیے کہ مرنے سے پہلے مرنا نہیں چاہتا تھا۔

خیر موت کب پوچھ کر آتی ہے شاید پہلی بار رمضان میں پوری انسانیت کی خیریت کے لیے دعائیں کیں۔ ویسے بھی انسان کی انسان سے کیا دشمنی ہے۔ یہ دشمنیاں تو دنیا کے چند طبقوں کی ہیں چاہیے وہ مذہبی ہوں سیاسی ہوں معاشی ہوں یا کوئی اور جن کا شکار پوری انسانیت رہتی ہے۔ کرونا کے حوالے سے بھی سب سے موثر سازشی تھیوری یہی سامنے آ رہی ہے کہ یہ امریکہ چین بائیلاجیکل وار کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ساری انسانیت متاثر ہو گئی ہے۔ چائنہ اور آمریکہ کے کروڑوں لوگ زندگی میں کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے لہذا ان کے درمیان کیا دشمنی ہو سکتی ہے یہ تو محض چند مقتدر طبقوں کی توسیع پسندانا خواہش کا نتیجہ ہے۔ ویسے مشایدے کی بات یہ بھی ہے کہ جب بھی ایک عام انسان دوسرے سے پہلی بار ملتا ہے تو وہ دوستی کے رشتے کی بنیاد رکھتا ہے۔

دنیا کرونا وائرس سے چٹھکارہ حاصل کرنے کی طرف جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ آئے روز اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سردیاں تھیں تو سوچ رہے تھے کہ گرمیوں میں ختم ہو جائے گا اور اس امید پر احتیاط کے سارے دامن چھوڑ دیے۔ ہم نے جو تعلیم و تربیت حاصل کی ہے اس کے نتیجے میں ذہنی طور پر اج تک ہم نے اس وبا کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سامنے کوئی بیمار ہو کر مرے تو تب ہمیں یقین ہو گا کہ یہ وبا ہے۔ اب گرمیاں ہیں تو وبا کا بھی عروج ہے۔

غیر سرکاری اندازوں کے مطابق دسیوں لاکھ لوگ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ بداحتیاطی رمضان کے مہینے میں دیکھنے میں ائی۔ دکاندار تڑپ رہے تھے کہ اگر دکانیں نہ کھلیں تو بھوکے مر جائیں گے اور دوسری جانب عوام اس لیے تڑپ رہے تھے کہ نئے کپڑے نہ لیے تو شاید عید کا چاند نظر نہیں آئے گا۔ رمضان میں مارکیٹوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ حکومت نے ایس او پیز بنائے لیکن عوام کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید زندگی کی پہلی یا آخری عید منائی جائے گی۔

حکومت پاکستان بھی اول روز سے کوئی واضح پالیسی اپنا نے سے قاصر رہی۔ کبھی لاک ڈاؤن کیا جاتا رہا کبھی چھوٹ دی جاتی رہی۔ ملک میں سرکاری طور پر بتائے گیے اعداد و شمار کے مطابق قریب قریب سوا لاکھ لوگ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔ جس رفتار سے یہ وبا بڑھ رہی ہے اس سے کہیں بڑھ کر ہم بحیثیت قوم بد احتیاطی کی حدیں پھلانگ رہے ہیں۔ ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر منظر دیکھ کر تو یہ لگا کہ شاید قیامت تک ہمارے ہاں کوئی تبدیلی نہ آ سکے۔

مسجد کے احاطے میں سماجی فاصلے کے تحت لوگوں کو کھڑا کیا گیا تھا لیکن جو لوگ باہر کھڑے تھے وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے تھے۔ جب نماز ختم ہوئی تو باہر نکلتے ہوئے سب لوگ ایک ہجوم کی شکل میں دروازے میں پھنس رہے تھے۔ ماسک کا استعمال بھی نہ ہونے کے برابرہے۔ مارکیٹ میں جا کر دیکھیں تو وہاں بھی یہی حال ہے۔

ایک اور بات جو مجھے تماشا لگی کہ سوشل میڈیا پر بعض احباب ایسی تصاویر بھیجتے ہیں کہ ایک تصویر میں سماجی فاصلے کے تحت بیٹھ کر جس پر اپنا سٹیٹس لکھتے ہیں کہ سماجی فاصلے کے تحت گپ شپ ہو رہی ہے اور ساتھ ہی دوسری تصویر میں سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر کھا پی رہے ہوتے ہیں۔ دونوں تصاویر ایک دوسرے کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہیں۔

اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی تقاریب کی تصاویر دیکھیں تو وہ لوگ جو میڈیا پر بیٹھ کر سماجی فاصلے کے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں عام زندگی میں وہی بداحتیاطی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ بیوروکریٹ ہوں ڈاکٹر ہوں یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار لوگ ان کی عام زندگی میں سماجی فاصلے کا کوئی تصور نہیں۔

یہ حال ہم عوام کا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں کا بھی ہے۔ وہ جب اجلاس منعقد کرتے ہیں تو تصویر بنانے کے لیے فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایسی تصاویر بھی شائع ہوتی ہیں کہ جن میں سماجی فاصلے کے منہ پر تمانچے مارے جا رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے پاکستانی سفارتخانوں کی بعض تصاویر دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سماجی فاصلے کا نام پر محض ڈرامے کر رہے ہیں۔ جس قوم کے حکمران اور اعلی سرکاری اہلکار خود احتیاط کا مظاہرہ نہیں کریں گے وہاں عوام کیوں کر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم اور ہمارے حکمران دونوں مل کر سماجی فاصلے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جس معاشرے میں اس طرح کا رویہ اختیار کیا جائے گا وہاں کرونا جیسی وبائی مرض بڑھتی ہی رہے گی۔

اب جبکہ پاکستان میں سوا لاکھ لوگ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور شرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تو عمران خان کو تشویش پیدا ہوئی ہے اور اب وہ سخت لاک ڈاؤن کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اگر یہی لاک ڈاؤن وہ پہلے دن کر لیتے اور فوج کو لا کر پورے ملک میں کرفیو لگا لیتے تو آج ہم اس وبا سے نجات حاصل کر چکے ہوتے۔ اب تو عوام کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اگر کوئی سخت لاک ڈاؤن ہوا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments