رحمت علی رازی: وہی آبلے ہیں وہی جلن


عیداں تے شبراتاں آیاں سارے لوکی گھراں نو آئے
اؤ نہ آئے محمد بخشا جیڑے آپ ہتھی دفنائے
اشک آنکھوں سے رواں ہیں اور جگر جلتا ہے
کیا قیامت ہے کے برسات میں گھر جلتا ہے

اعلیٰ ظرف انسان اور بڑے آدمی کی یہ خصوصیت ہوتی ہے وہ دوسروں پہ اپنے علم، مرتبہ، اور حیثیت کا رعب نہیں ڈالتا نہ ہی دوسرے کو چھوٹا ثابت کرتا ہے۔ نئے آنے والوں کے لیے کڑی دھوپ میں شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ یہ تو چند سطری روایتی باتیں ہیں۔ رحمت علی رازی صاحب کو چند سطروں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ محب وطن سچا پاکستانی۔ نڈر صحافی، مستند کالم نگار، تحقیقی رپورٹر، بیوروکریسی کا نبض شناس، نئے صحافیوں کا محسن، خوش اطوار، خوش اندام، خوش اخلاق، خوش کردار، خوش لباس۔

سات اے پی این ایس ایوارڈ یافتہ واحد صحافی۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی ایوارڈ اور سندیں سمیٹے والا متحرک آدمی۔ اپنی ذات میں انجمن، محفلوں میں جان محفل۔ رازی صاحب کا تعلق اس قبیلے سے تھا جن کو جغادری صحافی کہا جاتا ہے۔ جو نرم گرم چشیدہ لوگ تھے۔ جنہوں نے صحافت کے اساتذہ سے سیکھا اور ان کے ساتھ کام کیا۔

رازی صاحب تو سراپا محبت و عشق حقیقی میں گوندھے ہوئے شب بیدار، صبح زندہ دار شخصیت کے مالک تھے۔ شاید کچھ نام کا بھی اثر تھا اسی لیے طبیعت میں رحمت، حلم اور ٹھہراؤ زیادہ تھا۔ ایک ولی صفت انسان، اک شفیق دوست، مہربان استاد اور شجر سایۂ دار۔ کون جانے کتنے گھروں کا چراغ ان کے لہو سے جلتا تھا۔ رازی صاحب تو اس سومنات جہاں میں محمود شکل ایاز تھے۔ ایک سال ہونے کو آیا۔

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
آج بھی ہے وہی چشم نم
آج بھی ہے پریشاں ہے پر غم
وہی آبلے ہیں وہی جلن کوئی سوز دل میں کمی نہیں
جو لگا کے آگ گئے تھے تم وہ لگی ہوئی ہے بجھی نہیں

لکھتے لکھتے بعض اوقات الفاظ ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ لفظ، حرف و معنی کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ تاروں کی لو ٹمٹمانے لگتی ہے۔ لفظوں کی بخیہ گری بے حضور سجدے بن جاتے ہے۔ سمجھ نہیں آتی کس طرح مصرع موزوں کروں۔ جب میں نے کالم نگاری شروع کی تو انھوں نے اک شفیق استاد کی طرح قدم قدم پہ رہنمائی فرمائی۔ یہ ان کی محبت اور شفقت ہی تھی جو میرے کالم روزنامہ طاقت کے صفحات کی زینت بننے لگے۔ جب تیز بات یا سخت جملہ لکھتا تو سمجھاتے اس کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے یا الفاظ کے چناؤ اور ہیر پھیر سے کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔ جس کو صحافتی زبان میں گر کی بات کہتے۔

میری ہر اتوار کو تیسرے پہر رحمت رازی صاحب سے فون پہ بات ہوتی کیونکہ اتوار کو ہی ان کا کالم شائع ہوتا تھا۔ ان کے کالم پہ سیر حاصل بات ہوتی۔ رازی صاحب کا رویہ حکومت کے خلاف عموماً سخت تھا۔ اک دفعہ میں نے رازی صاحب سے ازراہ تفنن پوچھا ”سر آپ حکومت کو رگیدتے بہت ہیں کوئی رعایت یا معافی نہیں ہے“ ۔ ان کا جواب بڑا شاندار تھا جو آگے چل کر میرے بڑا کام آیا۔ کہتے لگے ”بیٹا ہم صحافیوں کا کام حکومت پہ مثبت تنقید کرنا اور حق بات کہنا ہے۔

ہمارا کام حکومت کی فضول تعریف اور ہر بات پہ واہ، واہ کرنا نہیں۔ یہ کام تو ڈوم ڈھاری اور بھانڈ لوگوں کا ہے ”۔ افسوس صحافت میں اب زیادہ تر صرف واہ واہ والے ہی رہ گئے ہیں۔ یا پھر واہ واہ کرنے والوں نے صحافت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ جن کا کام ہر نئی حکومت کے آنے پہ تالیاں پیٹنا ٹھہرا۔ اس جہان فانی سے آخر سب کو جانا ہے۔ کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات۔ بہت کچھ لکھنے کو بہت کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔

بس نام رہے گا نام اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی۔ جو ناظر بھی ہے منظر بھی۔ جو اول بھی ہے آخر بھی۔ جو اعلیٰ بھی ہے افضل بھی۔ جو کامل بھی ہے اکمل بھی۔ جو خالق بھی ہے مالک بھی۔ جو حامی بھی ہے ناصر بھی۔ جو نہاں بھی ہے عیاں بھی۔ اللہ کریم سے دعا ہے وہ سب مرحومین کو اور رحمت علی رازی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے آمین۔

موت ہے تیری برات موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
اور باقی رہے گا تیرے رب کا خوبصورت چہرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments